خرید و فروخت میں اختیار اور اس کے شرعی اصول
تحریر : فتاویٰ سعودی فتویٰ کمیٹی

خرید و فروخت میں اختیار

اختیار کے ساتھ ایک مقرر مدت تک بیع کا حکم
اہل علم کا اختیار کے ساتھ ایک مقررہ مدت تک بیع کے جواز میں اختلاف ہے، جب یہ مدت تین دن سے زیادہ ہو۔ ایک گروہ نے اس کی اجازت دی ہے جبکہ دوسروں نے اس سے منع کیا ہے، لیکن صحیح تر موقف کے مطابق یہ جائز ہے، کیونکہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
«المسلمون على شروطهم إلا شرطا حر م حلالا أو أحل حراما» [سنن أبى داود، رقم الحديث 5349]
”مسلمانوں کی شرطوں کا اعتبار کیا جائے گا (یعنی ان پر عمل کرنا ضروری ہوگا) مگر وہ ایسی شرط نہ ہو جو حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر دے۔“
اس کے علاوہ دیگر دلائل بھی ہیں۔ جواز کے قائل تمام علماء کرام نے یہ بات بھی ذکر کی ہے کہ اس میں یہ قید لگائی جائے گی کہ اگر فروخت کرنے والا بیچنے میں رغبت رکھتا ہو اور خریدنے والا خریدنے میں، لیکن اختیار کی شرط صرف اس لیے لگائے کہ سامان میں کوئی شبہ ہے، یا قیمت میں کوئی بات زیر غور ہے یا کوئی اور اچھا مقصد ہو۔
اگر معاہدہ بیع کا مقصد خریدار کا خرید شدہ سامان کی آمدن سے فائدہ اٹھانا ہو اور فروخت کرنے والے کا قیمت سے مستفید ہونا اور دونوں بائع اور مشتری کا ارادہ ہو کہ جب فروخت کرنے والا قیمت واپس کرنے پر قادر ہو جائے گا تو بیع (سودا) فسخ کر دی جائے گی تو یہ جائز نہیں بلکہ سود ہے کیونکہ یہ قرض کے مفہوم میں ہے اور ہر وہ قرض جس میں منافع کی شرط ہو وہ با جماع (با تفاق حرام ہے۔
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس جیسے معاملے میں خریدار کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سامان سے فائدہ اٹھائے، تا آنکہ اس کی قیمت اسے واپس مل جائے اور اس مال کا منافع ضائع نہ ہو جائے جو فروخت کنندہ کے قبضے میں ہے۔ ہر وہ حیلہ جس کے ذریعے سود حلال کیا جائے باطل ہے، کیونکہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
«لا ترتكبوا ما ارتكبت اليهود فتستحلوا محارم الله بأدني الحيل» [ضعيف: غاية المرام، رقم الحديث 11]
’’ اس برائی کا ارتکا ب نہ کرو جس کا ارتکا ب یہود نے کیا، مبادا تم چھوٹے چھوٹے حیلوں سے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیا کو حلال کرنے بیٹھ جاؤ۔“
اس حدیث کو ابو عبد اللہ بن بطہ نے حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ اس کے ہم معنی حدیث بھی صحیحین میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«قاتل الله اليهود لما حرم الله عليهم الشحوم جملوها ثم باعوها فأكلوا ثمنها» [صحيح البخاري، رقم الحديث 2236 صحيح مسلم 1581/71]
”اللہ تعالیٰ یہود کا ستیاناس کرے ! جب اللہ تعالیٰ نے ان پر چربی حرام کر دی تو انہوں نے اسے پگھلا لیا، پھر اسے بیچ ڈالا اور اس کی قیمت کھا گئے۔“
اہل علم کی ایک جماعت نے اس مسئلے کا واضح الفاظ میں ذکر کیا اور اس کی حر مت بیان کی ہے۔ ان میں شیخ علامہ عبد الرحمن بن ابو عمر حنبلی صاحب ”الشرح الکبیر“ کا نام بھی شامل ہے، ان کی عبارت [80/4] پر ملاحظہ فرمائیں، وہ لکھتے ہیں:
”جب وہ قرض سے فائدہ اٹھانے کی خاطر بطور حیلہ اختیا کی شرط لگائے تاکہ قرض دار کے قیمت سے مستفید ہونے کی مدت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس فروخت شدہ سامان کی آمدن اور منافع حاصل کر سکے، پھر قیمت لوٹانے کے وقت ’’اختیا کی شرط کی وجہ سے سودا واپس کر دے، ایسی صورت میں کوئی اختیار نہیں، کیونکہ یہ حیلہ سازی ہے اور قیمت لینے والے کے لیے اختیار کی مدت میں اس سے فائدہ اٹھانا یا اس میں تصرف کرناجائز نہیں۔“

اثرم کہتے ہیں:
”میں نے ابو عبد اللہ سے سنا، ان سے سوال کیا گیا: ایک آدمی کسی دوسرے آدمی سے کوئی چیز خریدتا ہے جیسے کوئی زمین، اور کہتا ہے: فلاں، فلاں مدت تک مجھے اختیار ہے، اس نے کہا جائز ہے، اگر حیلہ نہ ہو، یعنی: وہ اس کو قرض دینا چاہتا ہے اور نتیجے میں اس سے زمین لے لیتا ہے، پھر اس سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اس میں شرط خیار عائد کر دیتا ہے تاکہ اس حملے کے ذریعے اس نے جو قرض دیا تھا اس میں نفع کما سکے، اگر اس کا یہ ارادہ نہیں تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں۔“
ابو عبد اللہ سے پوچھا گیا: اگر اس کی خیر خواہی کرتے ہوئے اس نے اس کو مال بطور قرض دینے کا ارادہ کیا اور اسے خدشہ ہوا کہ وہ چلا جائے گا لہٰذا وہ اس سے کچھ خرید لیتا ہے اور شرط اختیار عائد کر دیتا ہے جبکہ اس نے اختیار کی شرط عائد کر دی، اس کا حیلہ سازی کا کوئی ارادہ نہیں؟ تو انہوں نے کہا: یہ جائز ہے، البتہ یہ ہے کہ اگر وہ مر گیا تو اختیار منقطع ہو جائے گا، اس کے ورثا کے لیے نہیں ہوگا۔
”س مسئلے میں امام احمد کے جواز کا قول اس سودے پر محمول ہوگا جس سے فائدہ نہ اٹھایا جائے، الا یہ کہ وہ تلف ہو جائے، یا اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ خریدار اختیار کی مدت میں سامان سے فائدہ نہ اٹھائے تاکہ یہ اس قرض کی طرف نہ لے جائے جو منافع کماتا ہے۔“
اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بیع اگر قرض کے مقصد اور ارادے سے خالی ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ یہاں ابو عبد اللہ سے ان کی مراد امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ہیں۔
حیلہ سازی کی ایک یہ علامت ہے کہ وہ اس کو زمین یا کوئی بھی چیز اس کی اس قیمت سے کم پر فروخت کر دے، جس قیمت میں اسے بیچا جاتا ہے، اگر حقیقت میں بیع مقصود ہوتی تو کیا اس طرح ہوتا ہے کہ آدمی جو چیز سو کی ہے اسے پچاس میں بیچ دے؟ اس نے یہ کام اس وجہ سے کیا ہے کہ اس کو یقین ہے کہ یہ بیع نہیں بلکہ بیع کی صورت میں قرض ہے۔ واللہ اعلم
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 125/19]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے