ختم نبوت کے انکار پر مبنی پرویز کے 10 باطل نظریات
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

ایمان بالرسول

عقیدۂ رسالت: وہبی منصب

تمام مسلمانوں کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ نبوت و رسالت ایک عطائی اور وہبی منصب ہے۔
اللہ تعالیٰ جسے چاہے، اپنی وحی کے لیے منتخب فرماتا ہے۔
کسی شخص کی ذاتی محنت، عبادت، یا ریاضت اسے نبوت یا رسالت کے مرتبے پر فائز نہیں کر سکتی۔
یہ اللہ تعالیٰ کا مخصوص انتخاب ہے، جو اس کی حکمت اور مشیّت پر مبنی ہوتا ہے۔

تکمیلِ رسالت

مسلمانوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد بے شمار انبیاءِ کرام علیہم السلام مبعوث ہوئے۔
لیکن اب رسالت و نبوت کا سلسلہ محمد ﷺ پر مکمل ہو چکا ہے۔
آپ ﷺ کے بعد کوئی شخص نبی یا رسول نہیں ہو سکتا۔

قرآنِ کریم کی آیت:
﴿وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُوْل﴾
(آلِ عمران:١٤٤)
کلمہ "حصر” کے ساتھ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ محمد ﷺ ہی آخری رسول ہیں۔

امت کے مجاہدین اور ان کی حیثیت

جو شخص اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے محنت کرے یا عملاً اسے نافذ کر دے، اس کی حیثیت رسول اللہ ﷺ کے ادنیٰ امتی سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔
جو کوئی محمد ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے یا کسی امتی کو رسول کہے، یا قرآنی آیات (جن میں "رسول” کا ذکر ہے) کو کسی مرکزِ حکومت پر منطبق کرے، وہ:
◈ ختمِ نبوت کا منکر ہے۔
◈ امت کے اجماعی عقیدہ کے مطابق اسلام کے دائرے سے خارج ہے۔

غلام احمد پرویز اور منصبِ رسالت پر دست درازی

"اللہ و رسول” کو ایک مجموعی اصطلاح بنانا

غلام احمد پرویز آیت:
﴿فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُوٴْمِنُوْنَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَبَيْنَہمْ﴾
کی تشریح کرتے ہوئے لکھتا ہے:
"قرآن سے فیصلہ انفرادی طور پر نہیں لیا جائے گا، بلکہ اس کے لیے ایک زندہ اور محسوس ثالث اور حاکم کی ضرورت ہوگی۔ اس فیصلہ کرنے والی اتھارٹی کو قرآن میں ‘اللہ اور رسول’ کی جامع اصطلاح سے تعبیر کیا گیا ہے۔”
(سلیم کے نام، ج۲، ص۳۲۸)
پرویز نے "اللہ و رسول” کو جامع اصطلاح قرار دے کر اس میں کئی افراد کو شامل کرنے کی کوشش کی، حالانکہ کوئی مسلمان ایسا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ کسی امتی کو "رسول” کا لقب دیا جائے۔

"رسول” کا مطلب: مرکزِ نظامِ اسلامی؟

پرویز مزید کہتا ہے:
"اللہ اور رسول سے مراد وہ مرکزِ نظامِ اسلامی ہے جہاں سے قرآنی احکام نافذ ہوں۔”
(معراجِ انسانیت، ص۳۱۸)
پرویز کے نزدیک "قرآنی احکام” سے مراد وہ نہیں جو صحابہ کرام یا رسول اکرم ﷺ کے زیرِ عمل رہے، بلکہ وہ احکام ہیں جو فرنگی افکار کی روشنی میں اس نے خود گھڑ لیے اور انہیں قرآن کی آیات سے جوڑنے کی کوشش کی۔

"مفہوم القرآن” اور "مطالب الفرقان” کی حقیقت

ایسے افکار کو پرویز اپنی تالیفات "مفہوم القرآن” اور "مطالب الفرقان” کے ذریعے پیش کرتا ہے۔
بعض لوگ ان باطل افکار کو اسلامی اور قرآنی سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں۔
جبکہ قرآن و سنت کی سمجھ رکھنے والے لوگ پرویز کے تحریفات پر افسوس کرتے رہ جاتے ہیں۔

پرویز کی تالیفات اور تکرارِ باطل

جھوٹ کو بار بار دہرانے سے لوگ اسے سچ سمجھنے لگتے ہیں۔
پرویز کی کتب میں جھوٹ اور افتراء کی تکرار پائی جاتی ہے جس سے اس کے عقیدت مند ان باتوں کو حق سمجھنے لگتے ہیں۔
یہ افکار ملحد مستشرقین کی پیداوار ہیں، جنہیں پرویز "قرآنی و اسلامی احکام” کا لبادہ پہنا کر پیش کرتا رہا۔

"اللہ و رسول” = حکومت و افسران؟

پرویز لکھتا ہے:
"حکومت کے انتظامی امور کے لیے ایک مرکز ہوگا اور اس مرکز کے ماتحت افسرانِ مجاز، قرآنِ کریم میں اس کے لیے ’خدا و رسول‘ کی اصطلاح آئی ہے۔”
(قرآنی قوانین، ص۶)
حالانکہ قرآنی آیات میں "اللہ و رسول” کا ذکر مفرد الفاظ میں آیا ہے، اور ان سے مراد اللہ تعالیٰ اور اس کا پیغمبر محمد رسول اللہ ﷺ ہی ہیں۔
پرویز لیکن "خدا و رسول” کو حکومت و افسران پر منطبق کرتا ہے اور کہتا ہے:
"(اسلامی نظام) سابقہ ادوار کے فیصلوں میں خواہ وہ رسول اللہ کے زمانے میں ہی کیوں نہ صادر ہوئے ہوں، رد و بدل کر سکتا ہے اور بعض فیصلوں کو منسوخ بھی کر سکتا ہے۔”
(شاہکارِ رسالت، ص۲۸۱)

رسول اللہ ﷺ کے احکامات کی منسوخی؟

پرویز کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ:
رسول اللہ ﷺ پر نازل شدہ وحی بھی قابل منسوخی ہو سکتی ہے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نبی کے احکامات میں کوئی نسخ اللہ کی طرف سے وحی کی صورت میں ہوتا ہے، نہ کہ کسی حکومت کی خواہش یا افسران کے فیصلے سے۔

پرویز کے بقول:
"قرآن میں جہاں ’اللہ اور رسول‘ کے الفاظ اکٹھے آتے ہیں، وہاں اس سے مراد اسلامی نظامِ حکومت ہے۔”
(قرآنی فیصلے، ج۱، ص۲۳۷)
یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پرویز قرآنی اصطلاحات میں خود ساختہ تاویلات گھڑتا ہے اور "رسول” کے لفظ کو ذاتی نبوت کی بجائے کسی ادارے کا عنوان سمجھتا ہے۔

"رسول” کا ہر مقام پر مطلب: مرکزِ حکومت؟

پرویز آیت:
﴿ وَاِذَا جَاءَهمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہ وَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهمْ ﴾
(النساء: ٨٣)
کی تشریح یوں کرتا ہے:
"ایسی باتوں کو رسول (یعنی مرکزی اتھارٹی) یا اپنے افسرانِ ماتحت تک پہنچانا چاہیے…”
(مفہوم القرآن، ج۱، ص۲۰۵)
یہاں بھی "رسول” کا مطلب مرکزی اتھارٹی لیا گیا، خواہ یہ لفظ "اللہ” کے ساتھ ہو یا تنہا، پرویز کے ہاں اس سے مراد فردِ واحد (محمد ﷺ) نہیں ہوتا۔

محمد رسول اللہ ﷺ: نبی یا صرف مصلح؟

پرویز محمد ﷺ کا ذکر بھی کرتا ہے، مگر ان پر وحی کے نزول کا منکر ہے۔
لکھتا ہے:
"یہ کہتے ہیں کہ آپ مامور من اللہ تھے، جو کچھ اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتا، آپ اس کی تعمیل کرتے تھے…”
(معراجِ انسانیت از پرویز: ص۱۷۴)

جبکہ امام راغبؒ کی معتبر لغت "المفردات” کے مطابق:
”النبوة سفارة بین اللہ وبین ذوي العقول من عبادہ لإزاحة علتهم في أمر معادهم ومعاشهم“ (المفردات: ص ۴۸۲)
یعنی "نبی، اللہ اور اس کے عقلمند بندوں کے درمیان پیغامبر ہوتا ہے، جو ان کی دنیا و آخرت کے فساد کو دور کرنے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔”

قرآنِ کریم میں بھی وحی کے نزول کی متعدد آیات موجود ہیں۔

نتیجہ: پرویز کے عقائد کا اسلام سے انحراف

غلام احمد پرویز نے:
◈ "رسول” کا مطلب بدل کر اس کی جگہ "مرکزی اتھارٹی” یا "اسلامی حکومت” مراد لی۔
◈ محمد ﷺ کے مامور من اللہ ہونے کا انکار کیا۔
◈ وحی کے انکار اور خود ساختہ تشریحات کے ذریعے مسلمانوں کے اجماعی عقیدے کی مخالفت کی۔

اس سب کے نتیجے میں:
غلام احمد پرویز دائرۂ اسلام سے خارج ہو چکا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1