ختم نبوت پر اجماع امت
تحریر: غلام  مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ، کتاب کا پی ڈی ایف لنک

اجماع امت

ذیل میں ختم نبوت پر اجماع امت سے متعلق گواہیاں پیش کی جارہی ہیں، تا کہ یہ مسئلہ خوب واضح ہو جائے اور شک کی گنجائش باقی نہ رہے۔

بس اتنا سمجھ لیجئے کہ تاریخ کے دریچے میں کوئی ایک مسلمان ایسا نظر نہیں آتا، جو یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ نبی کریم ﷺ کے بعد کسی نبی کی گنجائش یا امکان باقی ہے۔

یہ شریعت آخری شریعت ہے، اس کا نبی آخری نبی ہے، نہ اس کے بعد کوئی شریعت ہے، نہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی۔ اس کے بعد قیامت ہے، اس کے بعد حشر برپا ہوگا۔

البتہ اس سے پہلے تیس کذاب آئیں گے، جو نبوت کا دعوی کریں گے اور کہیں گے : لوگو! آؤ، ہماری پیروی کرو اور مسلمان ان کے جھوٹ کو جان لیں گے، دلیل مانگنے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئے گی کہ بدیہیات کو دلیل سے ثابت نہیں کیا جاتا، وہ اپنا آپ خود ظاہر کر دیتی ہیں اور عقیدہ ختم نبوت مسلمان کی سرشت اور حسیات میں داخل کر دیا گیا ہے، ایک مسلمان کے پاس کوئی دلیل نہ ہو، تو بھی وہ تصور نہیں کرسکتا کہ محمد ﷺ کے بعد کسی کو نبی تسلیم کر لے۔

سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہاتھ میرے اس دعا کے بعد

لیکن یہاں تو دلائل کے انبار ہیں، نصوص کے پہاڑ ہیں اور اجماع امت کے نور افگن، ضوفشاں ستارے ہمہ وقت وہمہ لحظہ جگمگا اور قمقما رہے ہیں کہ
لَا نَبِيَّ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَا أُمَّةَ بَعْدَ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

علامہ تفتازانیؒ (۷۹۳ھ) کہتے ہیں:
مَا اتَّفَقَ عَلَيْهِ الْمُجْتَهِدُونَ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ فِي عَصْرٍ عَلى أَمْرٍ فَهَذَا مِنْ خَوَاصٌ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ، فَإِنَّهُ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ فَلَا وَحْيَ بَعْدَهُ.
’’مجہتدین امت کا کسی معاملہ پر کسی بھی زمانہ میں اجماع کر لینا، امت محمد ﷺ کا خاصہ ہے، نبی کریم ﷺ خاتم النبین ہیں، آپ کے بعد وحی منقطع ہو چکی ہے۔“
(شرح التلويح على التوضيح : ۱۰۰/۲)

❀ علامہ ابو حامد غزالیؒ (۵۰۵ ھ) لکھتے ہیں:
إِنَّ الأُمَّةَ فَهِمَتْ بِالْإِجْمَاعِ مِنْ هَذَا اللَّفْظِ وَمِنْ قَرَائِنِ أَحْوَالِهِ أَنَّهُ أَفْهَمَ عَدَمَ نَبِي بَعْدَهُ أَبَدًا وَّعَدَمَ رَسُولِ اللَّهِ أَبَدًا وَأَنَّهُ لَيْسَ فِيهِ تَأْوِيلٌ وَلَا تَحْصِيص، فَمُنْكِرُ هَذَا لَا يَكُونُ إِلَّا مُنْكِرَ الْإِجْمَاعِ.
’’امت کے اجماع نے لفظ لَا نَبِيَّ بَعْدِي اور دوسرے قرائن سے یہ بات سمجھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے بعد کسی بھی دور میں نبوت یا رسالت کے امکان کے کلی نفی کی ہے۔ اس میں کوئی تاویل یا تخصیص نہیں کی جاسکتی، اس کا منکر اجماع کا منکر ہے۔“
(الاقتصاد في الاعتقاد:۱۳۷)

❀ مفسر ابن عطیہؒ (۵۴۲ھ) لکھتے ہیں :
هذِهِ الْأَلْفَاظُ عِنْدَ جَمَاعَةِ عُلَمَاءِ الْأُمَّةِ خَلَفًا وَسَلَفًا مُّتَلَقَّاةٌ عَلَى الْعُمُومِ التّامَ مُقْتَضِيَةٌ نَصًا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
’’علمائے امت سلف وخلف کے نزدیک یہ الفاظ عام ہیں اور نص ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘
(تفسیر ابن عطية : ۳۸۸/۴)

❀ قاضی عیاضؒ (۵۴۴ھ) بیان کرتے ہیں:
نُزُولُ عِيسَى الْمَسِيحِ وَقَتْلُهُ الدَّجَّالَ حَقٌّ صَحِيحٌ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ؛ لِصَحِيحِ الْآثَارِ الْوَارِدَةِ فِي ذَلِكَ، وَلِأَنَّهُ لَمْ يَرِدْ مَا يُبْطِلُهُ وَيُضَعِفُهُ، خِلَافًا لِبَعْضِ الْمُعْتَزِلَةِ وَالجَهْمِيَةِ، وَمَنْ رَأَى رَأْيَهُمْ مِنْ إِنْكَارِ ذَلِكَ، وَزَعْمِهِمْ أَنَّ قَوْلَ اللَّهِ تَعَالَى عَنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ»، وَقَوْلَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا نَبِيَّ بَعْدِي، وَإِجْمَاعَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى ذلِكَ وَعَلَى أَنَّ شَرِيعَةَ الْإِسْلَامِ بَاقِيَّةٌ غَيْرُ مَنْسُوحَةٍ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ يَرُدُّ هَذِهِ الْأَحَادِيثَ، وَلَيْسَ كَمَا زَعَمُوهُ؛ فَإِنَّهُ لَمْ يَرِدْ فِي هَذِهِ الْأَحَادِيثِ أَنَّهُ يَأْتِي بِنَسْخِ شَرِيعَةٍ وَّلَا تَجْدِيدِ أَمْرِ نُبُوَّةِ وَرِسَالَةٍ، بَلْ جَاءَتْ بأَنَّهُ حَكَمٌ مُّقْسِطُ، يَجِيءُ بِمَا يُجَدِّدُ مَا تَغَيَّرَ مِنَ الْإِسْلَامِ، وَبِصَلَاحِ الْأُمُورِ وَالْعَدْلِ، وَكَسْرِ الصَّلِيبِ، وَقَتْلِ الْخَنْزِيرِ ، أَنَّ إِمَامَ الْمُسْلِمِينَ مِنْهُمْ كَمَا قَالَ عَلَيْهِ السَّلَامُ.
’’سیدنا عیسیؑ کا نزول اور ان کے ہاتھوں دجال کا قتل، نصوص شرعیہ سے ثابت ہے اور یہی اہل سنت کا عقیدہ ہے، اس کے ضعیف یا باطل ہونے پر کوئی دلیل نہیں۔ جہمیہ اور بعضے معتزلہ کہتے ہیں کہ سیدنا عیسیؑ کے نزول کی احادیث، قرآنی آیت کے خلاف ہیں، عقیدہ ختم نبوت اور شریعت محمدیہ کے تا قیامت باقی رہنے والے عقیدے پر اجماع کے بھی خلاف ہیں، اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث کے بھی خلاف ہیں، فرمایا : ”میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ لیکن جہمیہ کے یہ اعتراضات باطل ہیں، کیوں کہ سیدنا عیسیؑ بطور ناسخ شریعت اور نئے نبی کے نہیں آئیں گے، بلکہ حاکم و عادل بن کر آئیں گے، اسلام کے جو امور تبدیل کئے جارہے ہوں گے، ان کی اصلاح کریں گے، صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے، جب کہ مسلمانوں کا امام انہی میں سے ہوگا، جیسا کہ نبی کریم ﷺ فرما گئے ہیں۔“
(إكمال المُعلم بفوائد مسلم :۴۹۳/۸)

❀ مفسر قرطبیؒ (۶۷۱ھ) لکھتے ہیں :
رُوِيَ مِنْ طَرِيقِ التَّوَاتُرِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَحْتَمِلَ تَأْوِيلًا بِإِجْمَاعِ الْأُمَّةِ قَوْلُهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ : لَا نَبِي بَعْدِي.
’’فرمان نبوی: ”میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔“ کے متواتر ہونے پر امت کا اجماع ہے، اس میں کسی قسم کی تاویل کا احتمال نہیں۔‘‘
(تفسير القرطبي :۲۹/۱۱)

❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ (۷۲۸ھ) فرماتے ہیں :
مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ لَا نَبِي بَعْدَهُ فَعَصَمَ اللهُ أُمَّتَهُ أَن تَجْتَمِعَ عَلى ضَلَالَةٍ.
’’محمد ﷺ خاتم الانبیا ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی نہیں، اللہ نے امت محمدیہ ﷺ کو اس بات سے محفوظ رکھا ہے کہ وہ گمراہی پر متفق ہو جائے۔“
(مجموع الفتاوى : ۳۶۸/۳،۳۲۹/۲۷)

مزید لکھتے ہیں:
إِنَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَلَا نَبِي بَعْدَهُ وَقَدْ جَمَعَ اللهُ فِي شَرِيعَتِهِ مَا فَرَّقَهُ شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَهُ مِنَ الْكَمَالِ؛ إِذْ لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ فَكَمُلَ بِهِ الْأَمْرُ كَمَا كَمُلَ بِهِ الدِّينُ فَكِتَابُهُ أَفْضَلُ الْكُتُبِ وَشَرْعُهُ أَفْضَلُ الشَّرَائِعِ وَمِنْهَاجُهُ أَفْضَلُ الْمَنَاهِج وَأُمَّتُهُ خَيْرُ الْأُمَمِ وَقَدْ عَصَمَهَا اللهُ عَلَى لِسَانِهِ فَلَا تَجْتَمِعُ عَلى ضَلَالَةٍ وَلكِنْ يَكُونُ عِنْدَ بَعْضِهَا مِنَ الْعِلْمِ وَالْفَهْمِ مَا لَيْسَ عِنْدَ بَعْضٍ.
’’رسول اللہ ﷺ خاتم النبیین ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ آپ کی شریعت میں اللہ نے کمال کی وہ تمام خوبیاں جمع کر دی ہیں جو پہلی شریعتوں میں متفرق تھیں، کیونکہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں، آپ کے آنے سے جہاں دین مکمل ہوا، وہاں کا رنبوت بھی مکمل ہو گیا۔ آپ ﷺ کی کتاب تمام کتابوں سے، آپ کی شریعت تمام شریعتوں سے اور آپ کا منہج تمام مناہج سے افضل ہے، نیز آپ ﷺ کی امت تمام امتوں سے بہتر ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی امت کو اس لحاظ سے معصوم بنایا ہے کہ کبھی بھی وہ گمراہی پر جمع نہیں ہوگی۔ اس امت کے بعض لوگوں کے پاس ایسا علم وفہم ہوگا، جو دوسروں کے پاس نہیں ہوگا۔‘‘
(مجموع الفتاوی:۱۵۹/۳۳)

❀ علامہ ابن الوزیرؒ (۸۴۰ھ) لکھتے ہیں:
إِنَّ الأُمَّةَ أَجْمَعَتْ عَلَى انْقِطَاعِ الْوَحْيِ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَّهُ لَا طَرِيقَ لِأَحَدٍ مِّنْ بَعْدِهِ إِلَى مُعَارَضَةِ مَا جَاءَ بِهِ فَمَنِ ادَّعَى ذَلِكَ وَجَوَّزَ تَغْيِيرَ شَيْءٍ مِّنَ الشَّرِيعَةِ بِذلِكَ ، فَكَافِرٌ بِالْإِجْمَاعِ.
’’امت کا اجماع ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے اور آپ ﷺ کی شریعت سے معارضہ کی گنجائش باقی نہیں رہی، اب جو اس قسم کا دعوی کرتا ہے یا شریعت کے کسی جز میں تغیر و تبدل کی بات کرتا ہے، تو وہ بالا جماع کافر ہے۔‘‘
(إيثار الحق:۷۲)

❀ علامه طحطاویؒ (۱۲۳۱ھ) لکھتے ہیں:
وَيُشْتَرَطُ لِصِحَّةِ الإِيْمَان بِه صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعْرِفَةٌ اسْمِه إِذْ لَا تَتِمُّ الْمَعْرِفَةُ إِلَّا بِهِ وَكَوْنِهِ بَشَرًا مِّنَ الْعَرَبِ وَكَوْنِهِ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ اتِّفَاقًا لِوُرُودِ ذَلِكَ الْقَوَاطِحِ الْمُتَوَاتِرَةِ.
’’متواتر اور قطعی الدلالہ نصوص کی بنا پر صحت ایمان کے لئے شرط ہے کہ نبی کریم ﷺ کے اسم گرامی کا علم ہو، کیوں کہ نام کے بغیر معرفت ہوتی ہی نہیں۔ نیز یہ جاننا بھی شرط ہے کہ آپ ﷺ بشر ہیں، آپ کا تعلق عرب سے ہے اور آپ بالاتفاق خاتم النبین ہیں۔‘‘
(حاشیة الطحطاوي، ص ۱۰)

❀ علامہ ابن عاشورؒ (۱۳۹۳ھ) لکھتے ہیں:
آلآيَةُ نَصِّ فِي أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَأَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ فِي البَشَرِ، لأنَّ النَّبِيِّينَ عَامٍ، فَخَاتَمُ النَّبِيِّينَ هُوَ خَاتَمُهُمْ فِي صِفَةِ النُّبُوءَةِ، وَلَا يُعَكِرُ عَلَى نَصِيَّةِ الْآيَةِ أَنَّ الْعُمُومَ دَلَالَتُهُ عَلَى الْأَفْرَادِ ظَنِّيَّةٌ لِأَنَّ ذَلِكَ لِاحْتِمَالِ وُجُودِ مُخَصَّص، وَقَدْ تَحَقَّقْنَا عَدَمَ الْمُخَصَّصِ بِالِاسْتِقْرَاءِ . وَقَدْ أَجْمَعَ الصَّحَابَةُ عَلَى أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمُ الرُّسُلِ وَالْأَنْبِيَاءِ وَعُرِفَ ذَلِكَ وَتَوَاتَرَ بَيْنَهُمْ وَفِي الْأَجْيَالِ مِنْ بَّعْدِهِمْ وَلِذلِكَ لَمْ يَتَرَدَّدُوا فِي تَكْفِيرِ مُسَيْلِمَةَ وَالْأَسْوَدِ الْعَنْسِي فَصَارَ مَعْلُومًا مِّنَ الدِّينِ بِالضَّرُورَةِ فَمَنْ أَنْكَرَهُ، فَهُوَ كَافِرٌ خَارِجٌ عَنِ الْإِسْلَامِ وَلَوْ كَانَ مُعْتَرِفًا بِأَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُولُ اللهِ لِلنَّاسِ كُلِّهِمْ . وَهَذَا النَّوْعُ مِنَ الْإِجْمَاعِ مُوجِبُ العِلم الضَّرُورِي كَمَا أَشَارَ إِلَيْهِ جَمِيعُ عُلَمَاءِ نَا.
’’یہ آیت رسول اللہ ﷺ کی ختم نبوت پر نص ہے، آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں، النبیین کا لفظ تمام انبیا کے لئے بولا گیا ہے اور خاتم کا معنی ہے صفت نبوت کو ختم کرنے والا، یہ کہ کر کہ عموم کی اپنے افراد پر دلالت ظنی ہوتی ہے، اس عقیدے کو گد لانے کی کوشش کرنا بالکل غلط ہے، عموم کی دلالت اپنے تمام افراد پر منطبق ہوتی ہے، جب تک کہ کسی کی تخصیص نہ کر دی جائے، نصوص شریعت میں استقرا سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے میں کسی کی تخصیص نہیں کی گئی ۔ محمد رسول اللہ ﷺ کا خاتم الرسل والانبیا ہونے پر صحابہ کا اجماع ہے، یہ اس زمانے میں اور بعد کے زمانوں میں تواتر سے ثابت ہے۔ اسی لئے صحابہ نے مسیلمہ اور اسود عنسی کی تکفیر میں ذرا بھی توقف سے کام نہیں لیا، یہ ضروریات دین سے ہے۔ جو اس کا انکار کرے گا کافر ہوگا، بھلے وہ محمد ﷺ کو تمام انسانوں کا نبی مانتا ہو۔ اجماع کی یہ قسم علم یقینی کا فائدہ دیتی ہے، جیسا کہ ہمارے تمام علما نے بتایا ہے۔‘‘
(التحرير والتنوير : ۴۵/۲۲)

❀ علامہ امیر صنعانیؒ (۱۱۸۲ھ) لکھتے ہیں:
إِنَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمُ الرُّسُلِ وَالْأَنْبِيَاءِ وَشَرِيعَتُهُ بَاقِيَةٌ إِلَى آخِرِ الدُّنْيَا وَهذَا أَمْرٌ مُّجْمَعٌ عَلَيْهِ وَأَمَّا نُزُولُ عِيسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آخِرَ الزَّمَانِ، فَهُوَ يَنْزِلُ مُتَّبِعًا لِشَرِيْعَتِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ مَبْعُوثٍ.
’’رسول الله ﷺ خاتم الرسل و النبیین ہیں اور آپ کی شریعت دنیا کے اختتام تک باقی رہے گی، اس پر اجماع ہے۔ سیدنا عیسیؑ نبی کریم ﷺ کی شریعت کے متبع بن کر نازل ہوں گے ، نہ کہ مبعوث ہو کر۔“
(التنوير شرح الجامع الصغير:۴۶۶/۳)

❀ علامه ابن بازؒ (۱۴۲۰ھ) فرماتے ہیں:
لَمَّا كَانَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ رَسُولًا عَامَّا إِلَى جَمِيعِ الثَّقَلَينِ اقْتَضَتْ حِكْمَةُ اللَّهِ سُبْحَانَهُ أَن تَكُونَ شَرِيعَتُهُ أَوْفَى الشَّرَائِعِ وَأَكْمَلَهَا وَأَتَمَّهَا انْتِطَامًا لِّمَصَالِحِ الْعِبَادِ فِي الْمَعَاشِ وَالْمَعَادِ، فَهُوَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِينَ، كَمَا قَالَ تَعَالَى: ﴿مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ﴾ وَتَوَاتَرَتِ الْأَحَادِيثُ عَنْ رَّسُولِ اللهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ بِأَنَّهُ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ، وَهَذَا أَمْرٌ بِحَمْدِ اللهِ مُجْمَعٌ عَلَيْهِ وَمَعْلُومٌ بالضَّرُورَةِ مِنْ دِينِ الْإِسْلَامِ، وَقَدْ أَجْمَعَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى أَنَّ شود مَنِ ادَّعَى النُّبُوَّةَ بَعْدَهُ فَهُوَ كَافِرُ كَاذِبٌ يُسْتَتَابُ، فَإِنْ تَابَ وَإِلَّا قُتِلَ كَافِرًا.
’’چونکہ نبی کریم ﷺ خاتم النبین ہیں اور تمام جن وانس کی طرف رسول ہیں، اس لیے حکمت الہی کا تقاضا یہ ہے کہ آپ ﷺ کی شریعت انسانوں کی معاشی و اقتصادی مصلحتوں کی تنظیم میں تمام شرائع سے کامل ترین ہو محمد ﷺ خاتم النبین ہیں، اللہ فرماتے ہیں : مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبيين ’’محمد ﷺ مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، بلکہ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں۔‘‘ اسی طرح آپ کا خاتم النبیین ہونا، متواتر احادیث سے ثابت ہے، الحمداللہ یہ اجماعی مسئلہ ہے اور ضروریات دین میں سے ہے۔ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ نبی کریم ﷺ کے بعد نبوت کا دعوی کرنے والا کافر اور جھوٹا ہے، اس سے توبہ کروائی جائے گی، توبہ کر لے تو ٹھیک ورنہ اس کافر کو قتل کر دیا جائے گا۔“
(مجموع فتاوی ابن باز:۲۲۲/۲،۲۲۳)

وحی منقطع ہو چکی! :

ختم نبوت کی بحث میں یہ بات بد اہیہ معلوم ہو جاتی ہے کہ جب نبوت ہی باقی نہ رہی، تو وحی کہاں باقی رہے گی، نبوت کے بعد وحی کا سلسلہ بھی ختم ہو جاتا ہے، اسی لئے سیدنا عمر بن خطابؓ نے فرمایا تھا :
أَلَا وَإِنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِ انْطَلَقَ وَقَدِ انْقَطَعَ الوحي.
’’خبردار! نبی کریم ﷺ دنیا سے چلے گئے اور وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد :۴۱/۱، وسنده حسن)

مزید فرمایا:
إِنَّ الْوَحْيَ قَدِ انْقَطَعَ
’’وحی منقطع ہوچکی ہے۔“
(صحیح البخاري:۲۶۴۱)

سیدہ ام ایمنؓ سے جب پوچھا گیا کہ آپ روتی کیوں ہیں تو فرمایا اس لئے روتی ہوں کہ آسمان سے سلسلہ وحی منقطع ہو چکا ہے۔
(صحیح مسلم:۲۴۵۴)

❀ علامه ابن حزمؒ (۴۵۶ھ) لکھتے ہیں :
اِتَّفَقُوا أَنَّهُ مُدْ مَاتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَدِ انْقَطَعَ الْوَحْيُ وَكَمُلَ الدِّينُ وَاسْتَقَرَّ وَأَنَّهُ لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ أَن يَزِيدَ شَيْئًا مِنْ رَأْيِهِ بِغَيْرِ اسْتِدْلَالٍ مِّنْهُ وَلَا أَنْ يَنْقُصَ مِنْهُ شَيْئًا، وَلَا أَن يُبْدِلَ شَيْئًا مَكَانَ شَيْءٍ وَلَا أَنْ تُحْدِثَ شَرِيعَةٌ وَأَنَّ مَنْ فَعَلَ ذلِك كَافِرُ.
’’مسلمانوں کا اجماع ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہے، دین مکمل ہو چکا ہے، اس کے بعد اب کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنی رائے سے دین میں کمی بیشی کرے، کسی حکم کو تبدیل کرے یا کوئی نئی شریعت کھڑی کر دے، ایسا کرنے والا کافر ہے۔‘‘
(مراتب الإجماع :۱۷۴)

مزید لکھتے ہیں:
إِذْ قَدِ انْقَطَعَ الْوَحْيُ بِمَوْتِهِ وَمَنْ أَجَازَ ذَلِكَ، فَقَدْ أَجَازَ كَوْنَ النُّبُوَّةِ بَعْدَهُ وَمَنْ أَجَازَ ذَلِكَ فَقَدْ كَفَرَ وَحَلَّ دَمُهُ وَمَالُهُ.
’’رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے، جو وحی کے امکان کو درست سمجھتا ہے، وہ نبوت کے امکان کو درست سمجھتا ہے اور جو نبوت کے امکان کو درست سمجھے، وہ کافر ہے، اس کا خون اور مال حلال ہے۔“
(الإحكام في أصول الأحكام :۷۹/۴)

ایک مقام پر صریح الفاظ میں کہا کہ رسول اللہ ﷺ کی شریعت کے بعد تمام شریعتیں منسوخ ہو چکی ہیں :
نَسَخَ عَزَّ وَجَلَّ بِمِلَّتِهِ كُلَّ مِلَّةٍ وَأَلْزَمَ أَهْلَ الْأَرْضِ جِنَّهُمْ وَإِنْسَهُمْ اِتِّبَاعَ شَرِيعَتِهِ الَّتِي بَعَثَهُ بِهَا وَلَا يَقْبَلُ مِنْ أَحَدٍ سِوَاهَا، وَأَنَّهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ.
’’نبی کریم ﷺ کی ملت کے ساتھ اللہ نے تمام ملتوں کو منسوخ کر دیا ہے اور جن و انس پر لازم قرار دیا ہے کہ وہ اس شریعت پر عمل کریں جس پر رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی ہے، اللہ اس شریعت کے علاوہ کوئی شریعت قبول نہیں کرتا۔ محمد ﷺ آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘
(المحلى:۲۸/۱)

نیز لکھتے ہیں:
إِنَّ الْوَحْيَ قَدِ انْقَطَعَ مُذ مَاتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُرْهَانُ ذَلِكَ أَنَّ الوَحْيَ لَا يَكُونُ إِلَّا إِلى نَبِي، وَقَدْ قَالَ عَزَّ وَجَلَّ : ﴿مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّين﴾
’’رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ وحی صرف نبی کی طرف آتی ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :
﴿مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّين﴾ (الأحزاب:۴۰)
’’محمد ﷺ مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن آپ ﷺ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں۔“
(المحلى:۲۹/۱)

دوسری جگہ رقم طراز ہیں:
اَلنُّبُوَّةُ هِيَ الْوَحْيُ مِنَ اللهِ تَعَالَى بِأَنْ يَعْلَمَ الْمُوحَى إِلَيْهِ بِأَمْرِ مَّا يَعْلَمُهُ لَمْ يَكُنْ يَعْلَمُهُ قَبْلُ، وَالرِّسَالَةُ هِيَ النُّبُوَّةُ وَزِيَادَةٌ، وَهِيَ بَعْثَتُهُ إِلى خَلْقٍ مَّا بِأَمْرٍ مَّا، هذَا مَا لَا خِلَافَ فِيهِ وَالْخَضِرُ عَلَيْهِ السَّلَامُ نَبِيٍّ قَدْ مَاتَ، وَمُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ، قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ حَاكِبًا عَنِ الْخَضِرِ ﴿وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِى﴾ (الكهف:۸۲) فَصَحْتُ نُبُوَّتُهُ، وَقَالَ تَعَالَى: ﴿وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ﴾
’’نبوت اس وحی کا نام ہے، جو اللہ اپنے بندے کی طرف بھیج کر اسے وہ بات بتاتا ہے، جسے وہ پہلے نہیں جانتا ہوتا۔ رسالت نبوت سے ایک زائد وصف کا نام ہے، وہ زائد وصف یہ ہے کہ رسول ایک نئی شریعت لاتا ہے، اس بات میں کوئی اختلاف نہیں۔ خضرؑ نبی ہیں اور وفات پاچکے ہیں، محمد ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ اللہ رب العزت نے خضرؑ کا قصہ بیان کرتے ہوئے خضرؑ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’یہ کام میں نے اپنی طرف سے نہیں کیا۔‘‘ اس سے ان کا نبی ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے : محمد ﷺ رسول اور آخری نبی ہیں۔‘‘
(المحلی:۷۱/۱)

علامہ ماوردیؒ (۴۵۰ھ) لکھتے ہیں:
إِنَّهُ خُصَّ بِانْتِهَاءِ الوَحْيِ وَخَتمِ النُّبُوَّةِ حَتَّى لَا يَنْزِلَ بَعْدَهُ وَحَي وَلَا يُبْعَثَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ فَصَارَ خَاتَمَا لِلنُّبُوَّةِ مَبْعُونًا إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةٌ حَتَّى بُعِثَ إِلَى الْإِنْسِ وَالْجِنِّ.
’’نبی کریم ﷺ ان کا خاصہ ہے کہ آپ کے بعد وحی اور نبوت ختم ہو گئی ، آپ کے بعد وحی کا نزول نہیں ہوگا، آپ خاتم النبیین اور تمام مخلوقات حتی کہ جن وانس کی طرف مبعوث ہوئے ہیں۔“
(الحاوي الكبير:۹/۹)

اے امت محمد! خبر دار کسی دھوکہ باز کے دھوکہ میں نہ آئے، کسی کی خیانت کسی کی چرب زبانی اور کسی جھوٹے کی دلکش تعبیر میں تمہارے دلوں میں تشکیک کا بدنما داغ نقش نہ کرنے پائیں۔ کائنات کا ہر بچہ اسی فطرت پہ جنم لیتا ہے کہ اگر اسے قوت گویائی ملے اور پوچھا جائے کہ مَنْ نَبِيُّكَ؟ تو اس کی زبان پہ یہی نعرہ ہو گا کہ لَا نَبِيَّ بَعْدَ محمد ﷺ.

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!