سوال
ختم شریف اللہ کے نام پر کیا جاتا ہے، نبی کریم ﷺ نے اسے کہاں منع فرمایا ہے؟ اس کا کیا حکم ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بات درست ہے کہ ختم شریف کے دوران اللہ کا نام لیا جاتا ہے، لیکن صرف اللہ کا نام لینے سے کوئی عمل درست نہیں ہو جاتا جب تک وہ نبی کریم ﷺ سے ثابت نہ ہو۔ کسی بھی عمل کی شرعی حیثیت کا دار و مدار اس کے نبی کریم ﷺ سے ثابت ہونے پر ہے۔
مثال کے طور پر:
◈ ذبح کرتے وقت اگر کوئی شخص قل ہو اﷲ احد پڑھ لے، تو بلاشبہ یہ اللہ کا نام ہے، لیکن کیا اس طرح ذبح کرنا شرعی طور پر درست ہوگا؟
◈ اسی طرح وضو کرتے وقت اگر کوئی قل ہو اﷲ احد پڑھے، تو یہ عمل بھی درست نہیں ہوگا۔
یہ دونوں کام (ذبح یا وضو کے دوران قل پڑھنا)، اگرچہ اللہ کے نام پر ہوں، لیکن چونکہ یہ نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں، اس لیے شرعی طور پر درست نہیں مانے جا سکتے۔
اصولی بات:
کوئی بھی ایسا عمل جو نبی کریم ﷺ سے ثابت نہ ہو، وہ رد (ناقابلِ قبول) ہوتا ہے۔
جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
«مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أَمْرِنَا ہٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ»
مشکوة ۔ باب الاعتصام بالکتاب والسنة ۔ الفصل الاول
اور ایک اور روایت میں ہے:
«مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ»
جب نبی کریم ﷺ کسی چیز کو رد قرار دے دیں تو وہ عمل منع شدہ میں شامل ہوتا ہے۔
نتیجہ:
ختم شریف بھی چونکہ نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں، اس لیے وہ قابلِ قبول نہیں۔ دین میں وہی چیز معتبر ہے جو نبی کریم ﷺ سے صحیح طریقے سے ثابت ہو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب