اس عورت کا حکم جس کی عادت حیض تبدیل ہو جائے
سوال : جب حائضہ کی پہلی عادت تبدیل ہو جائے اور اس میں دو ، تین یا چار دنوں کا اضافہ ہو جائے ، مثلاًً پہلے اس کی عادت ہی تھی کہ اس کو چھ یا سات دن خون حیض آتا تھا ، پھر اس کو دس یا پندرہ دن خون آنے لگا ، وہ ایک دن یا ایک رات طہر دیکھتی ہے ، پھر اس کو خون جاری ہو جاتا ہے ، کیا وہ غسل کر کے نماز ادا کرے یا کامل طہارت حاصل ہونے تک (نماز روزہ سے ) بیٹھی رہے ؟ اس لیے کہ اس کی پہلی ماہواری کی عادت میں اضافہ ہو گیا ہے اور وہ استحاضہ والی بھی نہیں ہے ، اس مسئلہ میں شریعت کاکیا حکم ہے ؟
جواب : جب مذکورہ صورت کے مطابق عورت کے ایام حیض کے دوران ایک دن یا ایک رات کے لیے خون حیض بند ہو جائے تو عورت پر لازم ہے کہ وہ غسل کر کے اور اس طہر میں جتنی نماز میں اس کو مل جائیں ادا کرے ، کیونکہ وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس قول کے مطابق پاک ہے :
أما إذا رأت الدم البحراني فإنها لا تصلي ، وإذا رأت الطهر . ساعة فلتغتسل [ صحيح سنن أبى داود ، رقم الحديث 286 ]
”جب عورت تیز بہاؤ دیکھے تو وہ نماز ادا نہ کرے اور اگر کچھ وقت کے لیے طہارت حاصل ہو جائے تو وہ غسل کرے (اور نماز ادا کرے ) ۔ “
اور یہ بھی مروی ہے کہ بلاشبہ جب طہر ایک دن سے کم ہو تو اس کو کچھ نہ سمجھتے ہوئے اس کی طرف التفات نہ کیا جائے ، کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے :
لا تعجلن حتي پرين القصة البيضاء [صحيح البخاري ، رقم الحديث 314 ]
”عورتین جلدی نہ کریں جب تک سفید روئی کو نہ دیکھ لیں ۔“
اور اس لیے بھی کہ خون ایک وقت میں جاری ہوتا ہے اور دوسرے وقت میں رک جاتا ہے ، لہٰذا محض خون کے انقطاع سے طہارت ثابت نہ ہو گی ، جیسے کہ ایک ساعت سے کم وقت کے لیے خون رک جائے ، اور یہی رائے ہے صاحب ”المغنی“ ابن قدامہ حنبلی کیا ۔
وصلى اللہ على نبینا محمد وآلہ وصحبہ وسلم ۔
(سعودی فتوی کمیٹی)
عورت کو ولادت سے پہلے آنے والا خون
سوال : اس خون کا کیا حکم ہے جو عورت کو ولادت سے پہلے آتا ہے ؟ کیا وہ نفاس کا خون ہو گا یا استحاضہ کا ؟
جواب : یہ استحاضہ کا خون ہے ، اس لیے کہ نفاس کا خون بچے کی ولادت کے بعد آیا کرتا ہے ۔ (محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ )
نفاس والی عورت کی نماز پڑھے گی ؟ کب روزہ رکھے گی اور کب حج کرے گی ؟
سوال : میں آپ جناب سے اپنے اس مسئلہ میں فتوی کی امید رکھتی ہوں کہ کیا نفاس والی عورت چالیس دن مکمل ہونے کے بعد نماز پڑھے گی یا اس سے پہلے اگر وہ طہارت کو دیکھ لے ؟
جواب : نفاس والی عورت جب طہر دیکھ لے تو وہ پاک ہو جائے گی اور وہ روزہ رکھے گی اور نماز ادا کرے گی ، خواہ اس کے چالیس دن پورے ہوئے ہوں یا نہیں ۔
و باللہ التوفیق وصلى اللہ على نبینا محمد وآلہ وصحبہ وسلم
(سعودی فتوی کمیٹی)
سوال : جب نفاس والی عورت چالیس دن سے پہلے پاک ہو جائے تو کیا اس کے لیے روزہ رکھنا ، نماز پڑھنا اور حج کرناجائز ہے ؟
جواب: ہاں ، جب وہ چالیس دن سے پہلے ہی پاک ہو جائے تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ روزہ رکھے ، نماز ادا کرے ، حج اور عمرہ کرے نیز اس کے خاوند کے لیے اس سے وطی کرنا بھی حلال ہوگا ۔ پس اگر وہ بیس دن کے بعد پاک ہو جائے تو وہ غسل کرے ، نماز ادا کرے اور روزہ رکھے اور اپنے خاوند کے لیے حلال ہو جائے ۔ اور یہ جو عثان بن ابی العاص رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اس کو مکر وہ سمجھا ہے تو اس کو کراہت تنز یہی پر محمول کیا جائے گا ، اور ویسے بھی یہ ان کا ذاتی اجتہاد ہے اس کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔
درست بات یہ ہے کہ جب وہ چالیس دن سے پہلے پاک ہو جائے تو اس کا یہ طہر صحیح طہر شمار ہو گا ۔ پس اگر چالیس دن کے اندر دوبارہ خون آنے لگے تو صحیح بات یہ ہے کہ وہ چالیس دن تک اس کو خون نفاس شمار کرے اور طہارت کی حالت میں اس کے روزے ، نماز اور حج سب درست ہوں گے ، طہارت کی حالت میں کیا ہوا کوئی بھی عمل دھرایا نہیں جائے گا ۔
( عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ )
سوال : جب نفاس والی عورت چالیس دن سے پہلے پاک ہو جائے تو کیا اس پر روزہ اور نماز واجب ہے ؟
جواب : ہاں ، جب نفاس والی چالیس دن سے پہلے پاک ہو جائے تو اس پر روزہ رکھنا واجب ہے اگر یہ رمضان میں ہو ، اور اس پر نمازوں کی ادائیگی بھی واجب ہے ، اور اس کے خاوند کے لیے اس سے مجامعت کرنا جائز ہے ، کیونکہ وہ پاک ہے اور روزے ، نماز اور جماع سے ممانعت کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔
(محمد بن صالح العثمین رحمہ اللہ )
سوال : کیا نفاس والی عورت چالیس دن تک نماز روزے سے بیٹھی رہے ، یا انقطاع خون معتبر ہے کہ جب خون نفاس منقطع ہو جائے تو وہ پاک ہو جائے گی اور نماز پڑھے گی ؟
جواب : نفاس والی عورت کی مدت مقرر نہیں ہے ، بلکہ جب تک اس کو خون جاری رہے گا ، وہ بیٹھی رہے گی نہ نماز پڑھے گی اور نہ روزہ رکھے گی اور نہ ہی اس کا خاوند اس سے مجامعت کرے گا ۔ اور جب وہ پاک ہو جائے گی ، اگرچہ چالیس دن سے پہلے ہو اور اگرچہ وہ دس دن یا پانچ دن ہی نفاس کی وجہ سے بیٹھی ہو تو وہ نماز پڑھے گی اور روزہ رکھے گی اور اس کا خاوند اس سے مجامعت کرے گا ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
اہم بات یہ ہے کہ بلاشبہ نفاس ایک امر محسوس ہے ، احکام کا تعلق اس کے وجود اور عدم وجود کے ساتھ ہے ، لہٰذا جب نفاس جاری ہوگا تو اس کے احکام جاری ہوں گے اور جب عورت اس سے پاک ہو جائے گی تو وہ اس کے احکام سے حلال ہو جائے گی ۔ لیکن اگر یہ خون ساٹھ دن سے زیادہ آئے تو عورت مستحاضہ شمار ہو گی اور صرف اپنی عادت حیض کی مدت میں وہ ( نماز روزے سے ) بیٹھے گی پھر وہ غسل کر کے نماز ادا کرے گی ۔ (محمد بن صالع العثمین رحمہ اللہ )
جنین کے ساقط ہونے کے بعد خون کا حکم
سوال : بعض عورتیں کسی عارضہ کے سبب جنین کے سقوط کا شکار ہو جاتی ہیں ، اور حمل میں پلنے والے بعض بچے ایسے ہوتے ہیں جن کی خلقت مکمل ہوتی ہے اور بعض کی خلقت ابھی تک مکمل نہیں ہوتی ، میں ان دونوں حالتوں میں نماز کے معاملہ کی وضاحت چاہتی ہوں ؟
جواب : جب عورت ایسے بچے کو ساقط کرے جس میں انسانی خلقت ظاہر ہو چکی ہو ، سر یا ہاتھ یا پاؤں یا دیگر اعضاء بن چکے ہوں تو وہ عورت نفاس والی ہوگی اور اس پر نفاس کے احکام لاگو ہوں گے وہ نماز پڑھے گی ، نہ روزہ رکھے گی اور نہ ہی اس کے خاوند کے لیے اس سے جماع کرنا حلال ہو گا تاوقتیکہ وہ پاک ہو جائے یا چالیس دن مکمل کر لے ۔ اور جب وہ چالیس دن سے پہلے ہو جائے تو اس پر غسل طہارت کر کے نماز ادا کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا واجب ہے ، اور اس کے خاوند کے لیے اس سے جماع کرنا بھی حلال ہے ۔
اور نفاس کی کم از کم مدت کی کوئی حد نہیں ہے ، اگر ولادت کے بعد دس دن یا اس سے کم یا زیادہ دنوں میں عورت پاک ہو جائے تو اس پر غسل کرنا واجب ہو گا اور اس پر پاک عورتوں کے احکام جاری ہوں گے ، جیسا کہ پہلے گزرا ۔ اور چالیس دن کے بعد جو خون وہ دیکھے وہ فاسد خون ہو گا وہ اس کے دوران روزے رکھتی رہے ، نماز پڑھتی رہے اور اس کے خاوند کے لیے اس سے جماع کرنا حلال ہوگا ، اور اس پر لازم ہے کہ وہ مستحاضہ کی طرح ہر نماز کے وقت وضو کرے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت ابی حبیش کو جو مستحاضہ تھیں فرمایا :
ته ضئي لوقت كل صلاة [ صحيح البخاري ، رقم الحديث 226 صحيح مسلم ، رقم الحديث 333 ]
’’ ہر نماز کے وقت وضو کر لیا کرو“
اور جب چالیس دن کی مدت گزرنے کے بعد حیض شروع ہو جائے یعنی ایام ماہواری شروع ہو جائیں تو عورت کے لیے حائضہ کا حکم ہوگا اور اس پر پاک ہونے تک نماز اور روزہ حرام ہوگا اور اس دوران اس کے خاوند پر اس سے جماع کرنا بھی حرام ہو گا ۔
لیکن جب عورت سے ساقط ہونے والے بچے میں انسانی خلقت ظاہر نہ ہوئی ہو ، مثلاًً وہ ابھی گوشت کا لوتھڑا ہو اس میں کوئی انسانی شکل نہ پائی جائے ، یا بچہ بھی خون کی شکل میں ہو تو وہ عورت مستحاضہ کے حکم میں ہو گی ، نہ اس پر نفاس کا حکم لگے گا اور نہ ہی حیض کا ، اور اس پر لازم ہے کہ وہ نماز ادا کرے اور رمضان کے روزے رکھے ، اور اس کے خاوند کے لیے اس سے جماع کرنا حلال ہوگا ، اور اس پر لازم ہے کہ وہ ہر نماز کا وقت شروع ہونے کے بعد وضو کرے اور خون سے بچنے کے لیے روئی وغیرہ استعمال کرے جس طرح مستحاضہ کیا کرتی ہے ، یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائے ۔
اس کے لیے دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھنا بھی جائز ہے ، وہ اس طرح کہ ظہر و عصر کے ساتھ اور مغرب و عشاء کے ساتھ ملا کر ادا کر لے اور اس کے لیے ان دو دو نمازوں کے لیے غسل کرنا مشروع ہے اور ایک غسل فجر کے لیے ۔ اس کی دلیل حمنہ بنت جحش سے ثابت صحیح حدیث ہے ، کیونکہ یہ مذکورہ عورت اہل علم کے نزدیک مستحاضہ کے حکم میں ہے ۔ واللہ ولی التوفیق
( عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ )
کیا نفاس والی عورت اپنے گھر میں ہی بیٹھی رہے ؟
سوال : کیا نفاس والی عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنی مدت ختم ہونے سے پہلے گھر سے نہ نکلے ؟
جواب : نفاس والی عورت کا حکم دیگر عورتوں کی طرح ہے ، بوقت ضرورت گھر سے نکلنے میں اس پر کوئی حرج نہیں اور جب کوئی کام کاج نہ ہو تو تمام عورتوں کے لیے گھروں میں بیٹھے رہنا ہی افضل ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ [ 33-الأحزاب:33]
”اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور پہلی جاہلیت کے زینت ظاہر کرنے کی طرح زینت ظاہر نہ کرو ۔ “
( عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ )