اہل جاہلیت اللہ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام کر دیا کرتے تھے جس کی اللہ نے تردید فرمائی :
يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ٭ قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّـهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ٭ قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّـهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ [7-الأعراف:31]
”اے اوﻻد آدم! تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو۔ اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے مت نکلو۔ بےشک اللہ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ آپ فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے اسباب زینت کو، جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کس شخص نے حرام کیا ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ یہ اشیا اس طور پر کہ قیامت کے روز خالص ہوں گی اہل ایمان کے لئے، دنیوی زندگی میں مومنوں کے لئے بھی ہیں۔ ہم اسی طرح تمام آیات کو سمجھ داروں کے واسطے صاف صاف بیان کرتے ہیں۔ آپ فرمائیے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو علانیہ ہیں اور جو پوشیده ہیں اور ہر گناه کی بات کو اور ناحق کسی پر ﻇلم کرنے کو اور اس بات کو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس بات کو کہ تم لوگ اللہ کے ذمے ایسی بات لگادو جس کو تم جانتے نہیں۔ “
ان آیات کا مطلب یہ ہے کہ اے بنی آدم ہر طواف و نماز کے وقت ستر کو چھپانے کے لئے اپنے کپڑوں کو استمال کرو، اس آیت کا شان نزول یہ ہے، کچھ دیہاتی بیت اللہ کا ننگا طواف کیا کرتے تھے یہاں تک کہ عورت بھی ننگی ہی طواف کرتی تھی البتہ اپنے نچلے حصے پر ایک تسمہ لٹکا لیا کرتی تھی جیسے تسمے گدوں کے منہ پر مکھی سے بچاؤ کے لیے لگا دئیے جاتے ہیں۔ اس حالت میں عورت یہ شعر پڑھا کرتی تھی۔
اليوم يبدوا بعضه ادكله . . . وما بدامنه فلا احله
آج جسم کا کچھ حصہ کھلے گا . . . اور جو کھلے گا اس کو حلال نہیں کروں گی
ان جہالتوں کی تردید کے لیے اللہ تعالی نے ان آیتوں کو نازل فرمایا۔
اسی طرح اہل جاہلیت ایام حج میں حج کی تعظیم کے خیال سے چربی استعمال نہیں کرتے تھے اور کھانا بھی بس برائے نام ہی کھاتے تھے تو اللہ نے فرمایا : كُلُوا وَاشْرَبُوا کھاؤ اور پیئو وَلَا تُسْرِفُو یعنی حلال چیز کو حرام کر کے زیادتی مت کرو۔ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ کیونکہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ بلکہ ان کو برا سمجھتا ہے اور ان کے اعمال کو پسند نہیں کرتا، بلکہ اس کا تو فرمان ہے قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّـهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ یعنی کپڑے اور زینت کے سامان کو للہ نے لوگوں کے فائدے کے لیے پیدا کیا ہے جیسے سوت، کتان، جانور، ریشم اور اون وغیرہ ان کو آخر کس نے حرام کر دیا ہے، اسی طرح پاکیزہ روزی یعنی لذت بخش حلال و طیب چیزیں کھانے پینے کی چیزیں، بکری کا گوشت، چربی، دودھ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا یعنی سب چیزیں اصلاً اہل ایمان کے لیے اس دنیا میں حلال و مباح ہیں جس سے اللہ کی طرف سے ان کی مزید بزرگی کا احساس ہو رہا ہے اور کافر بھی دنیا میں ان چیزوں کو استعمال کرتے ہیں لیکن اہل ایمان کے طفیل خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ البتہ یہ چیزیں قیامت کے دن صرف اہل ایمان کے لیے مخصوص رہیں گی، کفار نہ پا سکیں گے۔ (ان احکامات کے علاوہ سب امور کی تفصیل بھی ہم اہل نظر کے لیے بیان کیا کرتے ہیں۔ )
نیز فرمایا إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ میرے رب نے خواہش کو حرام کیا یعنی وہ گناہ جن کی قباحت بہت ہے جیسے شرمگاہ کا گناہ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ خواہ وہ فواحش کھلے ہوں یا چھپے کیوں کے عرب اعلانیہ زنا کو برا سمجھتے تھے لیکن خفیہ زنا کو معیوب نہیں سمجھتے تھے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مَا ظَهَرَ سے مراد عریاں طواف ہے اور وَمَا بَطَنَ سے مراد زنا۔ اور کچھ لوگ کہتے ہیں، اول سے مراد دن میں مردوں کا طواف ہے اور ثانی سے مراد رات کو عورتوں کا عریاں طواف ہے اللہ نے گناہ کے ان سب اقسام کو حرام کر دیا اور الاثم یعنی تمام موجبات گناہ کو بھی حرام کر دیا چاہے شراب یا زنا یا اور کچھ۔ کچھ لوگ الاثم سے مراد شراب لیتے ہیں اور دلیل میں شاعر کا یہ قول پیش کرتے ہیں۔
نهانا رسول الله ان تقرب الزنا . . . وان نشرب الاثم الذى يوجب الوذرا
رسول اللہ نے ہم کو منع کیا ہے کہ ہم زنا کے قریب جائیں . . . اور شراب پئییں جس سے گناہ واجب ہوتا ہے۔
دوسرے شاعر کا قول ہے :
شربت الاثم حتي ضل عقلي . . . كذك الاثم يذهب بالعقول
میں نے شراب پی یہاں تک کہ میری عقل جاتی رہی . . . اور شراب اسی طرح عقلوں کو تباہ کرتی ہے۔
والبغي بغير الحق اور ناحق ظلم کو حرام کیا۔ اس گناہ کو خاص طور سے اس لیے بیان کیا کہ اس کی ممانعت و شدت کا احساس ہو۔ وان تشركوا بالله مالم ينزل به سلطانا، وان تقولوا على الله ما لا تعلمون اللہ نے حرام کیا کہ تم اللہ کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک کرو جن کی دلیل اس نے نہیں نازل کی اور اللہ پر وہ باتیں کہو جنہیں تم جانتے نہیں، مثلا اللہ کی صفتوں میں کجی اختیار کرنا اور اللہ پر بہتان باندھنا، یعنی جو باتیں اللہ نے نہیں کہیں اس کو اللہ کا نام لے کر کہنا جیسا کہ سورہ اعراف میں اس کا ذکر ہے والله امرنا بهذا یعنی اللہ نے ہمیں بےحیائی کا حکم دیا ہے۔ (معاذ اللہ)
یہ بات سب پر عیاں ہے کہ آج کل کے بناوٹی صوفیاء بھی جاہلیت کی اسی عادت کو اختیار کئے ہیں، انہوں نے بھی اپنے اوپر اللہ کی زینت و پاکیزہ روزی کو حرام کر رکھا ہے۔ تاکہ عوام ان کو بڑا متقی سمجھیں، اس کے علاوہ انہوں نے ریاضتیں، چلے وغیرہ ایجاد کئے اور کھانے پینے اور دوسرے کاموں میں اپنے من مانی طریقے ایجاد کئے اور یہ نہ سمجھ سکے کہ ایسا کر کے وہ اپنے کئے دھرے کو برباد کر رہے ہیں۔