سوال: حق مہر کے متعلق قرآن کاکیا حکم ہے؟
جواب: حق مہر محدود نہیں ہے، نہ تو کم از کم حق مہر کی کوئی حد ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کی خواہش رکھنے والے ایک شخص کو کہا:
«التمس ولو خاتما من حديد»
[صحيح البخاري، رقم الحديث 4842]
”(حق مہر کے لیے) لوہے کی کوئی انگوٹی ہی لے آؤ۔“
اور نہ ہی ا کثر حق مہر کی کوئی حد ہے:
«وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا» [4-النساء: 20]
”اور اگر تم کسی بیوی کی جگہ اور بیوی بدل کر لانے کا ارادہ کرو اور تم ان میں سے کسی کو ایک خزانہ دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو، کیا تم اسے بہتان لگا کر اور صریح گناہ کر کے لو گے؟“
ہماری دلیل اور گواہی آیت کے اس ٹکڑے میں ہے:
«وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا» [4-النساء: 20]
”اور تم ان میں سے کسی کو ایک خزانہ دے چکے ہو۔“
لیکن زمانہ جاہلیت جیسی حرص اور لالچ اب بھی مسلمانوں کے اندر موجود ہے، لہٰذا آدمی پر واجب یہ ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی کسی ایسے شخص سے کر دے جو اپنے مال میں سے کچھ (اس لڑکی کو بطور حق مہر) عطا کرے، اور اگر وہ اس کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں رکھتا تو اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی وسعت کے مطابق ہی پابند بناتے ہیں۔ میں نہیں کہوں گا کہ تم اپنے مال سے کچھ دو جبکہ تم کسی چیز کے مالک نہیں ہو، لیکن تمہارے ساتھ تمھاری استطاعت کی حدود میں رہتے ہوئے نرمی کا مظاہرہ کیا جائے گا۔ واللہ المستعان [مقبل بن هادي الوادعي رحمه الله]
جواب: حق مہر محدود نہیں ہے، نہ تو کم از کم حق مہر کی کوئی حد ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کی خواہش رکھنے والے ایک شخص کو کہا:
«التمس ولو خاتما من حديد»
[صحيح البخاري، رقم الحديث 4842]
”(حق مہر کے لیے) لوہے کی کوئی انگوٹی ہی لے آؤ۔“
اور نہ ہی ا کثر حق مہر کی کوئی حد ہے:
«وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا» [4-النساء: 20]
”اور اگر تم کسی بیوی کی جگہ اور بیوی بدل کر لانے کا ارادہ کرو اور تم ان میں سے کسی کو ایک خزانہ دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو، کیا تم اسے بہتان لگا کر اور صریح گناہ کر کے لو گے؟“
ہماری دلیل اور گواہی آیت کے اس ٹکڑے میں ہے:
«وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا» [4-النساء: 20]
”اور تم ان میں سے کسی کو ایک خزانہ دے چکے ہو۔“
لیکن زمانہ جاہلیت جیسی حرص اور لالچ اب بھی مسلمانوں کے اندر موجود ہے، لہٰذا آدمی پر واجب یہ ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی کسی ایسے شخص سے کر دے جو اپنے مال میں سے کچھ (اس لڑکی کو بطور حق مہر) عطا کرے، اور اگر وہ اس کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں رکھتا تو اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی وسعت کے مطابق ہی پابند بناتے ہیں۔ میں نہیں کہوں گا کہ تم اپنے مال سے کچھ دو جبکہ تم کسی چیز کے مالک نہیں ہو، لیکن تمہارے ساتھ تمھاری استطاعت کی حدود میں رہتے ہوئے نرمی کا مظاہرہ کیا جائے گا۔ واللہ المستعان [مقبل بن هادي الوادعي رحمه الله]