ملحدین کا الزام کہ نبیﷺ نے بتوں کی تعریف میں کچھ جملے کہے تھے

پس منظر

عیسائی مشنری اور ملحدین کی جانب سے پیش کیے گئے "قصہ غرانیق” پر متعدد اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں۔ یہ کہانی دراصل تاریخ طبری اور دیگر روایات سے منسوب کی جاتی ہے، جس میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے سورۃ النجم کی تلاوت کے دوران شیطان کے بہکاوے میں آکر بتوں کی تعریف میں کچھ جملے کہے تھے۔ اس کے نتیجے میں مشرکینِ مکہ خوش ہو گئے اور سجدہ ریز ہوگئے۔ اس واقعے کو بنیاد بنا کر کہا جاتا ہے کہ شیطان نے نبی ﷺ کی زبان سے کلمات ادا کرائے۔

اعتراض

کہانی کے مطابق، نبی کریم ﷺ قریش کی مخالفت اور اسلام کے لیے ان کی سرد مہری سے مایوس تھے۔ ایک دن بیت اللہ میں سورة النجم کی تلاوت کے دوران، جب آپ آیات 19-20 پر پہنچے، تو شیطان نے آپ کی زبان سے مبینہ طور پر یہ الفاظ نکلوا دیے: "تِلْكَ الغرانيق العلى وإن شفاعتهن لترتجی” یعنی: "یہ بلند مقام والے دیوتا ہیں اور ان کی شفاعت قابلِ قبول ہے” (تاریخ طبری، صفحہ 108-109)۔

➊ تاریخی کتابوں کی نوعیت

تاریخ طبری، جس کا حوالہ دیا جاتا ہے، بنیادی طور پر ایک تاریخی کتاب ہے، نہ کہ حدیث کی مستند کتاب۔ امام طبری نے خود اپنی کتاب کے مقدمے میں واضح کیا ہے:

"میں نے جو کچھ ذکر کیا ہے، وہ محض اپنے راویوں کے بیانات پر مبنی ہے، نہ کہ اپنی طرف سے کوئی حتمی رائے۔” (تاریخ الطبری، جلد 1، صفحہ 17)

➋ قرآنی آیات کا سیاق و سباق

سورہ نجم کی آیات 19-23 واضح طور پر بتوں کی مذمت کرتی ہیں:

"بھلا تم نے لات، عزیٰ اور منات کو دیکھا؟ کیا تمہارے لیے بیٹے اور اللہ کے لیے بیٹیاں؟ یہ تقسیم بہت بے انصافی کی ہے۔”

اس سیاق میں یہ دعویٰ کہ نبی ﷺ نے بتوں کی تعریف کی، عقلی طور پر ناممکن ہے۔ اگر نبی ﷺ نے بتوں کی تعریف کی ہوتی تو اگلی آیات میں ان کی مذمت کیسے کی جاتی؟

➌ حدیث کی مستند کتابوں میں تذکرہ

صحیح بخاری میں اس واقعے کا ذکر کچھ یوں ہے:

"نبی ﷺ نے سورۃ النجم کی تلاوت کے بعد سجدہ کیا تو تمام مسلمان اور مشرکین سجدے میں گر پڑے۔” (صحیح بخاری: 1071)

یہ واضح کرتا ہے کہ قریش کا سجدہ قرآنی آیات کی بلاغت اور اثر کی وجہ سے تھا، نہ کہ کسی شیطانی جملے کی وجہ سے۔

➍ تاریخی اور خارجی جانچ

یہ واقعہ نبوت کے پانچویں سال ہجرتِ حبشہ کے فوراً بعد پیش آنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، جب کہ سورہ حج کی آیات 52 ہجرت کے بعد نازل ہوئیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کہانی میں زمانی تضاد موجود ہے۔

➎ مستند علماء کی آراء

ابن کثیر: "اس قصے کی تمام روایات ضعیف ہیں اور میں نے کوئی بھی متصل سند نہیں پائی۔” (تفسیر ابنِ کثیر، جلد 3، صفحہ 229)

قاضی عیاض: "یہ روایت نہ مستند احادیث میں شامل ہے اور نہ ہی کسی مضبوط سند پر مبنی ہے۔” (الشفا، جلد 2، صفحہ 125)

امام رازی: "اس قصے کی کوئی حقیقت نہیں اور اس کے تمام روابط منقطع ہیں۔” (تفسیر الرازی، جلد 11)

خلاصہ

مندرجہ بالا دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ قصہ غرانیق محض ایک من گھڑت کہانی ہے جسے عیسائی مشنری اور ملحدین نے اسلام کے خلاف استعمال کیا۔ اس قصے کی نہ تو داخلی اور نہ ہی خارجی کوئی ٹھوس بنیاد ہے۔ مستند علماء اور مفسرین نے اس کہانی کو ضعیف، غیر مستند اور منقطع روایات پر مبنی قرار دیا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے