حقوق حیوانات سے متعلق چالیس صحیح احادیث
تحریر: ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی، کتاب کا پی ڈی ایف لنک

إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:

بکری پر رحم کرنے کی فضیلت

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ﴾
[الأنبياء: 107]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر جہانوں پر رحم کرتے ہوئے۔ “

حدیث 1:

«وعن معاوية بن قرة عن أبيه رضي الله عنه أن رجلا قال: يا رسول الله! إنى لاذبح الشاة وإنى ارحمها ، أو قال: إني لأرحم الشاة ان اذبحها ، فقال: والشاة إن رحمتها رحمك الله»
مستدرك حاكم: 231/4 ، الفتح الرباني، رقم9211۔ حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔
”سیدنا قرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول ! میں تو جب بکری کو ذبح بھی کرتا ہوں تو اس پر رحم کرتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر تو بکری پر رحم کرے گا تو اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم کرے گا۔ “

پیاسے جانور کو پانی پلانا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَٰكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ ۚ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث ۚ ذَّٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ﴾
[الأعراف: 176]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور اگر ہم چاہتے تو اسے ان کے ذریعے بلند کر دیتے ، مگر وہ زمین کی طرف چمٹ گیا اور اپنی خواہش کے پیچھے لگ گیا، تو اس کی مثال کتے کی مثال کی طرح ہے کہ اگر تو اس پر کوئی سامان لا دے تو زبان نکالے ہانپتا ہے، یا اسے چھوڑ دے تو بھی زبان نکالے ہانپتا ہے، یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنھوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا۔ سو تو یہ بیان سنا دے، تاکہ وہ غور وفکر کریں۔“

حدیث 2:

«وعن أبى هريرة، عن النبى صلى الله عليه وسلم: إن امرأة بغيا رأت كلبا فى يوم حار ، يطيف بيثر قد أدلع لسانه من العطش، فنزعت موقها فغفر لها»
مسند أحمد: 507/2 – صحیح ابن حبان، رقم: 386 – ابن حبان اور احمد شاکر نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک زانیہ عورت نے گرمی والے دن میں ایک کتا دیکھا، وہ ایک کنویں کا چکر لگا رہا تھا اور پیاس کے مارے زبان باہر نکالی ہوئی تھی ، پس اس نے اپنا موزہ اتارا (اور اس کو پانی پلایا ) اور اس کے سبب اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا۔ “

بلی کو باندھ کر مارنے کی سزا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُم ۚ مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ ۚ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ﴾
[الأنعام: 38]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور زمین میں نہ کوئی چلنے والا ہے اور نہ کوئی اڑنے والا ، جو اپنے دو پروں سے اڑتا ہے مگر تمھاری طرح امتیں ہیں، ہم نے کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی ، پھر وہ اپنے رب کی طرف اکٹھے کیے جائیں گے۔“

حدیث 3:

«وعن أبى هريرة رضي الله عنه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: دخلت امرأة النار فى هرة، ربطتها ، فلم تطعمها ، ولم تسقها ، ولم ترسلها ، فتأكل من خشاش الأرض»
الفتح الربانى رقم: 9209، صحیح بخاری، رقم 3318، صحیح مسلم، رقم: : 2242
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک عورت بلی کی وجہ سے آگ میں داخل ہو گئی، اس نے اس کو باندھ دیا تھا، نہ خود اس کو کھلاتی پلاتی تھی اور نہ اس کو چھوڑتی تھی کہ وہ از خود زمین کے حشرات کھا سکتی۔ “

کوئی شخص پرندے کے انڈے نہ اٹھائے

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ ۖ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيحَهُ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ﴾
[النور: 41]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ، اس کی تسبیح کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور پرندے پر پھیلائے ہوئے ، ہر ایک نے یقیناً اپنی نماز اور اپنی تسبیح جان لی ہے اور اللہ اسے خوب جاننے والا ہے جو وہ کرتے ہیں۔“

حدیث 4:

«وعن عبد الرحمن بن عبد الله رضي الله عنه ، قال: نزل رسول الله صلى الله عليه وسلم منزلا ، فانطلق إنسان إلى غيضة ، فأخرج بيض حمرة فجاءت الحمرة ترف على رأس رسول الله صلى الله عليه وسلم ورء وس أصحابه فقال: أيكم فجع هذه؟ فقال رجل من القوم: أنا اصبت لها بيضا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اردده»
الفتح الرباني، رقم: 9205، سنن ابو داؤد، رقم: 2675۔ 5268- محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سیدنا عبدالرحمن بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ پر پڑاؤ ڈالا ، ایک آدمی جھاڑی کی طرف گیا اور (چڑیا کی طرح کے) سرخ پرندے کے انڈے نکال لایا، پس وہ پرندہ آیا اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے سروں پر پھڑ پھڑانے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کس نے اس کو تکلیف دی ہے؟ اس آدمی نے کہا: میں نے اس کے انڈے اٹھائے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: واپس رکھ دے۔ “

پیاسے کتے کو پانی پلانا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَتَحْسَبُهُمْ أَيْقَاظًا وَهُمْ رُقُودٌ ۚ وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ ۖ وَكَلْبُهُم بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيدِ ۚ لَوِ اطَّلَعْتَ عَلَيْهِمْ لَوَلَّيْتَ مِنْهُمْ فِرَارًا وَلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْبًا﴾
[الكهف: 18]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور تو انھیں جاگتے ہوئے خیال کرے گا، حالانکہ وہ سوئے ہوئے ہیں، اور ہم دائیں اور بائیں ان کی کروٹ پلٹتے رہتے ہیں اور ان کا کتا اپنے دونوں بازو دہلیز پر پھیلائے ہوئے ہے۔ اگر تو ان پر جھانکے تو ضرور بھاگتے ہوئے ان سے پیٹھ پھیر لے اور ضرور ان کے خوف سے بھر دیا جائے۔ “

حدیث 5:

«وعن أبى هريرة رضي الله عنه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: بينما رجل يمشي وهو بطريق إذ اشتد عليه العطش، فوجد بثرا فنزل فيها فشرب ثم خرج ، فإذا كلب يلهث يأكل الثرى من العطش ، فقال: لقد بلغ هذا الكلب من العطش مثل الذى بلغني ، فنزل البئر فملا خفيه ماء ثم أمسكه بفيه حتى رقي به فسقى الكلب ، فشكر الله له فغفر له . قالوا: يا رسول الله وإن لنا فى البهائم لأجرا؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فى كل ذات كبد رطبة أجر»
الفتح الربانى رقم: 9207 ، صحیح بخاری، رقم: 2363 ، 2466
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ) ایک آدمی راستے پر چلا جا رہا تھا کہ اسے سخت پیاس لگی، اس نے ایک کنواں پایا، پس اس میں اتر کر اس نے پانی پیا، پھر باہر نکل آیا، وہیں ایک کتا تھا جو پیاس کے مارے زبان باہر نکالے (ہانپتے ہوئے) کیچڑ چاٹ رہا تھا، پس اس آدمی نے (دل میں ) کہا کہ اس کتے کو بھی اسی طرح پیاس نے ستایا ہے جس طرح میں اس کی شدت سے بے حال ہو گیا تھا، چنانچہ وہ دوبارہ کنویں میں اترا اور اپنے موزے پانی سے بھرے اور انہیں اپنے منہ سے پکڑ کر اوپر چڑھ آیا اور کتے کو پانی پلایا، اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل اور جذبے کی قدر کی اور اسے معاف کر دیا۔ (یہ سن کر ) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا ہمارے لیے چوپایوں (پر ترس کھانے ) میں بھی اجر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (ہاں) ہر تر جگر والے (جاندار کی خدمت اور دیکھ بھال) میں اجر ہے۔ “

کسی بھی پیاسے جاندار کو پانی پلانے کی فضیلت

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿قَالَ هَٰذِهِ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَّعْلُومٍ﴾
[الشعراء: 155]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اس نے کہا یہ ایک اونٹنی ہے، اس کے لیے پانی پینے کی ایک باری ہے اور تمھارے لیے ایک مقرر دن کی باری ہے۔ “

حدیث 6:

«وعن سراقة بن مالك بن جعشم رضي الله عنه ، أنه دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم فى وجعه الذى توفي فيه، قال: فطفقت أسأل رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى ما اذكر ما أسأله عنه ، فقال: أذكره. قال: وكان مما سألته عنه ان قلت: يا رسول الله ! الضالة (وفي رواية الضالة من الإبل) تغشى حياضي وقد ملاتها ماء لإبلي ، فهل لى من أجر أن أسقيها؟ فقال: رسول الله صلى الله عليه وسلم: نعم، فى سقي كل كبد أجر لله»
الفتح الرباني، رقم: 9204، سنن ابن ماجه رقم: 3686، سلسلة الصحيحة، رقم 2152
”اور سیدنا سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ بن جعشم سے مروی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے ، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں مبتلا تھے، وہ کہتے ہیں، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنا شروع کر دیا (اور اتنے سوالات کیے کہ) مزید کوئی سوال یاد ہی نہیں آرہا تھا، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے۔ اور یاد کرو ۔ بہر حال میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو سوالات کیے تھے ان میں ایک سوال یہ تھا، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! گمشدہ اونٹ میرے حوضوں پر آجاتا ہے، جبکہ میں نے ان کو اپنے اونٹوں کے لیے بھرا ہوا ہوتا ہے تو کیا اس کو پانی پلا دینے میں میرے لیے اجر ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جی ہاں ، ہر تر جگر کو پلانے میں اللہ تعالیٰ کے لیے اجر ہے۔ “

جانوروں کو داغنے کی ممانعت

حدیث 7:

«وعن جابر قال: مر النبى صلى الله عليه وسلم بدابة قد وسم يدخن منخراه، قال النبى صلى الله عليه وسلم: لعن الله من فعل هذا ، لا يسمن أحد الوجه ولا يضربنه»
الادب المفرد، رقم: 175 – محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک جانور کے پاس سے گزرے جسے داغا گیا تھا اور اس کے نتھنوں سے داغنے کی وجہ سے دھواں نکل رہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے یہ کیا ہے اس پر اللہ کی لعنت ہو، کوئی شخص ہرگز چہرے پر نہ داغے اور نہ اس پر مارے۔ “

جانوروں کو کوڑے مارنے کی ممانعت

حدیث 8:

«وعن عبد الله بن زياد ، عن إبنى بسر المسلمين ، قال: دخلت عليهما ، فقلت: يرحمكما الله، الرجل منا يركب دابته فيضربها بالسوط ويكفحها باللجام هل سمعتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم فى ذلك؟ قالا: ما سمعنا فى ذالك شيئا، فإذا امرأة قد نادت من جوف البيت: أيها السائل: إن الله عزوجل يقول: ﴿وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُم ۚ مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ﴾ فقال: هذه أختنا وهى أكبر منا وقد ادركت رسول الله صلى الله عليه وسلم»
الفتح الربانى رقم: 9202
”اور عبداللہ بن زیاد کہتے ہیں، بسر کے دو مسلمان بیٹے تھے، میں ان کے پاس گیا اور کہا: اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے، بات یہ ہے کہ ایک آدمی اپنی سواری پر سوار ہوتا ہے اور اس کوڑے سے مارتا بھی ہے اور لگام کے ذریعہ کھینچتا بھی ہے، کیا تم نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنی ہے؟ انہوں نے کہا: ہم نے تو اس کے بارے میں کچھ نہیں سنا لیکن پھر اچانک گھر کے اندر سے ایک عورت کی آواز آئی، اس نے کہا: سوال کرنے والے اللہ تعالیٰ کہتا ہے: اور جتنے قسم کے جاندار زمین پر چلنے والے ہیں اور جتنے قسم کے پرندے ہیں کہ اپنے دونوں بازوؤں سے اڑتے ہیں، یہ سب تمہاری طرح کے گروہ ہیں، ہم نے دفتر میں کوئی چیز نہیں چھوڑی۔ (الانعام: 38) پھر اس نے کہا: یہ ہماری بہن ہے، عمر میں ہم سے بڑی ہے اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا ہے۔ “

جانوروں پر لعنت بھیجنے کی ممانعت

حدیث 9:

«وعن عمران بن حصين قال: بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم فى بعض أسفاره وامرأة من الأنصار على ناقة فضحرت فلعنتها فسمع ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: خذوا ما عليها ودعوها فإنها منعونة قال عمران فكانى اراها الآن تمشي فى الناس ما يعرض لها أحد»
صحیح مسلم، كتاب البر والصلة باب النهي ، عن لعن الدواب، وغيرها، رقم: 6604
”اور حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی سفر پر جا رہے تھے اور ایک انصاری عورت ایک اونٹنی پر سوار تھی، اس سے بدک گئی اور اس عورت نے اس پر لعنت بھیجی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کو سن لیا، چنانچہ ارشاد فرمایا: اس پر جو ساز وسامان ہے، وہ لے لو اور اس کو چھوڑ دو، کیونکہ اس پر لعنت کی گئی ہے۔ حضرت عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، گویا کہ میں اسے ابھی لوگوں میں چلتی پھرتی دیکھ رہا ہوں، کوئی شخص اس سے تعرض نہیں کر رہا۔ “

دودھ دوہنے سے قبل ناخن اچھی طرح تراشنا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۖ نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهِ مِن بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِّلشَّارِبِينَ﴾
[النحل: 66]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور بلاشبہ تمھارے لیے چوپاؤں میں یقیناً بڑی عبرت ہے، ہم ان چیزوں میں سے جو ان کے پیٹوں میں ہیں، گوبر اور خون کے درمیان سے تمھیں خالص دودھ پلانے کے لیے دیتے ہیں، جو پینے والوں کے لیے حلق سے آسانی سے اتر جانے والا ہے۔ “

حدیث 10:

«وعن سوادة بن الربيع رضي الله عنه ، قال: أتيت النبى صلى الله عليه وسلم فسألته، فأمر له بذود ، ثم قال: إذا رجعت إلى بيتك فمرهم فليحسنوا غذاء رباعهم ، ومرهم فليقدموا أظفارهم ولا يعبطوا بها ضروع مواشيهم إذا حلبوا»
مسند أحمد: 484/3، رقم: 15961۔ شیخ شعیب نے اسے حسن کہا ہے۔
”اور حضرت سوادہ بن ربیع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے کچھ اونٹنیوں کا حکم دیا اور مجھے ارشاد فرمایا: جب تو اپنے گھر پہنچے تو انہیں کہنا کہ موسم بہار میں پیدا ہونے والے ان کے بچوں کو اچھی غذا دیں، نیز انہیں کہنا کہ وہ اپنے ناخن تراش لیں تاکہ دودھ دوہتے وقت مویشیوں کے تھنوں کو خون آلود نہ کر دیں۔“

کچھ سواریاں اپنے سواروں سے بہتر ہوتی ہیں

حدیث 11:

«وعن سهل بن معاد ، عن أبيه رضي الله عنه ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه مر على قوم وهم وقوف على دواب ورواحل ، فقال لهم: اركبوها سالمة ، ودعوها سالمة ولا تتخذوها كراسي لا حاديثكم فى الطرق والاسواق، فرب مركوبة خير من راكبها وأكثر ذكرا لله تبارك وتعالى منه»
مسند أحمد: 439/3، رقم: 15629۔ شیخ شعیب نے اسے حسن کہا ہے۔
”اور حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کے پاس سے گزرے، جو ایک جگہ پر کھڑے چوپائیوں اور سواریوں پر بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا: ان جانوروں پر سوار ہو، اس حال میں کہ یہ صحت مند ہوں، اور ان کو صحت وسالمیت کی حالت میں ہی چھوڑا کرو اور راستوں اور بازاروں میں باتیں کرنے کے لیے ان کو کرسیاں نہ بنا لو۔ (یعنی خوامخواہ ان پر نہ بیٹھے رہو۔ ) پس کتنی ہی سواریاں ہیں، جو اپنے سواروں سے بہتر اور ان کی یہ نسبت اللہ تعالیٰ کا زیادہ ذکر کرنے والی ہوتی ہیں۔ “

بکریوں کے باڑے میں نماز

حدیث 12:

«وعن حميد بن مالك بن خثيم أنه قال: كنت جالسا مع أبى هريرة بأرضه بالعقيق ، فأتاه قوم من أهل المدينة على دواب ، فنزلوا، قال حميد: فقال أبو هريرة: اذهب إلى أمي وقل لها: إن ابنك يقرتك السلام ويقول: أطعمينا شيئا، قال: فوضعت ثلاثة أقراص من شعير ، وشيئا من زيت وملح فى صحفة، فوضعتها على رأسي ، فحملتها إليهم ، فلما وضعته بين أيديهم ، كبر أبو هريرة وقال: الحمد لله الذى أشبعنا من الخبز بعد أن لم يكن طعامنا إلا الأسودان: التمر والماء ، فلم يصب القوم من الطعام شيئا، فلما انصرفوا قال: يا ابن أخي ، أحسن إلى غنمك ، وامسح الرغام عنها ، وأطب مراحها ، وصل فى ناحيتها ، فإنها من دواب الجنة ، والذي نفسي بيده ليوشك أن يأتى على الناس زمان تكون الثله من الغنم أحب إلى صاحبها من دار مروان»
الادب المفرد، رقم: 572۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حمید بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں مقام عقیق پر سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی زمین میں ان کے ساتھ بیٹھا تھا کہ اہل مدینہ کے کچھ لوگ اپنی سواریوں پر آئے اور وہاں اترے۔ حمید کہتے ہیں کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: میری والدہ کے پاس جاؤ اور انہیں کہنا: آپ کا بیٹا آپ کو سلام کہتا ہے اور عرض کرتا ہے کہ ہمیں کچھ کھانے کے لیے دے دیں۔ حمید کہتے ہیں: انہوں نے ایک تھال میں جو کی تین روٹیاں زیتون کا تیل اور نمک رکھ دیا۔ میں اسے اپنے سر پر رکھ کر ان لوگوں کے پاس لے آیا۔ جب میں نے ان کے سامنے کھانا رکھا تو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اللہ کی کبریائی بیان کی اور کہا: اللہ کا شکر ہے جس نے ہمارا پیٹ روٹی سے بھرا بعد اس کے کہ ہمارے پاس کھجور اور پانی کے سوا کچھ نہ تھا۔ لوگوں کو گندم کا کھانا نصیب نہیں ہوتا تھا۔ جب وہ لوگ چلے گئے تو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے میرے بھتیجے: بکریوں کو اچھے طریقے سے رکھو اور ان کی مٹی وغیرہ جھاڑتے رہو۔ ان کے باڑے کو صاف رکھو اور اس کے کونے میں نماز پڑھو کیونکہ یہ بکریاں جنت کے جانوروں میں سے ہیں۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، عنقریب لوگوں پر ایسا وقت آئے گا کہ بکریوں کا ایک ریوڑ اس کے مالک کو مروان کے گھر سے زیادہ محبوب ہوگا۔ “

موذی جانوروں کو مارتے وقت احسان کا معاملہ

حدیث 13:

«وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قتل وزغة فى أول ضربة فله كذا وكذا حسنة، ومن قتلها فى الضربة الثانية فله كذا وكذا حسنة لدون الأولى، وإن قتلها فى الضربة الثالثة فله كذا وكذا حسنة لدون الثانية»
صحیح مسلم کتاب السلام، رقم: 5846، 5847
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے گرگٹ کو پہلی ضرب کے ساتھ مارا اسے اتنی اور اتنی نیکیاں ملیں گی اور جس نے اسے دوسری ضرب کے ساتھ مارا اسے اتنی اور اتنی یعنی پہلے سے کم نیکیاں ملیں گی، اور جس نے تیسری ضرب کے ساتھ مارا اسے اتنی اور اتنی یعنی دوسری سے کم نیکیاں ملیں گی۔ ‘ ایک دوسری روایت میں ہے کہ جس نے پہلی ضرب کے ساتھ گرگٹ کو مارا اس کے لیے ایک سو نیکیاں لکھی جائیں گی اور دوسری ضرب میں اس سے کم ، تیسری میں اس سے بھی کم ۔ “

ذبیحہ پر رحم کرنے کی فضیلت

حدیث 14:

«وعن أبى أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من رحم ولو ذبيحة، رحمه الله يوم القيامة»
الادب المفرد، رقم: 381 – محدث البانی نے اسے حسن کہا ہے۔
”اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے رحم کیا خواہ کسی ذبیحہ پر، تو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس پر رحم فرمائے گا۔ “

ایک ہرنی کا قصہ

حدیث 15:

«وعن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم على قوم قد صادوا ظبية فشدوها إلى عمود الفسطاط . فقالت: يا رسول الله، إنى وضعت ولي خشفان . فاستأذن لي أن أرضعهما ثم أعوذ إليهم . فقال: أين صاحب هذه؟ فقال القوم: نحن ، يا رسول الله صلى الله عليه وسلم . فقال: رسول الله صلى الله عليه وسلم: خلوا عنها حتى تأتي خشفيها ترضعهما وتأتي إليكم . قالوا: ومن لنا بذلك ، يا رسول الله؟ قال: أنا . فأطلقوها فذهبت فأرضعت ثم رجعت إليهم فأوثقوها . فمر بهم النبى صلى الله عليه وسلم فقال: أين أصحاب هذه؟ قالوا: هو ذا نحن ، يا رسول الله. قال: تبيعونا؟ قالوا: يا رسول الله هي لك . فخلوا عنها فأطلقوها فذهبت»
اس حدیث کو امام طبرانی اور ابونعیم نے روایت کیا ہے۔ المعجم الاوسط للطبراني: 358/6 الرقم: 5547 ، دلائل النبوة لأبي نعيم: 376 ، الرقم: 274 ، شمائل الرسول لإبن كثير: 347
”اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گروہ کے پاس سے گزرے۔ انہوں نے ایک ہرنی کو شکار کر کے ایک بانس کے ساتھ باندھ رکھا تھا۔ اس ہرنی نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! میرے دو چھوٹے بچے ہیں جنہیں میں نے حال ہی میں جنا ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ان سے اجازت دلوا دیں کہ میں اپنے بچوں کو دودھ پلا کر واپس آجاؤں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس کا مالک کہاں ہے؟ اس گروہ نے کہا: یا رسول اللہ ! ہم اس کے مالک ہیں۔ حضور نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ یہ اپنے بچوں کو دودھ پلا کر تمہارے پاس واپس آ جائے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کی واپسی کی ہمیں کون ضمانت دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ۔ انہوں نے ہرنی کو چھوڑ دیا پس وہ گئی اور اپنے بچوں کو دودھ پلا کر واپس لوٹ آئی۔ انہوں نے اسے پھر باندھ دیا۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ ان لوگوں کے پاس سے گزرے اور ان سے پوچھا: اس کا مالک کہاں ہے؟ اس گروہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! وہ ہم ہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس ہرنی کو مجھے فروخت کرو گے؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! یہ آپ ہی کی ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھول کر آزاد کر دیا اور وہ چلی گئی۔ “

گھوڑے پر سواری کرنے کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً ۚ وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴾
[النحل: 8]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور گھوڑے اور خچر اور گدھے، تاکہ تم ان پر سوار ہو اور زینت کے لیے، اور وہ پیدا کرے گا جو تم نہیں جانتے۔ “

حدیث 16:

«وعن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أحسن الناس ، وكان أجود الناس ، وكان أشجع الناس، ولقد فزع أهل المدينة ذات ليلة ، فانطلق ناس قبل الصوت ، فتلقاهم رسول الله صلى الله عليه وسلم راجعا، وقد سبقهم إلى الصوت وهو على فرس لأبي طلحة عري فى عنقه السيف وهو يقول: لم تراعوا، لم تراعوا قال: وجدناه بحرا أو إنه لبحر قال: وكان فرسا يبطأ»
صحيح البخاری، کتاب الجهاد والسير، باب الحمائل وتعليق السيف بالعنق: 1065/3، رقم: 2751، صحیح مسلم کتاب الفضائل، باب في شجاعة النبي صلی اللہ علیہ وسلم وتقدمه للحرب: 1802/4 ، الرقم: 2307 ، دلائل النبوة للبيهقي: 153/6 ، المسند للروياني 488/2، الرقم: 1514 ، معجم الصحابة لابن قانع: 158,157/1
”اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سے سب سے زیادہ حسین، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک رات اہل مدینہ (ایک دہشت ناک آواز کی وجہ سے ) خوف زدہ ہو گئے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس آواز کی طرف گئے ۔ راستہ میں انہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ سے واپس آتے ہوئے ملے، آپ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے۔ آپ کی گردن مبارک میں تلوار (لٹک رہی تھی) اور آپ فرما رہے تھے! تم کو خوفزدہ نہیں کیا گیا، تم کو خوفزدہ نہیں کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہم نے اس (گھوڑے ) کو سمندر کی طرح رواں دواں پایا، یا وہ سمندر تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ گھوڑا بہت آہستہ چلتا تھا۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پر سوار ہونے کی برکت سے یہ نہایت تیز رفتار ہو گیا۔ “

کبوتر بازی کی ممانعت

حدیث 17:

«وعن أبى هريرة قال: رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا يتبع حمامة ، قال: شيطان يتبع شيطانة»
الادب المفرد، رقم: 1300- محدث البانی نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ کبوتری کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ آپ نے فرمایا! شیطان شیطانہ کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ “

مرغ کی اذان سن کر اللہ سے دعا کرنا

حدیث 18:

«وعن أبى هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: إذا سمعتم صياح الديكة من الليل ، فإنها رأت ملكا، فسلوا الله من فضله ، وإذا سمعتم نهاق الحمير من الليل ، فإنها رأت شيطانا، فتعوذوا بالله من الشيطان»
الادب المفرد، رقم: 1236 – محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم رات کو مرغوں کی آواز سنو تو اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کا سوال کرو۔ کیونکہ وہ فرشتے کو دیکھ کر آواز نکالتے ہیں۔ اور جب تم رات کو گدھوں کے بینگنے کی آواز سنو تو اللہ تعالیٰ کی شیطان سے پناہ طلب کرو کیونکہ وہ شیطان کو دیکھ کر آواز نکالتے ہیں۔ “

گدھے کے ہینگنے کی آواز سن کر اللہ کی پناہ طلب کرنا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا ۚ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾
[الجمعة: 5]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”ان لوگوں کی مثال جن پر تورات کا بوجھ رکھا گیا، پھر انھوں نے اسے نہیں اٹھایا، گدھے کی مثال کی سی ہے جو کئی کتابوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے، ان لوگوں کی مثال بری ہے جنھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ “

حدیث 19:

«وعن جابر بن عبد الله، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إذا سمعتم نباح الكلاب أو نهاق الحمير من الليل، فتعوذوا بالله، فإنهم يرون ما لا ترون، وأجيفوا الأبواب ، واذكروا اسم الله عليها ، فإن الشيطان لا يفتح بابا أجيف وذكر اسم الله عليه ، وغطوا الجرار، وأوكتوا القرب وأكفئوا الآنية»
الادب المفرد، رقم: 1234۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم رات کو کتے کے بھونکنے اور گدھے کے ہینگنے کی آواز سنو تو اللہ کی پناہ طلب کرو کیونکہ جو کچھ وہ دیکھتے ہیں تم نہیں دیکھتے۔ دروازے بند رکھو اور بند کرتے وقت بسم اللہ پڑھو کیونکہ جس دروازے کو بسم اللہ پڑھ کر بند کیا جائے شیطان اسے نہیں کھولتا۔ نیز مٹکے ڈھانپ کر رکھو اور مشکیزوں کے تسمے باندھ کر رکھو اور برتن اوندھے کر کے رکھو۔ “

جانوروں کو لڑانے کی ممانعت

حدیث 20:

«وعن ابن عمر ، أنه كره أن يحرش بين البهائم»
السنن الكبرى للبيهقي 22/10 ، الادب المفرد، رقم: 1232 – محدث البانی نے اسے حسن لغیرہ کہا ہے۔
”اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے جانوروں کو آپس میں لڑانے کو نا پسند کیا ہے۔ “

سدھائے ہوئے کتوں کے شکار کا حکم

حدیث 21:

«وعن عدي بن حاتم قال: سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم قلت: إنا قوم نصيد بهذه الكلاب، قال: إذا أرسلت كلابك المعلمة ، وذكرت اسم الله فكل مما أمسكن عليكم وإن قتلن، إلا أن يأكل الكلب فإني أخاف أن يكون إنما أمسكه على نفسه ، وإن خالطها كلاب من غيرها فلا تأكل»
صحیح بخاری رقم: 5483
”اور حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے پوچھا کہ ہم لوگ ان کتوں سے شکار کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اگر تم اپنے سکھائے ہوئے کتوں کو شکار پر چھوڑتے وقت اللہ کا نام لیتے ہو تو جو شکار وہ تمہارے لیے پکڑ کر لائیں اسے کھاؤ۔ خواہ وہ اسے مار ہی ڈالیں لیکن اگر کتا شکار میں سے خود بھی کھا لے تو اس میں یہ اندیشہ ہے کہ اس نے یہ شکار خود اپنے لیے پکڑا تھا۔ اگر تمہارے کتوں کے علاوہ دوسرے کتے بھی شریک ہو جائیں تو ایسے شکار کو مت کھاؤ۔“

شکاری اور جانوروں کے حفاظتی کتوں کا حکم

حدیث 22:

«وعن عبد الله بن عمر يقول: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: من اقتنى كلبا – إلا كلبا ضاريا لصيد أو كلب ماشية – فإنه ينقص من أجره كل يوم قيراطان»
صحیح بخاری رقم: 5481
”اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جو کوئی ایسا کتا پالتا ہے جو شکار یا جانوروں کی حفاظت کے لیے نہیں تو اس کے ثواب سے ہر روز دو قیراط کم ہوتے رہیں گے۔ “

مرغی کو باندھ کر تیر کا نشانہ لگانے کی ممانعت

حدیث 23:

«وعن سعيد بن جبير قال: كنت عند ابن عمر فمروا بفتية أو بنفر – نصبوا دجاجة يرمونها فلما رأوا ابن عمر تفرقوا عنها ، وقال ابن عمر: من فعل هذا؟ إن النبى صلى الله عليه وسلم لعن من فعل هذا»
صحیح بخاری، رقم: 5515
”اور حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا: میں ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ہمراہ تھا۔ وہ چند ایک نوجوانوں کے پاس سے گزرے جنہوں نے ایک مرغی باندھ رکھی تھی اور اس پر تیر کا نشانہ لگا رہے تھے۔ جب انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو آتے دیکھا تو بھاگ نکلے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: یہ کام کون کر رہا تھا؟ ایسا کرنے والے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے۔ “

جانوروں سے نرمی سے پیش آنا

حدیث 24:

«وعن الوضين بن عطاء رضي الله عنه أن جزارا فتح بابا على شاة ليذبحها ، فانقلتت منه حتى أتت النبى صلى الله عليه وسلم واتبعها . فأخذها يسحبها برجلها . فقال لها النبى صلى الله عليه وسلم: إصبرى لأمر الله ، وأنت يا جزار ، فسقها إلى الموت سوقا رفيقا»
مصنف عبد الرزاق 493/4 ، الرقم: 8609 ، الترغيب والترهيب للمنذري: 102/2 الرقم: 1675 ، جامع العلوم والحكم لإبن رجب: 156/1 ، فيض القدير للمناوي: 135: 6
”اور حضرت وضین بن عطا رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں ایک قصاب نے بکری ذبح کرنے کے لیے دروازہ کھولا تو وہ اس کے ہاتھ سے نکل کر بھاگی اور حضور نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی بارگاہ میں آگئی۔ وہ قصاب بھی اس کے پیچھے آ گیا اور اس بکری کو پکڑ کر ٹانگ سے کھینچنے لگا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کو حکم دیا: اللہ کے حکم پر صبر کر اور اے قصاب ! تو اسے نرمی کے ساتھ موت کی طرف لے جا۔ “

بکریوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا

حدیث 25:

«وعن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: دخل النبى صلى الله عليه وسلم حائطا للأنصار ، ومعه أبو بكر وعمر ورجال من الأنصار. قال: وفي الحائط غنم فسجدت له . قال أبو بكر: يارسول الله! إنا نحن أحق بالسجود لك من هذه الغنم. فقال: إنه لا ينبغي أن يسجد أحد لأحد. ولو كان ينبغي أن يسجد أحد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها»
دلائل النبوة لأبي نعيم: 379/2 الرقم 276 ، الاحاديث المختارة للمقدسي: 130/6 ، الرقم: 2129 و 131/6، الرقم: 2130
”اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور چند دیگر انصار صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہمراہ انصار کے ایک باغ میں داخل ہوئے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ باغ میں بکریاں تھیں۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! ان بکریوں سے زیادہ ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم آپ کو سجدہ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی انسان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے انسان کو سجدہ کرے اور اگر ایک دوسرے کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ “

لاغر جانوروں کے لیے صحت و برکت کی دعا کرنا

حدیث 26:

«وعن جعيل الأشجعي قال: غزوت مع النبى صلى الله عليه وسلم (في بعض غزواته) وأنا على فرس لي عجفاء ضعيفة. قال: فكنت فى أخريات الناس . فلحقني رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: سر، يا صاحب الفرس . فقلت: يارسول الله ، عجفاء ضعيفة. قال: فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم مخفقة كانت معه فضربها بها وقال: اللهم بارك له فيها . قال: فلقد رأيتني ما أمسك رأسه إلى أن أتقدم الناس . قال: فلقد بعت من بطنها باثنى عشر ألفا»
دلائل النبوة للبيهقى: 153/6 المسند للروياني: 488/2، الرقم: 1514، معجم الصحابة لإبن قانع: 158,157/1 ، مجمع الزوائد: 262/5 ، 263۔ بیشمی نے کہا: اس کے رجال ثقات ہیں۔
”اور حضرت جعیل اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک غزوہ میں حضور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جہاد کیا۔ میں اپنی نڈھال اور لاغر گھوڑی پر سوار تھا۔ میں لوگوں کے آخری گروہ میں تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا: اے گھڑ سوار، آگے بڑھو۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ نڈھال اور لاغر گھوڑی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چابک ہوا میں لہرا کر گھوڑی کو مارا اور یہ دعا فرمائی: اے اللہ ! جعیل کی اس گھوڑی میں برکت عطا فرما۔ حضرت جعیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں اس گھوڑی کو پھر قابو نہ کرسکا، یہاں تک کہ میں لوگوں سے آگے نکل گیا۔ نیز میں نے اس کے پیٹ سے پیدا ہونے والے بچے بارہ ہزار میں فروخت کیے۔ “

شیر کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی سن کر احترام کرنا

حدیث 27:

«عن سفينة رضي الله عنه قال: ركبت البحر فى سفينة فانكسرت فركبت لوحا منها فطرحني فى أجمة فيها أسد فلم يرعني إلا به. فقلت: يا أبا الحارث، أنا مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم فطأطأ رأسه وغمز بمنكبه شقى . فما زال يغمرني ويهديني إلى الطريق حتى وضعنى على الطريق . فلما وضعني همهم فظننت أنه يودعني»
المستدرك للحاكم: 675/2 ، الرقم: 702/3: 4235 الرقم: 6550، التاريخ الكبير للبخاری: 195/3، الرقم: 663 ، المعجم الكبير للطبراني: 80/7 الرقم: 6532، شرح السنة للبغوي: 313,13، الرقم: 3732 ، مشكاة المصابيـح لـلـخطيب التربزيزى: 400/2 الرقم 5949۔ حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں سمندر میں ایک کشتی پر سوار ہوا۔ وہ کشتی ٹوٹ گئی تو میں اس کے ایک تختے پر سوار ہو گیا۔ اس نے مجھے ایک ایسی جگہ پھینک دیا جو شیر کی کچھار تھی۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ وہ (شیر ) سامنے تھا میں نے کہا اے ابو الحارث (شیر کی کنیت) میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہوں۔ تو اس نے فوراً اپنا سر خم کر دیا اور اپنے کندھے سے مجھے اشارہ کیا اور وہ اس وقت تک مجھے اشارہ اور رہنمائی کرتا رہا جب تک کہ اس نے مجھے صحیح راہ پر نہ ڈال دیا۔ پھر جب
اس نے مجھے صحیح راہ پر ڈال دیا تو وہ دھیمی آواز میں غرایا۔ سو میں سمجھ گیا کہ وہ مجھے الوداع کہہ رہا ہے۔ “

ایک بھیڑیے کا قصہ

حدیث 28:

«وعن أبى سعيد الخدري رضي الله عنه قال: عدا الذئب على شاة فأخذها ، فطلبه الراعي، فانتزعها منه، فأقعى الذئب على ذنبه . قال: ألا تتقى الله تنزع مني رزقا ساقه الله إلي؟ فقال: يا عجبي، ذئب مقع على ذنبه يكلمني كلام الإنس؟ فقال الذئب: ألا أخبرك بأعجب من ذلك؟ محمد صلى الله عليه وسلم بيثرب يخبر الناس بأنباء ما قد سبق . قال: فأقبل الراعي يسوق غنمه حتى دخل المدينة ، فزواها إلى زاوية من زواياها ، ثم أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبره . فأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم فنودي الصلاة جامعة ، ثم خرج فقال للراعى أخبرهم . فأخبرهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم صدق . والذي نفسي بيده، لا تقوم الساعة حتى يكلم السباع الإنس، ويكلم الرجل عذبه سوطه، وشراك نعله، ويخبره فخذه بما أحدث أهله بعده»
مسند احمد بن حنبل: 88,83/3 الرقم: 11859,11809 ، المستدرك للحاكم: 514/4، الرقم: 8444، المسند لإبن عبيد: 1: 277 الرقم: 877، دلائل النبوة للبيهقي: 43,42,41/6 ، شمائل الرسول لإبن كثير: 339، مجمع الزوائد للهيثمي 291/8۔ حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ایک دفعہ ایک بھیڑیا بکریوں پر حملہ آور ہوا اور ان میں سے ایک بکری کو اٹھا لیا، چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اور اس سے بکری چھین لی۔ بھیڑیا پچھلی ٹانگوں کو زمین پر پھیلا کر سرین پر بیٹھ گیا اور اگلی ٹانگوں کو کھڑا کر لیا اور اس نے چرواہے سے کہا: کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے کہ مجھ سے اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ رزق چھین رہے ہو؟ چرواہے نے حیران ہو کر کہا: بڑی حیران کن بات ہے کہ بھیڑیا اپنی دم پر بیٹھا مجھ سے انسانوں جیسی باتیں کر رہا ہے؟ بھیڑیے نے کہا: کیا میں تمہیں اس سے بھی عجیب تر بات نہ بتاؤں؟ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ یثرب (مدینہ منورہ) میں تشریف فرما ہیں لوگوں کو گزرے ہوئے زمانے کی خبریں دیتے ہیں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ چرواہا فوراً اپنی بکریوں کو ہانکتا ہوا مدینہ منورہ میں داخل ہوا اور ان کو اپنے کسی ٹھکانہ پر چھوڑ کر حضور نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ پھر اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معاملہ کی خبر دی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر باجماعت نماز کے لئے اذان کہی گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور چرواہے سے فرمایا: سب لوگوں کو اس واقعہ کی خبر دو۔ پس اس نے وہ واقعہ سب کو سنایا۔ اس کے بعد حضور نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: اس نے سچ کہا۔ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کہ درندے انسان سے کلام نہ کریں اور انسان سے اس کے چابک کی رسی اور جوتے کے تسمے کلام نہ کریں۔ اس کی ران اسے خبر دے گی کہ اس کے بعد اس کے گھر والے کیا کرتے رہے ہیں۔ “

بیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام کیا کرتا تھا

حدیث 29:

«وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان لال رسول الله صلى الله عليه وسلم وحش. فإذا خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم لعب واشتد وأقبل وأدبر . فإذا أحس برسول الله صلى الله عليه وسلم قد دخل ، ربض فلم يترمرم، ما دام رسول الله صلى الله عليه وسلم فى البيت ، كراهية أن يوذيه»
مسند احمد بن حنبل: 112/8 ، الرقم: 4660 ، 25210 ، مسند ابو یعلی: 121/8 ، الرقم: 4660، مسند اسحاق ابن راهويه 617/3 ، الرقم: 1192، شرح معاني الآثار للطحاوي: 195/4 ، دلائل النبوة للبيهقي 31/6، التمهيد لإبن عبد الله: 314/6 مجمع الزوائد للهيثمي: 3/9
”اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی آل (یعنی اہل بیت) کے لئے ایک بیل رکھا گیا۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لاتے تو وہ کھیلتا کودتا اور (خوشی سے) جوش میں آجاتا، اور کبھی آگے بڑھتا اور کبھی پیچھے آتا اور جب وہ یہ محسوس کرتا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لے گئے ہیں تو پھر ساکت کھڑا ہو جاتا اور کوئی حرکت نہ کرتا جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں موجود رہتے اس ڈر سے کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف نہ ہو۔“

چنڈول نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شکایت کی

حدیث 30:

«وعن ابن مسعود قال: كنا مع النبى صلى الله عليه وسلم فى سفر فمررنا بشجرة فيها فرخا حمرة ، فأخذناهما ، قال: فجاءت الحمرة إلى النبى صلى الله عليه وسلم وهى تعرض، فقال: من فجع هذه بفرخيها؟ قال: قلنا: نحن. قال: ردوهما قال: فرددناهما إلى مواضعهما»
دلائل النبوة للبيهقي: 1-321 الزهد لهناد ابن السري: 620/2 ، الرقم: 1337
”اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ہم ایک درخت کے پاس سے گزرے جس میں چنڈول (ایک خوش آواز چڑیا) کے دو بچے تھے۔ ہم نے وہ دونوں بچے اٹھا لیے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ چنڈول حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں شکایت کرتے ہوئے حاضر ہوئی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کس نے اس چنڈول کو اس کے بچوں کی وجہ سے تکلیف دی ہے؟ راوی بیان کرتے ہیں: ہم نے عرض کیا: ہم نے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس کے بچے اسے لوٹا دو۔ راوی بیان کرتے ہیں پس ہم نے وہ دونوں بچے جہاں سے لیے تھے، وہیں رکھ دیئے۔ “

سانپ کو مارنا سنت ہے

حدیث 31:

«وعن أبى عبيدة عن أبيه قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة عرفة التى قبل يوم عرفة فإذا حس الحية فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اقتلوها فدخلت شق جحر فأدخلنا عودا فقلعنا بعض الجحر فأخذنا سعفة فأضرمنا فيها نارا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم وقاها الله شركم ووقاكم شرها»
سنن النسائی، رقم: 2884 صحيح البخاری، رقم: 4934، صحیح مسلم، رقم: 2234، مسند احمد: 4344
”اور ابو عبیدہ اپنے والد عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عرفہ کی رات موجود تھے، اچانک سانپ محسوس ہوا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: اس کو مار دو! تو وہ ایک سوراخ میں داخل ہو گیا، ہم نے سوراخ میں لکڑی داخل کی اور سوراخ کا کچھ حصہ کھودا اور گھاس لیا اور اس میں آگ سلگائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہارے شر سے اس کو اور اس کے شر سے تم کو بچا لیا۔ “

سانپ کو قتل کرنے کا حکم

حدیث 32:

«وعن العباس بن عبد المطلب أنه قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: إنا نريد أن نكنس زمزم ، وإن فيها من هذه الجنان يعني الحيات الصغار فأمر النبى صلى الله عليه وسلم بقتلهن»
سنن ابو داؤد، رقم: 5251 ، صحيح أبوداؤد للألباني رقم: 4373
”اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم ارادہ کرتے ہیں کہ زم زم کنویں کی صفائی کرائیں اور اس میں یہ جنان یعنی چھوٹے سانپ ہیں؟ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ “

جبرئیل علیہ السلام کتے والے گھر تشریف نہ لائے

حدیث 33:

«وعن عبد الله بن عباس قال: أخبرتني ميمونة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أصبح يوما واجما، فقالت ميمونة: يا رسول الله! لقد استنكرت هيئتك منذ اليوم ، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن جبريل كان وعدني أن يلقاني الليلة فلم يلقني ، ام والله ما اخلفني، قال: فظل رسول الله صلى الله عليه وسلم يومه ذلك على ذلك، ثم وقع فى نفسه جره كلب تحت فسطاط لنا، فأمر به فأخرج ثم أخذ بيده ماء فنضح مكانه ، فلما أمسى لقيه جبريل ، فقال: له قد كنت وعدتني ان تلقانى البارحة ، قال أجل ولكنا لا ندخل بيتا فيه كلب ولا صورة، فأصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ فأمر بقتل الكلاب حتى إنه يأمر بقتل كلب الحائط الصغير، ويترك كلب الحائط الكبير»
صحیح مسلم ، رقم 2105، سنن نسائی ، رقم: 4283، سنن ابو داؤد، رقم: 4157، مسند احمد، رقم 26260
”اور سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ان کے پاس ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کے وقت پراگندہ خاطر تھے۔ تو انہوں نے عرض کیا: آج شروع دن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت متغیر ہے؟ ارشاد فرمایا: جبرئیل علیہ السلام نے وعدہ کیا تھا کہ وہ رات کو آکر ملاقات کریں گے، اور لیکن نہیں آئے۔ اللہ کی قسم ! انہوں نے خلاف وعدہ مجھ سے نہیں کیا۔ پس یہ دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی حالت میں رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر میں خیال پیدا ہوا کہ یہاں کتے کا بچہ بھی تھا۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے حکم دیا اور وہ نکال دیا گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی لے کر اس جگہ پر چھڑک دیا۔ رات ہوئی تو جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم نے کل رات ملاقات کا وعدہ کیا تھا۔ جبریل نے کہا: ہاں ، لیکن ہم اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا ہو یا تصویر ہو۔ “

گھوڑے کو کھلانا بھی باعث اجر ہے

حدیث 34:

«وعن شرحبيل بن مسلم الخولاني: أن روح بن زنباع زار تميما الداري فوجده ينقى شعيرا لفرسه قال: وحوله أهله ، فقال له روح أما كان فى هؤلاء من يكفيك؟ قال تميم: بلى، ولكنى سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ما من امرئ مسلم ينقى لفرسه شعيرا ثم يعلفه عليه ، إلا كتب له بكل حبة حسنة»
مسند احمد: 103/4 ، مسند الشاميين للطبرانی، رقم: 103۔ شیخ حمزہ زین نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور شرحبیل بن مسلم خولانی کہتے ہیں کہ روح بن زنباع، تمیم داری کی زیارت کے لیے گئے، دیکھا کہ وہ گھوڑے کے لیے جو صاف کر رہے تھے اور ان کے اہل وعیال ان کے اردگرد بیٹھے تھے۔ روح نے کہا: کیا (آپ کے اہل خانے میں) کوئی ایسا فرد نہیں جو یہ کام کر سکے؟ حضرت تمیم رضی اللہ عنہ نے کہا: کیوں نہیں، دراصل بات یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے سنا: جو مسلمان اپنے گھوڑے کے لیے جو صاف کر کے اسے کھلائے گا اس کے لیے ہر دانے کے بدلے نیکی لکھی جائے گی۔ “

چیونٹی کو جلانے کی ممانعت

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿حَتَّىٰ إِذَا أَتَوْا عَلَىٰ وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَا أَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ﴾
[النمل: 18]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”حتی کہ جب وہ چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا: اے چیونٹیو! تم اپنے بلوں میں داخل ہو جاؤ، کہیں سلیمان اور اس کے لشکر تمہیں کچل نہ ڈالیں، جبکہ وہ (اس کا) شعور بھی نہ رکھتے ہوں۔ “

حدیث 35:

«وعن أبى هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: نزل نبي من الأنبياء تحت شجرة فلدغته نملة، فأمر بجهازه، فأخرج من تحتها ، ثم أمر ببيتها ، فأحرق بالنار فأوحى الله إليه ، فهلا نملة واحدة»
صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق، رقم: 3319
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اور ایک مرتبہ ایک نبی کسی درخت کے نیچے ٹھہرے، ایک چیونٹی نے ان کو کاٹ لیا اس پر انہوں نے اپنا سامان وہاں سے اٹھوایا، پھر آگ منگوا کر ساری کی ساری چیونٹیاں جلا دیں، اس پر ان کی طرف وحی کی گئی کہ کیوں نہ ایک ہی قصور وار چیونٹی کو مارا ہوتا۔ “

چیونٹی ، شہد کی مکھی ، ہد ہد اور لٹورے کو مارنے کی ممانعت

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَن يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ ۖ وَإِن يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَّا يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ۚ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ﴾
[الحج: 73]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اے لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے، لہذا تم اسے غور سے سنو، بے شک جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی ہرگز نہیں پیدا کر سکتے اگرچہ وہ (سارے بھی ) اس کے لیے جمع ہو جائیں ، اور اگر ان سے مکھی کچھ چھین لے تو وہ اس سے چھڑا نہیں سکتے ، طالب و مطلوب (عابد معبود دونوں) کمزور ہیں۔ “

حدیث 36:

«وعن ابن عباس قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن قتل أربعة من الدواب: النملة ، والنحلة ، والهدهد ، والصرد»
صحیح ابو داؤد کتاب الادب، رقم: 5267 ، سنن دارمی، رقم: 2042، سنن ابن ماجه، رقم: 3224
”اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار جانور مارنے سے منع فرمایا: چیونٹی، شہد کی مکھی ، ہد ہد اور لٹورا۔ “

چوپایوں کو قید کر کے رکھنے کی ممانعت

حدیث 37:

وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ لَمَّا بَعَثَ أَبُو بَكْرٍ إِلَى الشَّامِ ، قَالَ: أَوْصِيْكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ ، لَا تَعْصَوْا وَلَا تَغْلُوا، وَلَا تَجْبُنُوْا، وَلَا تَغْرِقُوْا نَخْلا ، وَلَا تَحْرِقُوْا زَرْعًا ، وَلَا تَحْبِسُوا بَهِيمَةً ، وَلَا تَقْطَعُوا شَجَرَةً مُثْمِرَةً ، وَلَا تَقْتُلُوا شَيْخًا كَبِيرًا ، وَلَا صَبِيًّا صَغِيرًا
مسند ابی بکر للمروزی: 69-72 ، رقم: 21
”اور سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لشکر کو شام کی طرف روانہ کیا تو اس کے ساتھ تقریباً دو میل چلے اور اہل لشکر کو مخاطب کر کے فرمایا: میں تمہیں اللہ کے تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں (اور یہ کہ ) نافرمانی نہ کرنا، بزدلی نہ دکھانا، کھجور کے درختوں کو تباہ نہ کرنا، کھیتیاں نہ جلانا، چوپایوں کو قید کر کے نہ رکھنا، کسی پھل دار درخت کو نہ کاٹنا اور کسی شیخ فانی کو قتل کرنا نہ کسی چھوٹے بچے کو۔ “

پرندوں اور جانوروں کے نام رکھنا

حدیث 38:

«وعن أنس بن مالك يقول: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخالطنا ، حتى كان يقول لأح لي صغير: يا أبا عميرا ما فعل النغير؟ قال: ونضح بساط لنا فصلى عليه»
سنن ترمذی، ابواب الصلاة، رقم: 333۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ مل جل کر رہتے تھے حتی کہ میرے چھوٹے بھائی کو (پیار سے) فرماتے: اے ابوعمیر ! تغیر نے کیا کیا؟ فرماتے ہیں، اور ہمارے لیے چٹائی پر پانی سے چھڑکاؤ کر دیا گیا، پس آپ نے اس پر نماز پڑھی۔ “

جہنمی بچھوؤں کا بیان

حدیث 39:

«وعن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه فى قول الله عز وجل: ﴿زِدْنٰهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ﴾ قال زيدوا بالعقارب أنيابها كالنخل الطول»
مستدرك حاكم: 355/2-356- امام حاکم اور ذہبی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿زِدْنٰهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ﴾ ”ہم ان کے عذاب میں مزید عذاب کا اضافہ کر دیں گے ۔“ (النحل: 88) کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ (جہنمیوں کے عذاب میں اضافہ کے لئے ) بچھوؤں کے ڈنگ لمبی کھجوروں کے برابر بڑھا دیے جائیں گے۔ “

جہنم کے سانپ

حدیث 40:

«وعن عبد الله بن الحارث بن جزء رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن فى النار حيات كأمثال البخت تلسع إحداهن اللسعة ، فيجد حموتها أربعين خريفا، وإن فى النار عقارب كأمثال البغال المؤكفة ، تلسع احداهن اللسعة فيجد حموتها اربعين سنة»
مسند أحمد 619/4 ، رقم: 17722 ، صحیح ابن حبان، رقم: 747، مستدرك حاکم: 593/4۔ ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
” اور حضرت عبداللہ بن حارث بن جز رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جہنم میں بختی اونٹ (اونٹوں کی ایک قسم) کے برابر سانپ ہوں گے ان میں سے ایک سانپ کے کاٹنے سے جہنمی چالیس سال تک زہر کا اثر محسوس کرتا رہے گا۔ جہنم میں بچھوں خچروں کے برابر ہوں گے ان میں سے ایک بچھو کے کاٹنے سے چالیس سال تک جہنمی زہر کا اثر محسوس کرتا رہے گا۔“
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے