حضرت عمرؓ کی کرامت "یاساریة الجبل” کی 7 توضیحات
ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص ،ج1ص، 212

سوال:

حدیث "یاساریة الجبل” کیا صحیح ہے یا ضعیف؟ اور یہ آواز دینا نیند کی حالت میں تھا یا بیداری میں؟ کیا یہ کشف معلوم ہے؟

الجواب :

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ولا حول ولا قوة الا باللہ۔

حدیث "یاساریة الجبل” کی صحت

یہ حدیث صحیح یا حسن درجے کی ہے۔

امام بیہقیؒ نے دلائل النبوۃ (2/181) میں اس کو نقل کیا ہے۔

یہ حدیث مشکٰوۃ المصابیح (2/546)، حدیث نمبر: 59054، باب الکرامات میں بھی موجود ہے۔

امام ابن کثیرؒ نے اسے البدایہ والنہایہ: 7/131 میں ذکر کیا ہے۔

ابن عساکرؒ نے اس حدیث کو تاریخ دمشق (7/6-1)، (13/23-2) میں روایت کیا ہے۔

الضیاءؒ نے اسے المنتقی من مسموعاۃ بمرو (صفحات: 28-29) میں شامل کیا ہے۔

ابن الاثیرؒ نے اس واقعے کو اسد الغایہ (5/68) میں بیان کیا ہے۔

امام البانیؒ کی تحقیق

امام البانیؒ نے اسے السلسلۃ الصحیحۃ (3/101)، حدیث نمبر: 1110 میں نافعؒ کے حوالے سے روایت کیا ہے:

"یقیناً حضرت عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو آپ نے کہا:
‘یا ساریة الجبل، یا ساریة الجبل’
(اے ساریہ! پہاڑ کو لازم پکڑو! اے ساریہ! پہاڑ کو لازم پکڑو!)

اور اس وقت حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ دشمن پر حملہ کر رہے تھے اور ان کے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان ایک ماہ کی مسافت تھی۔”

حدیث کی کیفیت اور حالت

یہ واقعہ خطبۂ جمعہ کے دوران پیش آیا، نیند میں نہیں بلکہ بیداری کی حالت میں ہوا۔

جو لوگ اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں وہ خطا پر ہیں کیونکہ اس حدیث کی متعدد اسناد موجود ہیں۔

کشف یا کرامت؟

جو کشف صوفیاء کے ہاں معروف ہے، وہ باطل تصور ہے۔

یہ واقعہ درحقیقت کرامت تھا۔

یہ واقعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام کے طور پر پیش آیا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منہ سے یہ الفاظ بغیر ارادے کے صادر ہو گئے۔

مزید تفصیل کے لیے

ملاحظہ کریں: السلسلۃ الصحیحۃ (3/101)، حدیث نمبر: 1110

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1