حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر اعتراضات کا علمی جائزہ

انکارِ حدیث کی مختلف صورتیں

انکار حدیث کے فتنہ کو گہرائی سے دیکھیں تو اس کی مختلف صورتیں سامنے آتی ہیں۔ ان میں ایک اہم صورت یہ ہے کہ حدیث کے براہ راست انکار کے بجائے ان شخصیات پر حملے کیے جائیں جنہوں نے احادیث کی جمع و تدوین اور حفاظت میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ایسے حملوں کا مقصد ان شخصیات کی ساکھ کو مجروح کرنا ہے تاکہ ان کے ذریعے ہم تک پہنچنے والی احادیث کو مشکوک بنایا جا سکے۔ اگر ان ستونوں کو گرا دیا جائے تو پورا ذخیرہ حدیث مشکوک ہو جاتا ہے۔

تنقید کا نشانہ بننے والی شخصیات

منکرینِ حدیث اور مستشرقین نے خاص طور پر دو اہم شخصیات کو تنقید کا نشانہ بنایا:

  • حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
  • امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ

یہ دونوں بزرگ اسلامی تاریخ میں احادیث کے بڑے ذخیرے کے راوی ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے تقریباً 5374 روایات مروی ہیں، جبکہ امام زہری رحمہ اللہ سے تقریباً 2200 روایات مروی ہیں۔ ان پر تنقید کرکے ان سے مروی احادیث کو مشکوک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر اعتراضات اور ان کا جواب

➊ وضعِ حدیث کا الزام

مستشرق گولڈزیہر (Goldziher) نے دعویٰ کیا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیثیں گھڑ لیا کرتے تھے اور ان کے راوی بھی ان کی مرویات پر شک کرتے تھے۔ گولڈزیہر نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کو بنیاد بنایا جس میں ذکر ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کتوں کے قتل کے حکم میں "کھیتی کے کتے” کا استثنا شامل کیا۔

مثال:

ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کتوں کو مارنے کا حکم دیا، سوائے شکار یا مویشیوں کی حفاظت کرنے والے کتوں کے۔ جب ان سے کہا گیا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کھیتی کے کتے کے استثنا کا بھی ذکر کرتے ہیں، تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: "ابو ہریرہ کی کھیتیاں تھیں۔”
(صحیح مسلم، رقم 4019؛ ترمذی، رقم 1488)

گولڈزیہر کی تنقید:

گولڈزیہر نے اس روایت کو بنیاد بنا کر کہا کہ روایتِ حدیث کے ابتدائی زمانے میں راویوں کی امانت پر شکوک موجود تھے۔ اس نے اپنی کتاب Muslim Studies (جلد 2، صفحہ 56) میں لکھا کہ یہ الفاظ غیر شعوری طور پر حدیث میں شامل کیے گئے تھے۔

اعتراض کا جواب

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ منفرد راوی نہیں:

    • اس حدیث کو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ دیگر صحابہ نے بھی روایت کیا ہے، جن میں سفیان بن ابی زہیر رضی اللہ عنہ (صحیح بخاری، رقم 2323) اور عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ (ترمذی، رقم 1487) شامل ہیں۔ اس کے علاوہ یہ روایت صحیح مسلم (رقم 4036) اور دیگر کتب میں بھی موجود ہے۔

ابن عمر رضی اللہ عنہ کا تبصرہ:

    • ابن عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ کا مقصد ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت پر شک کرنا نہیں تھا، بلکہ یہ بتانا تھا کہ زمیندار ہونے کی وجہ سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس استثنا کو زیادہ یاد رکھا۔ امام نووی رحمہ اللہ (المنہاج، شرح صحیح مسلم 4/236) لکھتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا تنقید نہیں بلکہ ایک توجیہ ہے۔

دیگر شواہد:

  • صحیح مسلم میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کی خود اپنی روایت میں بھی "کھیتی کے کتے” کا استثنا موجود ہے۔ الفاظ ہیں:
    "جس نے کھیتی، مویشی یا شکار کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے کتا پالا، اس کے اجر میں روزانہ ایک قیراط کی کمی ہو جائے گی۔”
    (صحیح مسلم، رقم 4029) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کوئی اضافہ نہیں کیا بلکہ یہ الفاظ رسول اللہ ﷺ کے ہی ہیں۔

➋ کثرتِ روایت پر اعتراض

مستشرقین کا کہنا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی کثرتِ روایت پر دیگر صحابہ کو شک تھا، جیسا کہ صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ لوگ کہتے تھے: "ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بہت زیادہ حدیثیں بیان کرتے ہیں۔”
(صحیح بخاری، کتاب فضائل الصحابہ، حدیث 11)

اعتراض کا جواب

  • کثرتِ روایت کی وجہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے خود اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مسلسل رہتے تھے اور دنیاوی کاموں میں مشغول نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ احادیث یاد کر سکے۔
    (صحیح بخاری، کتاب العلم، حدیث 118)
  • دیگر صحابہ کی تصدیق: اگر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی احادیث پر واقعی کوئی شک ہوتا تو دیگر صحابہ ان سے روایت نہ کرتے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ 28 صحابہ کرام اور بے شمار تابعین نے ان سے احادیث روایت کیں۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے مشہور صحابہ:

  • زید بن ثابت رضی اللہ عنہ
  • ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ
  • ابن عباس رضی اللہ عنہ
  • ابن عمر رضی اللہ عنہ
  • عائشہ رضی اللہ عنہا
  • انس بن مالک رضی اللہ عنہ
  • جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ

فقہا اور محدثین کا اعتماد:
محدثین اور فقہا نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات سے احکام اخذ کیے، جو ان کی احادیث کی صحت پر اجماع کا ثبوت ہے۔

خلاصۂ کلام

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر تنقید محض تعصب اور علمی بددیانتی پر مبنی ہے۔ ان کے کردار اور کثرتِ روایت پر اعتراضات کا کوئی مضبوط بنیاد نہیں۔ ان کے راوی ہونے کی تصدیق صحابہ، تابعین اور ائمہ حدیث نے کی ہے۔ جو لوگ ان پر تنقید کرتے ہیں، ان کا اصل مقصد ذخیرہ حدیث کو مشکوک بنانا ہے تاکہ احادیث کی اہمیت کو کم کیا جا سکے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے