حضرت ابراہیمؑ کے نمرود سے مکالمے کا سبق آموز پہلو
تحریر: احمد بلال

کہانیوں اور دلیل سازی کی پیچیدگی

کچھ افراد جب خدا کے وجود پر بحث کرنا چاہتے ہیں تو وہ ایسی کہانیاں تراشتے ہیں جن کا نتیجہ ان کی مرضی کے مطابق نکلے۔ لیکن اگر ان کہانیوں کی معمولی ایڈیٹنگ کی جائے، تو نتائج الٹ بھی ہو سکتے ہیں۔ علامہ نیاز فتح پوری نے اپنی تحریر میں اس بات کو اجاگر کیا کہ حضرت ابراہیمؑ اور نمرود کے مکالمے میں بھی دلیل سازی کا ایک دلچسپ پہلو موجود ہے۔

حضرت ابراہیمؑ اور نمرود کا مکالمہ

قرآن مجید میں حضرت ابراہیمؑ اور نمرود کے مکالمے کا ذکر موجود ہے:
"أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آَتَاهُ اللَّهُ الْمُلْکَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي کَفَرَ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ” (سورۃ البقرۃ، 258)

حضرت ابراہیمؑ نے نمرود سے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا اور موت دیتا ہے۔ نمرود نے اس بات کو مجازی طور پر لے کر کہا کہ میں بھی زندہ اور مردہ کر سکتا ہوں، اور دو قیدیوں کی زندگی اور موت کے فیصلے سے اس کا "ثبوت” دینے کی کوشش کی۔ حضرت ابراہیمؑ نے اس بودے استدلال کو فوری طور پر رد کرتے ہوئے کہا کہ اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، اگر تم خدا ہو تو سورج کو مغرب سے نکال کر دکھاؤ۔ نمرود اس دلیل پر لاجواب ہو گیا۔

نمرود کے جوابی امکان کا جائزہ

علامہ نیاز فتح پوری کے مطابق، اگر نمرود اس دلیل کو الٹ کر کہتا کہ سورج کو مشرق سے میں نکالتا ہوں، تم اپنے خدا سے کہو کہ مغرب سے نکال دے، تو حضرت ابراہیمؑ کے پاس بھی ایک اور دلیل دینے کی گنجائش باقی رہتی۔ لیکن نمرود کے لیے ایسی صورت میں بھی دلیل بازی جاری رکھنا ناممکن ہو جاتا کیونکہ:

◈ نمرود کو معلوم تھا کہ وہ سورج کو کسی بھی سمت سے نکالنے پر قادر نہیں۔
◈ بادشاہی کے زعم اور جاہ و حشمت میں کمی کا اندیشہ اسے کسی بھی ایسے چیلنج کے قبول کرنے سے روک دیتا تھا۔
◈ اگر حضرت ابراہیمؑ اللہ کے حکم سے مغرب سے سورج نکال دیتے، تو یہ نمرود کے جھوٹے خدائی دعوے کے لیے ناقابلِ تلافی شکست ہوتی۔

سادہ استدلال کی طاقت

حضرت ابراہیمؑ کے اس مکالمے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سادہ لیکن مضبوط استدلال کسی بھی بودے دعوے کو رد کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ سادگی کی یہی طاقت اکثر ظالموں اور سرکشوں کو لاجواب کر دیتی ہے۔

افریقی کہاوت کا مفہوم

یہاں افریقی کہاوت "جب تک شیر لکھنا نہ سیکھے، کہانی ہمیشہ شکاری کے حق میں ہوگی” کو سمجھنا بھی اہم ہے۔ کہانیوں اور دلائل کا انحصار اکثر اس پر ہوتا ہے کہ انہیں کس زاویے سے بیان کیا گیا ہے۔ نمرود جیسے طاقتور افراد بھی اپنی حکمرانی کی کہانیوں کو اپنے حق میں لکھواتے ہیں، لیکن سچے دلائل ان کے جھوٹ کو واضح کر دیتے ہیں۔

آج کے دور کے سبق

آج کے دور میں بعض افراد مظاہرِ قدرت پر مبنی قرآن مجید کی کہانیوں کو بچگانہ سمجھتے ہیں، لیکن یہ سوچنا کہ ہزاروں سال پہلے کے حالات اور استدلال کا آج کے سائنسی دور سے موازنہ کیا جائے، ایک غلط فہمی ہے۔ یہ کہانیاں ہمیں سرکش افراد کے بودے استدلال اور اللہ کی قدرت کو سمجھانے کے لیے پیش کی گئی ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے