حضرت آدم و دیگر انبیاء کی اقتداء سے متعلق 2 ضعیف روایات کا تحقیقی جائزہ
ماخوذ: فتاوی علمیہ، جلد1، كتاب الصلاة۔صفحہ 285

نبی کا اُمتی کی اقتداء میں نماز پڑھنا

سوال:

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
دوسری روایت بھی سیوطی صاحب کی کتاب سے منقول ہے کہ ہر نبی نے اپنے امتی کے پیچھے نماز پڑھی اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت آدم علیہ السلام نے کس کے پیچھے نماز پڑھی؟
(عابد حسین شاہ ولد ظہور شاہ)

الجواب :

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حافظ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی نقل کردہ روایت:

حافظ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"ما قبض نبي قط حتى يصلي خلف رجل صالح من أمته”
(مفہوم): حدیث میں آیا ہے کہ ایسا کوئی نبی بھی فوت نہیں ہوا جس نے اپنی وفات سے پہلے اپنی امت کے کسی صالح شخص کے پیچھے نماز نہ پڑھی۔
(تاریخ الخلفاء، صفحہ 88)

روایت کی اسناد اور تحقیق:

1. روایت کی پہلی سند:

یہ روایت مندرجہ ذیل کتب میں موجود ہے:

بزار: البحر الزخار (1/55، حدیث: 3)
کشف الستار: (3/211، حدیث: 2591)
امام احمد بن حنبل: المسند (1/13، حدیث: 78)

روایت کی سند ہے:

"عن عاصم بن كليب، قال : حدثني شيخ من قريش من بني تيم عن عبدالله بن الزبير عن عمر بن الخطاب عن ابي بكر الصديق رضي الله عنهم”

سند کی حیثیت:
یہ سند ضعیف ہے، کیونکہ:
◈ اس میں "شیخ من قریش” مجہول ہے۔
◈ مجہول راوی کی حدیث ضعیف شمار کی جاتی ہے، الّا یہ کہ اس کی تائید یا متابعت کسی صحیح یا حسن روایت سے ہو۔

(حوالہ: تحقیق احمد شاکر 1/79، الموسوعہ الحدیثیۃ، تحقیق: مسند الامام احمد 1/240)

2. روایت کی دوسری سند:

یہ سند ابو نعیم الاصبہانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب میں ہے:

"حدثنا ابو محمد بن حيان حدثنا ابو صالح عبدالرحمان بن احمد الزهري الاعرج حدثنا ابراهيم بن احمد النابتي حدثنا علي بن الحسن بن شفيق حدثنا ابو حمزة السكري عن عاصم بن كليب عن عبدالله بن الزبير حدثنا عمر بن الخطاب عن ابي بكر الصديق رضي الله عنهم قال:سمعت النبي صلي الله عليه وسلم يقول :مابعث الله نبيا الا وقد امه بعض امته”
(اخبار اصبہان 2/114)

اس سند کے ضعف کی تین وجوہات:
◈ عاصم بن کلیب اور عبداللہ بن الزبیر کے درمیان مجہول شیخ کا واسطہ ہے۔ یہ روایت "المزید فی متصل الاسانید” کے باب میں آتی ہے۔
◈ عبدالرحمٰن بن احمد الاعرج مجہول الحال ہے۔
◈ ابراہیم بن احمد النابتی کی توثیق نامعلوم ہے۔

(حوالہ: الضعیفۃ للشیخ الالبانی رحمۃ اللہ علیہ 13/533، حدیث: 6246)

خلاصہ:

یہ روایت اپنی دونوں اسناد کے ساتھ ضعیف ہے، لہٰذا یہ سوال کہ "حضرت آدم علیہ السلام نے کس کے پیچھے نماز پڑھی؟” کسی مستند جواب کا محتاج نہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کا مستند واقعہ:

تاہم ایک صحیح واقعہ ثابت ہے کہ:

◈ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی شرعی عذر کی وجہ سے نماز میں تاخیر سے تشریف لائے۔
◈ اس دوران عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔
◈ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے نماز ادا فرمائی اور اپنی فوت شدہ رکعت بعد میں پوری فرمائی۔

صحیح مسلم: کتاب الطہارہ، باب المسح علی الناصیہ والعمامہ (8/274)
سنن ابن ماجہ: کتاب اقامۃ الصلوٰۃ، باب ما جاء فی صلاۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خلف رجل من امتہ، حدیث: 1236

اہم وضاحت:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کوئی اور امام نہیں بن سکتا۔
لیکن جو شخص آپ کی غیر موجودگی میں نماز پڑھا رہا تھا، وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہے۔

(حوالہ: الحدیث، جلد 10)

ھذا ما عندي، واللہ أعلم بالصواب۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1