سوال
محترم شیخ صاحب، اس حدیث کی سند کے بارے میں وضاحت فرمائیں:
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"ماتحت ظل السمآء من الٰہ یعبد من دون اللہ تعالیٰ اعظم عند اللہ عزوجل من ھوی یتبع”
(اس آسمان کے نیچے اللہ تعالیٰ کے سوا جتنے معبود بھی پوجے جا رہے ہیں، ان میں اللہ کے نزدیک بدترین معبود وہ خواہش نفس ہے جس کی پیروی کی جا رہی ہو)۔
(طبرانی)
جواب
حدیث کی تخریج:
یہ روایت امام طبرانی نے اپنی کتاب "المعجم الکبیر” میں نقل کی ہے:
حدثنا محمد بن عثمان بن سعيد أبو عمر الضرير الكوفي، ثنا أحمد بن يونس، ثنا إسماعيل بن عياش، عن الحسن بن دينار، عن الخصيب بن جحدر، عن راشد بن سعد، عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما تحت ظل السماء من إله يعبد من دون الله أعظم من عند الله من هوى متبع»
"آسمان کے سایے تلے اللہ کے علاوہ جس کی عبادت کی جاتی ہے، ان میں اللہ کے نزدیک اس سے بڑا (کوئی گناہ) نہیں جو کسی خواہش کی پیروی کی جائے۔”
(المعجم الكبير للطبراني، 8/ 103، حدیث نمبر: 7502)
یہ روایت "السنۃ لابن ابی عاصم”، "حلیۃ الأولیاء لابی نعیم” اور "الابانۃ لابن بطہ” وغیرہ کتب میں بھی موجود ہے، لیکن تمام اسانید کا مدار الحسن بن دینار اور الخصیب بن جحدر پر ہے۔
حدیث کی سند کا حکم:
یہ دونوں راوی یعنی الحسن بن دینار اور الخصیب بن جحدر محدثین کے نزدیک "متروک الحدیث” ہیں، اس لیے اس حدیث کی سند سخت ضعیف ہے اور قابل حجت نہیں۔
خواہش نفس کو الٰہ بنانے کے متعلق قرآنی رہنمائی:
خواہش نفس کو الٰہ بنانا اور اس کی پیروی کرنا ایک خطرناک عمل ہے، جس کے بارے میں قرآن مجید میں واضح تنبیہ کی گئی ہے:
"أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّـهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّـهِ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ”
(الجاثیہ: 23)
ترجمہ:
کیا آپ نے اسے بھی دیکھا؟ جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور باوجود سمجھ بوجھ کے اللہ نے اسے گمراہ کر دیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھ پر بھی پردہ ڈال دیا ہے۔ اب ایسے شخص کو اللہ کے بعد کون ہدایت دے سکتا ہے؟
امام ابن بطہ کا قول:
امام ابن بطہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"أَعَاذَنَا اللَّهُ وَإِيَّاكُمْ مِنَ الْآرَاءِ الْمُخْتَرِعَةِ، وَالْأَهْوَاءِ الْمُتَّبِعَةِ، وَالْمَذَاهِبِ الْمُبْتَدِعَةِ، فَإِنَّ أَهْلَهَا خَرَجُوا عَنِ اجْتِمَاعٍ إِلَى شَتَاتٍ، وَعَنْ نِظَامٍ إِلَى تَفَرُّقٍ، وَعَنْ أُنْسٍ إِلَى وَحْشَةٍ، وَعَنِ ائْتِلَافٍ إِلَى اخْتِلَافٍ، وَعَنْ مَحَبَّةٍ إِلَى بُغْضَةٍ، وَعَنْ نَصِيحَةٍ وَمُوَالَاةٍ إِلَى غِشٍّ وَمُعَادَاةٍ، وَعَصَمَنَا وَإِيَّاكُمْ مِنَ الِانْتِمَاءِ إِلَى كُلِّ اسْمٍ خَالَفَ الْإِسْلَامَ وَالسُّنَّةَ”
(الإبانة الكبرى لابن بطہ، 1/ 388)
ترجمہ:
اللہ ہمیں اور آپ کو من گھڑت آراء، خواہشات نفسانی، اور بدعتی مذاہب سے محفوظ رکھے، کیونکہ ان کے ماننے والے اجتماعیت سے انتشار، نظام سے افتراق، محبت سے بغض، اور نصیحت و ہمدردی سے دشمنی و دھوکے کی طرف جا چکے ہیں۔ اللہ ہمیں اسلام اور سنت کے مخالف ہر نظریے سے محفوظ رکھے۔
خلاصہ:
مذکورہ حدیث سند کے اعتبار سے سخت ضعیف ہے اور قابل استدلال نہیں۔
تاہم، قرآن مجید اور اہل علم کی نصیحتوں سے واضح ہوتا ہے کہ خواہش نفس کی پیروی انسان کو گمراہی کی طرف لے جاتی ہے، اور یہ عمل اللہ کے نزدیک شدید ناپسندیدہ ہے۔
اہل اسلام کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ خواہشات نفسانی اور بدعات سے بچتے ہوئے قرآن و سنت کی پیروی کریں۔