حدیث ِ قرطاس
یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری ایام کا ہے جب آپ شدید بیمار تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے پاس موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کچھ لکھنے کے لیے لائیں، میں ایسی تحریر لکھ دوں کہ آپ کو ہمیشہ یاد رہے۔” اس موقع پر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ خیال آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ تکلیف میں ہیں، لہٰذا ایسی حالت میں آپ کو یہ زحمت نہیں دینی چاہیے۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار دیگر صحابہ سے کیا اور کہا کہ "آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تکلیف کا غلبہ ہے، اور ہمارے پاس قرآن مجید موجود ہے، جو ہمارے لیے کافی ہے۔”
اس موقع پر حاضرین میں اختلاف پیدا ہوگیا۔ کچھ صحابہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی موافقت کرتے ہوئے کہنے لگے کہ یہ تحریر نہ دی جائے، جبکہ کچھ نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ تحریر دی جائے۔ اس تکرار کی صورت حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کاغذ اور قلم رہنے دیں اور صحابہ سے کہا: "آپ یہاں سے چلے جائیں، مجھے تنہائی چاہیے۔”
اس واقعہ سے متعلق مختلف روایات:
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
لَمَّا حُضِرَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ، وَفِي الْبَیْتِ رِجَالٌ فِیہِمْ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ، قَالَ : ہَلُمَّ أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لَّنْ تَضِلُّوا بَعْدَہ، ، قَالَ عُمَرُ : إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَلَبَہُ الْوَجَعُ وَعِنْدَکُمُ القُرْآنُ فَحَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ، وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْبَیْتِ وَاخْتَصَمُوا، فَمِنْہُمْ مَّنْ یَّقُولُ : قَرِّبُوا یَکْتُبْ لَکُمْ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کِتَابًا لَّنْ تَضِلُّوا بَعْدَہ،، وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّقُولُ مَا قَالَ عُمَرُ، فَلَمَّا أَکْثَرُوا اللَّغَطَ وَالِاخْتِلاَفَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ : قُومُوا عَنِّي .
"جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا تو گھر میں کچھ لوگ موجود تھے، جن میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘قلم کاغذ لائیں، تاکہ میں ایسی تحریر لکھ دوں کہ اس کے بعد آپ کبھی گمراہ نہ ہوں گے۔’ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تکلیف کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس قرآن موجود ہے، ہمیں کتاب اللہ کافی ہے۔ اس پر گھر میں موجود لوگوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا۔ کچھ نے کہا: ‘قلم کاغذ دیں تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی تحریر لکھ دیں کہ اس کے بعد گمراہی کا اندیشہ نہ رہے’، جبکہ کچھ نے کہا جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اختلاف اور شور بڑھ گیا تو آپ نے فرمایا: ‘میرے پاس سے اُٹھ جاؤ۔'”
(صحیح البخاري: 7366، صحیح مسلم: 1637)
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
"قُومُوا عَنِّي، وَلَا یَنْبَغِي عِنْدِي التَّنَازُعُ”
"میرے پاس سے اٹھ جائیں، میری موجودگی میں اختلاف مناسب نہیں۔”
(صحیح البخاري: 114)
ایک اور روایت میں ہے:
اِئْتُونِي بِالْکَتِفِ وَالدَّوَاۃِ أَوِ اللَّوْحِ وَالدَّوَاۃِ أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لَّنْ تَضِلُّوا بَعْدَہ، أَبَدًا ، فَقَالُوا : إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَہْجُرُ .
"لائیں ہڈی اور دوات یا تختی اور دوات، میں ایسی تحریر لکھ دیتا ہوں کہ اس کے بعد آپ کبھی گمراہ نہ ہوں گے۔” صحابہ نے کہا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شدید بیماری کی حالت میں ہیں، اور یہ تکلیف کی شدت سے نہیں ہے۔”
(صحیح البخاري: 4431، صحیح مسلم: 1637)
سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جمعرات کا دن کتنا پریشان کن تھا۔ وہ روتے ہوئے فرما رہے تھے:
اِشْتَدَّ بِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَجَعُہ،، فَقَالَ : ائْتُونِي أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لَّنْ تَضِلُّوا بَعْدَہ، أَبَدًا، فَتَنَازَعُوا وَلَا یَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ، فَقَالُوا : مَا شَأْنُہ،، أَہَجَرَ اسْتَفْہِمُوہُ؟ فَذَہَبُوا یَرُدُّونَ عَلَیْہِ، فَقَالَ : دَعَوْنِي، فَالَّذِي أَنَا فِیہِ خَیْرٌ مِّمَّا تَدْعُونِي إِلَیْہِ .
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر مرض کی شدت تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘میرے پاس کچھ لاؤ تاکہ میں ایسی تحریر لکھ دوں جس کے بعد آپ کبھی بھٹک نہ سکیں۔’ صحابہ میں اختلاف ہو گیا، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اختلاف مناسب نہیں تھا۔ صحابہ کہنے لگے: ‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا معاملہ پیش آیا ہے، کیا آپ شدت تکلیف کی وجہ سے ایسا کہہ رہے ہیں؟’ صحابہ نے بار بار لکھنے کا کہا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘مجھے میرے حال پر چھوڑ دو، میں جس حالت میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کی آپ مجھ سے توقع کر رہے ہیں۔'” (صحیح البخاري: 4431، صحیح مسلم: 1637)
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا اجتہاد
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر مرض کی شدت تھی۔ اسی وجہ سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اجتہاداً کہا کہ ہمارے لیے قرآن و حدیث کافی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی رائے کو درست سمجھا اور صحابہ کے اصرار کے باوجود تحریر نہیں لکھوائی۔
لفظ ہجر کی تحقیق
ہجر کا مطلب ہے "شدت بخار کی حالت میں بے معنی باتیں کرنا۔” تاہم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کا انکار کیا ہے۔ حدیث میں استعمال ہونے والا لفظ ”أَہَجَرَ“ میں موجود ہمزہ، استفہام انکاری کے لیے ہے، جبکہ ہجر ماضی کا فعل ہے۔ کچھ روایات میں بغیر ہمزہ کے "ہجر” اور "یہجر” کے الفاظ بھی ملتے ہیں، جو دراصل ہمزہ محذوف ہونے کی مثال ہے، اور عربی زبان میں اس طرح کے محذوفات عام ہیں۔
لفظ "أَہَجَرَ” کی وضاحت
حدیث میں مذکور الفاظ "فَقَالُوا مَا لَهُ أَہَجَرَ” (یعنی "انہوں نے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شدتِ بخار کی وجہ سے بے معنی باتیں کر رہے ہیں؟”) سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ الفاظ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے نہیں تھے بلکہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تھے جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اختلاف کر رہے تھے۔ ان کا مدعا یہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شدید بیماری کے باوجود شعور کے ساتھ بات کر رہے ہیں، بے معنی گفتگو نہیں فرما رہے۔ اس لیے اس حدیث میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی توہین کا کوئی پہلو نہیں ہے بلکہ یہ حدیث ان کی عظمت کی عکاس ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رائے کی موافقت کرتے ہوئے تحریر لکھنے کا ارادہ ترک کر دیا۔
صحیح بخاری (4431) اور صحیح مسلم (1637) میں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دَعَوْنِي، فَالَّذِي أَنَا فِیْہِ خَیْرٌ مِّمَّا تَدْعُونِي إِلَیْہِ” ”مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں، آپ جو مجھے لکھنے کا کہہ رہے ہیں میرے مطابق نہ لکھنا ہی بہتر ہے۔”
موافقاتِ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اجتہادات کی متعدد مثالیں قرآن و حدیث میں ملتی ہیں، جن میں ان کی رائے کو شریعت کا درجہ دیا گیا۔ اس ضمن میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ مشہور ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس میں تشریف فرما تھے اور اچانک اٹھ کر چلے گئے۔ طویل غیرحاضری پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فکر لاحق ہوئی اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آپ کو ایک باغ میں پایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنا جوتا دیا اور پیغام دیا کہ راستے میں ملنے والے ہر کلمہ گو کو جنت کی خوشخبری دے دو۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سب سے پہلے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ملے اور جنت کی بشارت دی۔ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں زور سے تھپڑ مارا، جس سے وہ زمین پر گر پڑے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھاگے اور شکایت کی۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی ان کے پیچھے آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: "يَا عُمَرُ، مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا فَعَلْتَ؟”
عمر! تم نے ایسا کیوں کیا؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: "يَا رَسُولَ اللّٰہِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، أَبَعَثْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ بِنَعْلَيْكَ، مَنْ لَقِيَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ، بَشَّرَهُ بِالْجَنَّةِ؟ قَالَ: نَعَمْ” آقا میرے ماں باپ آپ پر قربان، کیا آپ نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو جوتا دے کر بھیجا تھا کہ جو بھی کلمہ گو ملے اسے جنت کی بشارت دو؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: "فَلَا تَفْعَلْ، فَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا، فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُونَ” آقا، ایسا نہ کریں، مجھے ڈر ہے کہ لوگ اسی پر تکیہ کر لیں گے، انہیں چھوڑ دیں تاکہ یہ عمل کرتے رہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "فَخَلِّهِمْ”انہیں چھوڑ دو۔
(صحیح مسلم: 31)
حدیثِ قرطاس میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا موقف
اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنا موقف پیش کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اتفاق کیا۔ اسی طرح حدیث قرطاس میں بھی سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کے سامنے اپنی رائے کا اظہار کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شدید تکلیف میں ہیں اور اس حالت میں تحریر لکھنے کی زحمت نہ دی جائے۔ اس پر بعض صحابہ نے ان سے اختلاف کیا، جب کہ بعض نے موافقت کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر کار سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی رائے کو ترجیح دی اور تحریر کا ارادہ ترک کر دیا۔
فہم اور بصیرت کی نعمت
اللہ تعالیٰ نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو گہری بصیرت اور شاندار فہم عطا کیا تھا۔ انہوں نے یہ بات اجتہادی طور پر کہی تھی اور اس کے لیے دلیل بھی دی۔ حافظ نووی رحمہ اللہ (631-676ھ) اس بارے میں لکھتے ہیں: "وَأَمَّا كَلَامُ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهُ فَقَدِ اتَّفَقَ الْعُلَمَاءُ الْمُتَكَلِّمُونَ فِي شَرْحِ الْحَدِيثِ عَلَى أَنَّهُ مِنْ دَلَائِلِ فِقْهِ عُمَرَ وَفَضَائِلِهِ وَدَقِيقِ نَظَرِهِ”
”شارحین حدیث اس بات پر متفق ہیں کہ یہ حدیث سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی بصیرت، دین میں ان کی فقاہت، اور ان کی گہری نظر کا ثبوت ہے۔”
(شرح صحیح مسلم للنووي: 11/90)
کیا اختلاف صحابہ نے خلافت کی تحریر میں رکاوٹ ڈالی؟
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے: "إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ أَنْ يَكْتُبَ لَهُمْ ذَلِكَ الْكِتَابَ مِنَ اخْتِلَافِهِمْ وَلَغَطِهِمْ”
”بہت بڑی مصیبت تب واقع ہوئی جب صحابہ کا باہمی اختلاف اور شور ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھنے کا ارادہ ترک کر دیا۔”
(صحیح البخاري: 7366، صحیح مسلم: 1637)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تحریر کا ارادہ ترک کرنا
یہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی اجتہادی رائے ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھنے کا ارادہ صحابہ کے اختلاف کی وجہ سے نہیں بلکہ خود ہی ترک کر دیا تھا۔ اس سے چند دن قبل بھی ایک واقعہ پیش آیا تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ ابوبکر اور عبدالرحمٰن بن ابی بکر کو بلائیں، تاکہ میں خلافت کی بابت کچھ لکھ دوں، مگر پھر ارادہ ترک کر دیا اور فرمایا: "وَيَأْبَى اللّٰہُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَّا أَبَا بَكْرٍ” ”خلافت کے لیے ابوبکر کے علاوہ کسی کا نام آئے گا تو اللہ تعالیٰ اور مومن اس سے انکار کر دیں گے۔” (مسند الإمام أحمد: 6/144، صحیح مسلم: 2387)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی وضاحت
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرَكَ كِتَابَةَ الْكِتَابِ بِاخْتِيَارِهِ، فَلَمْ يَكُنْ فِي ذٰلِكَ نِزَاعٌ، وَلَوِ اسْتَمَرَّ عَلَى إِرَادَةِ الْكِتَابِ مَا قَدِرَ أَحَدٌ أَنْ يَمْنَعَهُ” ”اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھنے کا ارادہ اپنے اختیار سے ترک کیا، اگر آپ لکھنا چاہتے تو کسی کی مجال نہ تھی کہ آپ کو روکے۔” (منہاج السنۃ النبویۃ في نقض کلام الشیعۃ والقدریۃ: 6/317)
انہوں نے مزید فرمایا: "وَلَا فِي شَيْءٍ مِّنَ الْحَدِيثِ الْمَعْرُوفِ عِنْدَ أَهْلِ النَّقْلِ أَنَّهُ جَعَلَ عَلِيًّا خَلِيفَةً…فَإِنْ كَانَ قَدْ فَعَلَ ذٰلِكَ فَقَدْ أَغْنَى عَنِ الْكِتَابِ…”
”کسی صحیح حدیث میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بلا فصل خلافت پر کوئی نص موجود نہیں، جبکہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر صحیح ثابت نصوص موجود ہیں… اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر قطعی نص قائم کی تھی، تو پھر لکھنے کی ضرورت کیا تھی؟”
(منہاج السنۃ النبویۃ في نقض کلام الشیعۃ والقدریۃ: 6/318)
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ مصیبت کس کو کہتے ہیں؟
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خلافتِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے شک اور انکار کو بڑی مصیبت قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بارے میں تحریر فرما دیتے تو انکار کرنے والوں اور گمراہ لوگوں کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہتا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"یَقْتَضِي أَنَّ ہٰذَا الْحَائِلَ کَانَ رَزِیَّۃً، وَہُوَ رَزِیَّۃٌ فِي حَقِّ مَنْ شَکَّ فِي خِلَافَۃِ الصِّدِّیقِ، أَوِ اشْتَبَہَ عَلَیْہِ الْـأَمْرُ؛ فَإِنَّہ، لَوْ کَانَ ہُنَاکَ کِتَابٌ لَّزَالَ ہٰذَا الشَّکُّ، فَأَمَّا مَنْ عَلِمَ أَنَّ خِلَافَتَہ، حَقٌّ فَلَا رَزِیَّۃَ فِي حَقِّہٖ، وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ”
”سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا کلام ظاہر ہے کہ وہ خلافتِ صدیق رضی اللہ عنہ میں شک و انکار کو بڑی مصیبت اور ہلاکت قرار دے رہے ہیں، کیونکہ اگر خلافت کے بارے میں تحریر ہوتی، تو یہ شک ختم ہو جاتا۔ جو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کو حق سمجھتا ہے، اس کے لیے کوئی مصیبت نہیں، اور الحمدللہ۔”
(منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ والقدریۃ: 6/25)
خلافتِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیت
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما یہ بات اس وقت فرمایا کرتے تھے، جب شیعہ جیسے گمراہ فرقے سامنے آ چکے تھے۔ وہ خلافتِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے انکار کو امت کی ہلاکت کا سبب قرار دیتے تھے۔ یہ بات واضح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت لکھنا نہیں چاہتے تھے۔ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت و امامت لکھ کر دینا چاہتے تھے، لیکن سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ نے اس کو منع کر دیا۔ ہم کہتے ہیں کہ اس حدیث کا باریک بینی سے مطالعہ کریں، اس میں کہیں یہ ذکر نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت لکھنا چاہتے تھے۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کی رائے
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "وَہٰذَا الْحَدِیثُ مِمَّا قَدْ تَوَہَّمَ بِہٖ بَعْضُ الْـأَغْبِیَاءِ مِنْ أَہْلِ الْبِدَعِ مِنَ الشِّیعَۃِ وَغَیْرِہِمْ… وَہٰذِہِ طَرِیقَۃُ الرَّاسِخِینَ فِي الْعِلْمِ کَمَا وَصَفَہُمُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِي کِتَابِہٖ”
”اس حدیث سے اہلِ بدعت، خاص طور پر شیعہ کے بعض کم فہم لوگوں نے وہم کھایا ہے۔ ان میں سے ہر شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے موقف کے مطابق کچھ لکھنا چاہتے تھے۔ یہ لوگ متشابہ امور کو پکڑتے ہیں اور محکم کو چھوڑ دیتے ہیں، جبکہ اہلِ سنت محکم کو لیتے ہیں اور متشابہ کو اس کی طرف لوٹا دیتے ہیں۔ یہ طریقہ ان علمائے راسخین کا ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے۔”
انہوں نے مزید فرمایا: "وَہٰذَا الَّذِي کَانَ یُرِیدُ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ أَنْ یَّکْتُبَہ، قَدْ جَاءَ فِي الْـأَحَادِیثِ الصَّحِیحَۃِ التَّصْرِیحُ بِکَشْفِ الْمُرَادِ مِنْہُ…”
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ لکھنے کا ارادہ فرما رہے تھے، اس کی وضاحت صحیح احادیث میں واضح طور پر آ چکی ہے۔”
(البدایۃ والنہایۃ: 5/227-228)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا لکھنا چاہتے تھے؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضِ وفات میں کی گئی گفتگو اور احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خلافت کے حوالے سے ایک تحریر لکھنا چاہتے تھے، تاکہ خلافت کے بارے میں بعد میں کوئی اختلاف نہ ہو۔ اور یہ تحریر دراصل سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے حق میں تھی، تاکہ ان کی خلافت پر کسی کو اعتراض کا موقع نہ ملے۔
حدیث نمبر 1
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
"لَمَّا کَانَ وَجَعُ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِي قُبِضَ فِیہِ، قَالَ: ادْعُوا لِي أَبَا بَکْرٍ وَّابْنَہُ، فَلْیَکْتُبْ لِکَیْلَا یَطْمَعَ فِي أَمْرِ أَبِي بَکْرٍ طَامِعٌ، وَلَا یَتَمَنّٰی مُتَمَنٍّ، ثُمَّ قَالَ: یَأْبَی اللّٰہُ ذٰلِکَ وَالْمُسْلِمُونَ مَرَّتَیْنِ….، قَالَتْ عَائِشَۃُ: فَأَبَی اللّٰہُ وَالْمُسْلِمُونَ.”
"جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیماری میں مبتلا تھے، جس میں آپ کا انتقال ہوا، تو آپ نے فرمایا: ‘ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے (عبدالرحمن رضی اللہ عنہ) کو بلاؤ، تاکہ وہ لکھ لیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں کوئی خواہش مند طمع نہ کرے اور کوئی آرزو کرنے والا امید نہ لگائے۔’ پھر آپ نے دو مرتبہ فرمایا: ‘اللہ تعالیٰ اور مسلمان کسی اور کی خلافت کو تسلیم نہیں کریں گے۔’ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ‘چنانچہ اللہ تعالیٰ اور مسلمانوں نے میرے والد (ابوبکر رضی اللہ عنہ) کے سوا کسی اور کو تسلیم نہیں کیا۔'”
(مسند الإمام أحمد: 6/106، وسندہ حسن)
حدیث نمبر 2
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی ایک اور روایت میں آتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"أُدْعِي لِي أَبَا بَکْرٍ، أَبَاکِ، وَأَخَاکِ، حَتّٰی أَکْتُبَ کِتَابًا، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ یَّتَمَنّٰی مُتَمَنٍّ وَّیَقُولُ قَائِلٌ: أَنَا أَوْلٰی، وَیَأْبَی اللّٰہُ وَالْمُوْمِنُونَ إِلَّا أَبَا بَکْرٍ.”
"اپنے والد ابوبکر رضی اللہ عنہ اور بھائی عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کو بلاؤ تاکہ میں تحریر کر دوں۔ مجھے یہ خوف ہے کہ کوئی خلافت کا متمنی کہے کہ میں زیادہ حق دار ہوں، حالانکہ اللہ تعالیٰ اور مومنین ابوبکر کے علاوہ کسی کو تسلیم نہیں کریں گے۔”
(مسند الإمام أحمد: 6/144، صحیح مسلم: 2387)
وضاحت
ان احادیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ تھا کہ تحریری طور پر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی تصدیق فرما دیں تاکہ بعد میں کوئی اختلاف یا تنازعہ نہ رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لیے بہترین جانا اور یہ یقین دلایا کہ اللہ تعالیٰ اور مسلمان بھی اسی فیصلے کی تائید کریں گے۔
حدیث نمبر 3
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری کے دوران فرمایا:
"لَقَدْ ہَمَمْتُ أَوْ أَرَدْتُّ أَنْ أُرْسِلَ إِلٰی أَبِي بَکْرٍ وَّابْنِہٖ فَأَعْہَدَ، أَنْ یَّقُولَ : الْقَائِلُونَ أَوْ یَتَمَنَّی الْمُتَمَنُّونَ”
"میں نے ارادہ کیا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے عبدالرحمٰن کی طرف پیغام بھیجوں اور خلافت کی وصیت کر دوں تاکہ کوئی خلافت کا دعویدار نہ بنے اور نہ ہی کوئی تمنا کرے۔”
(صحیح البخاری: 7217)
وضاحت
یہ احادیث واضح طور پر اشارہ کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کو تحریری طور پر لکھنے کا ارادہ فرمایا تھا، لیکن پھر اسے ترک کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارادہ اس وجہ سے تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ خلافت کے کسی دوسرے دعوے دار کے لیے کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ مگر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ اور مسلمان سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں متفق ہیں، تو آپ نے لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ خلافت کے لیے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا انتخاب اللہ تعالیٰ اور مومنین کی طرف سے قبول کر لیا گیا۔
دین کی حفاظت اور خلافتِ علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں شیعہ موقف
دین کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے خود لی ہے، اس لیے یہ تصور کرنا کہ خلافت و امامت اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہو اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس کے اوّل حقدار ہوں، لیکن امت اس کے خلاف متفق ہو جائے، درست نہیں ہے۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت لکھنا چاہتے تھے، تو وہ زبانی طور پر ہی بیان فرما دیتے، کیونکہ اس میں کوئی رکاوٹ نہ تھی۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا موقف
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی پوری زندگی میں کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ خلیفہ بلافصل ہیں اور انہیں ان کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ اگرچہ بعض لوگ یہ مانتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے حق کے لیے جنگ کا اعلان نہیں کیا تاکہ امت کو مزید آزمائش میں نہ ڈالا جائے، لیکن ان کے دورِ خلافت میں بھی ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی۔ اگر یہ معاملہ واقعی خلافت کا تھا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے دوران اس بات کو بیان کر سکتے تھے۔ لیکن نہ تو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اور نہ ہی کسی اور صحابی نے اس بات کا ذکر کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خلافتِ علی لکھنا چاہتے تھے لیکن لکھ نہ سکے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما، جو اس واقعہ کے راوی بھی ہیں اور جنہوں نے اس صورت حال کو بیان کرتے ہوئے اپنی پریشانی کا اظہار کیا ہے، انہوں نے بھی یہ نہیں کہا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کوئی ناانصافی ہوئی ہے یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی خلافت لکھنا چاہتے تھے مگر نہ لکھ سکے۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خلافتِ علی کے بارے میں لکھنا چاہتے تھے، تو وہ زبانی کہہ سکتے تھے کہ "میرے بعد علی خلیفہ بلا فصل ہیں”، لیکن اس سلسلے میں کوئی ممانعت سامنے نہیں آئی۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی فضیلت
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا اعتراف کیا ہے اور ان کی خلافت کو برحق تسلیم کیا۔ انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے آخری وقت میں ان کے پاس جا کر کہا:
"دَخَلْتُ عَلٰی عُمَرَ حِینَ طُعِنَ فَقُلْتُ : أَبْشِرْ بِالْجَنَّۃِ یَا أَمِیرَ الْمُوْمِنِینَ، أَسْلَمْتَ حِینَ کَفَرَ النَّاسُ، وَجَاہَدْتَّ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ خَذَلَہُ النَّاسُ، وَقُبِضَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ عَنْکَ رَاضٍ، وَلَمْ یَخْتَلِفْ فِي خِلَافَتِکَ اثْنَانِ، وَقُتِلْتَ شَہِیدًا…”
"سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے تو میں ان کے پاس آیا۔ میں نے کہا: ‘امیر المومنین! جنت کی خوش خبری ہو! جب لوگوں نے اسلام کا انکار کیا، تو آپ نے اسے قبول کیا۔ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس وقت ساتھ دیا جب لوگوں نے انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے رخصت ہوتے وقت آپ سے راضی تھے۔ آپ کی خلافت میں دو لوگوں نے بھی اختلاف نہیں کیا اور اب آپ شہادت کے مرتبے پر فائز ہو رہے ہیں۔'”
(المستدرک للحاکم: 3/92، وصحّحہ ابن حبّان: 6891، وسندہ صحیح)
نیز دیکھیں: (صحیح البخاری: 3692)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ وصی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں؟
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ دعویٰ کہ وہ وصی رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے، یا یہ کہ وہ خود کو خلافت کے لیے زیادہ حق دار سمجھتے تھے، درست نہیں ہے۔ احادیث اور روایات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کبھی خود کو خلافت کا بلا فصل حق دار یا وصی رسول نہیں سمجھا۔ بلکہ اس کے برعکس روایات میں یہ بات ملتی ہے کہ انہوں نے خلافت کے مطالبے سے اجتناب کیا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی موقف کی وضاحت
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت:
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے دوران ان کے پاس سے نکلے۔ صحابہ نے ان سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کیسی ہے۔ انہوں نے کہا کہ الحمدللہ بہتر ہیں۔ اس پر سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا:
"اللہ کی قسم! تین دن بعد آپ محکوم ہو جائیں گے۔ اللہ کی قسم! میں دیکھ رہا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مرض سے جانبر نہیں ہوں گے۔ ہمیں ان سے خلافت کے بارے میں پوچھنا چاہیے، اگر یہ ہمارے لیے ہے، تو ہمیں معلوم ہو جائے، اور اگر کسی اور کے لیے ہے تو ہمیں وصیت کر دی جائے۔”
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:
"اللہ کی قسم! اگر ہم نے ان سے اس وقت مطالبہ کیا اور انہوں نے انکار کر دیا، تو لوگ ہمیں خلافت نہیں دیں گے۔ میں ہرگز مطالبہ نہیں کروں گا۔”
(صحیح البخاری: 4447)
سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت:
سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی خاص تحریر ہے؟ انہوں نے جواب دیا:
"نہیں، صرف کتاب اللہ، یا وہ فہم جو کسی مسلمان کو دیا گیا ہو، یا اس صحیفہ میں موجود کچھ مسائل ہیں۔”
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ اس صحیفہ میں دیت، قیدیوں کی آزادی، اور یہ حکم ہے کہ مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔
(صحیح البخاری: 111)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا تبصرہ
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م: 728ھ) نے اس بات کو رد کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت لکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے لکھا:
"جو یہ سمجھتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خلافت علی رضی اللہ عنہ کے لیے تحریر لکھنا چاہتے تھے، وہ سنی اور شیعہ علما کے ہاں بالاتفاق گمراہ ہے۔ اہل سنت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تفضیل اور تقدیم پر متفق ہیں۔”
(منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ والقدریۃ: 3/135)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تحریر کا ارادہ ترک کرنا
یہ بات بھی ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریر لکھنے کا ارادہ اپنے اختیار سے ترک کیا تھا، نہ کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے کہنے پر۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کفار کی طرف سے تبلیغ دین میں رکاوٹوں کے باوجود تبلیغ جاری رکھتے تھے، تو صحابہ کی طرف سے کوئی مزاحمت انہیں کیسے روک سکتی تھی؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو ہمیشہ آپ کے معاون و مددگار رہے۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول "حسبنا کتاب اللہ”
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول "حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ” کا مطلب یہ تھا کہ کتاب اللہ کا حکم ہمارے لیے کافی ہے۔ قرآن کے ساتھ حدیث کی بھی التزامی دلالت موجود ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت دیکھ کر ترس آیا اور انہیں خیال آیا کہ دین کی تکمیل ہو چکی ہے، جیسا کہ قرآن میں ہے: "الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ” (آج ہم نے تمہارا دین مکمل کر دیا)۔ لہٰذا، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مزید تکلیف دینے سے بچانے کی کوشش کی، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے یہ بات کہی۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی رائے
حافظ ذہبی رحمہ اللہ (673-748ھ) لکھتے ہیں:
"سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید تکلیف کو دیکھتے ہوئے صرف تخفیف کا ارادہ کیا تھا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ دین مکمل ہو چکا ہے۔ اگر یہ تحریر واجب ہوتی، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لازماً اسے لکھ دیتے۔”
(تاریخ الإسلام: 1/813، ت بشار، سیر أعلام النبلاء: 2/338)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا عہدِ ثلاثہ میں دعویٰ خلافت
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہم کے دورِ خلافت میں کبھی بھی خلافت کا دعویٰ نہیں کیا۔ بلکہ وہ تینوں خلفاء کے ہاتھ پر بیعت کر چکے تھے۔ اس کے باوجود بعض لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان ادوار میں خلافت کا دعویٰ کیا تھا، لیکن اس کا کوئی مستند اور صحیح ثبوت نہیں ملتا۔
① پہلی ضعیف روایت:
کہا جاتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بیعت کے لیے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا اور ان سے کہا گیا کہ بیعت کریں۔ اس موقع پر انہوں نے کہا:
"أَنَا أَحَقُّ بِھٰذَا الْـأَمْرِ مِنْکُمْ، لَا أُبَایِعُکُمْ، وَأَنْتُمْ أَوْلٰی بِالْبَیْعَۃِ لِي، أَخَذْتُمْ ھٰذَا الْـأَمْرَ مِنَ الْـأَنْصَارِ”
"میں آپ سے زیادہ خلافت کا حقدار ہوں، میں آپ کی بیعت نہیں کرتا، بلکہ آپ کو میری بیعت کرنا چاہیے۔ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی قرابت کا حوالہ دے کر انصار سے خلافت حاصل کر لی، اور اب آپ ہم اہل بیت سے خلافت لینا چاہتے ہیں۔”
(کتاب الإمامۃ والسیاسۃ لابن قتیبۃ، ص : ١٢، مطبوعہ مصر)
تبصرہ:
یہ روایت غیر معتبر اور بے سند ہے۔ یہ کتاب "الإمامۃ والسیاسۃ” سے منسوب ہے، جو ابن قتیبہ کی طرف منسوب کی گئی ہے، لیکن اس کی اسناد موجود نہیں ہیں۔ اس قسم کی روایات کے بارے میں علماء کا متفقہ موقف ہے کہ یہ ضعیف اور موضوع ہیں۔ اس کے باوجود بعض لوگ اس روایت کو مستند مان کر پیش کرتے ہیں، حالانکہ اس کی کوئی ٹھوس دلیل موجود نہیں ہے۔ اس روایت کو شیعہ و دیگر گروہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خلافت کی نسبت اہل بیت کی طرف ثابت کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، لیکن اس کے بارے میں جو شواہد ملتے ہیں، وہ اس روایت کی کمزوری کو واضح کرتے ہیں۔
② دوسری ضعیف روایت:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر کہا:
"کُنَّا نَرٰی أَنَّ لَنَا فِي ہٰذَا الْـأَمْرِ حَقًّا، فَاسْتَبَدَدْتُّمْ بِہٖ عَلَیْنَا.”
"ہم سمجھتے تھے کہ خلافت میں ہمارا حق ہے، لیکن آپ لوگوں نے خود ہی اس پر قبضہ کر لیا۔”
پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی قرابت کا ذکر کیا۔ یہ سن کر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے۔
(تاریخ الطبري: 3/202، طبع مصر)
تبصرہ:
یہ روایت ضعیف ہے اور اس کی سند ناقابل اعتماد ہے، کیونکہ:
- امام عبدالرزاق بن ہمام ایک مدلس راوی ہیں، اور انہوں نے اس روایت میں سماع کی صراحت نہیں کی۔
- امام زہری بھی مدلس ہیں اور یہاں سماع کی صراحت نہیں کرتے۔ حدیث کے اصول کے مطابق، اگر ثقہ مدلس راوی سماع کی صراحت نہ کرے تو اس کی روایت کو ضعیف شمار کیا جاتا ہے، سوائے صحیح بخاری و مسلم کے۔ اس لیے یہ روایت کمزور ہے۔
- یہ روایت ان صحیح روایات کے خلاف بھی ہے جن میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا ذکر ہے۔
③ تیسری ضعیف روایت:
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
عامر شعبی رحمہ اللہ کے مطابق جب سیدنا طلحہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہما نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا، تو ام فضل بنت حارث نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اس کی اطلاع دی۔ اس پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"تعجب ہے طلحہ و زبیر پر، وہ کس طرح میرے مخالف ہوگئے؟ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس بلا لیا، تو ہم نے کہا تھا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت اور ولی ہیں۔ آپ کی خلافت کے سلسلے میں کوئی شخص ہمارے ساتھ نزاع اور اختلاف نہیں کرے گا۔ ہماری قوم نے انکار کیا اور ہمارے غیر (سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ) کو خلیفہ بنا لیا۔ اللہ کی قسم! اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ مسلمانوں میں تفرقہ پڑ جائے گا، کفر لوٹ آئے گا اور دین اسلام خراب و برباد ہو جائے گا، تو ہم اس امر (خلافتِ ابوبکر) کو بدل کر رکھ دیتے۔ ہم نے مصلحت کے پیش نظر بعض مصائب و آلام پر صبر کیا۔”
(الاستیعاب لابن عبد البر، مطبوعہ بر حاشیہ الاصابۃ: 1/502)
تبصرہ:
یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے اور اسلام و مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی نیت سے گھڑی گئی ہے۔ اس روایت کی کوئی معتبر سند موجود نہیں ہے، اور امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے اسے بغیر سند کے ذکر کیا ہے۔ اس میں موجود راویان کا حال محدثین کے نزدیک ناقابل اعتماد ہے۔
راویوں کی حالت
لوط بن یحییٰ ابو مخنف کوفی:
ابو مخنف ایک معروف رافضی شیعہ راوی ہے، جو بالاجماع ضعیف مانا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں ائمہ حدیث نے شدید تنقید کی ہے:
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"لَیْسَ بِشَيْءٍ” (یہ کچھ بھی نہیں ہے)۔
(تاریخ یحییٰ بن معین بروایۃ الدُّوري: 1358)
نیز فرماتے ہیں:
"لَیْسَ بِثِقَۃٍ” (یہ معتبر نہیں ہے)۔
(تاریخ یحییٰ بن معین بروایۃ الدُّوري: 1780)
امام ابن عدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"شِیْعِيٌّ مُّحْتَرَقٌ، صَاحِبُ أَخْبَارِھِمْ” (یہ کٹر شیعہ تھا اور ان کی جھوٹی خبروں کا راوی تھا)۔
(الکامل فی ضعفاء الرجال: 6/93)
امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے اسے "متروک الحدیث” قرار دیا ہے۔
(الجرح والتعدیل: 7/182)
امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"إِخْبَارِيٌّ، ضَعِیفٌ” (یہ جھوٹی روایات بیان کرنے والا اور ضعیف ہے)۔
(الضعفاء والمتروکون: 669)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے کہا:
"وَکَانَ شِیعِیًّا، وَھُوَ ضَعِیفٌ عِنْدَ الْـأَئِمَّۃِ” (یہ شیعہ تھا اور ائمہ کے نزدیک ضعیف تھا)۔
(البدایۃ والنہایۃ: 8/220)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا:
"کَذَّابٌ” (یہ جھوٹا ہے)۔
(تاریخ الاسلام: 2/188)
نیز فرمایا:
"إِخْبَارِيٌّ، تَالِفٌ، لاَ یُوثَقُ بِہٖ” (یہ جھوٹی روایات بیان کرنے والا ہے، اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا)۔
(میزان الاعتدال: 3/419)
جابر جعفی:
یہ بھی ایک کذاب، متروک، اور رافضی راوی ہے، جسے محدثین نے ناقابل اعتماد قرار دیا ہے۔
اہل سنت کے اجماعی موقف کے خلاف
اس روایت کو اہل سنت کے اجماعی موقف کے خلاف استعمال کرنا انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے، کیونکہ اس کے راوی جھوٹے اور ناقابل اعتماد ہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں جو باتیں صحیح احادیث سے ثابت ہیں، وہ اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خلافت کے لیے بیعت کی اور امت کی وحدت کو ترجیح دی۔
④ چوتھی ضعیف روایت:
سیدنا ابوطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
"میں شوریٰ کے دن دروازے پر کھڑا تھا، اور اہل شوریٰ کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا: ‘لوگوں نے ابوبکر کی بیعت کی، حالانکہ اللہ کی قسم! ہم اس سے زیادہ خلافت کے حقدار تھے۔ لیکن میں نے اس اندیشے کے تحت سکوت اختیار کیا کہ (اگر میں نے مخالفت کی) تو لوگ کفر کی طرف پلٹ کر ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے نہ لگ جائیں۔'”
(الضعفاء الکبیر للعقیلی: 2/211)
تبصرہ:
یہ روایت انتہائی ضعیف ہے اور اس کی سند کے حوالے سے کئی مسائل ہیں۔ امام عقیلی رحمہ اللہ نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد خود لکھا:
"وَہٰذَا الْحَدِیثُ لَا أصْلَ لَہ، عَنْ عَلِيٍّ.” "اس حدیث کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کوئی ثبوت نہیں ہے۔”
(الضعفاء للعقیلی: 2/212)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا موقف:
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس روایت کو "منکر” قرار دیا، یعنی یہ روایت قابل قبول نہیں ہے:
"وَھُوَ خَبَرٌ مُّنْکَرٌ.” "یہ خبر منکر ہے۔”
(میزان الاعتدال: 1/441)
مزید لکھتے ہیں:
"فَھٰذَا غَیْرُ صَحِیْحٍ وَّحَاشَا أَمِیْرُ الْمُؤْمِنِینَ مِنْ قَوْلِ ھٰذَا.” "یہ روایت صحیح نہیں ہے، اور امیر المومنین (علی رضی اللہ عنہ) ایسی بات ہرگز نہیں کر سکتے۔”
(میزان الاعتدال: 1/442)
روایت کی کمزوری کی وجوہات
راوی حارث بن محمد:
اس روایت کا راوی حارث بن محمد ہے، جسے امام ابن عدی (الکامل: 1/194) اور امام عقیلی (الضعفاء: 1/212) نے "مجہول” کہا ہے، یعنی یہ راوی نامعلوم حیثیت رکھتا ہے۔ اس وجہ سے اس کی بیان کردہ روایات کو معتبر نہیں مانا جا سکتا۔
امام ابن حبان نے اگرچہ اسے الثقات میں شامل کیا ہے، مگر اس سے روایت کی کمزوری ختم نہیں ہوتی، کیونکہ دیگر معتبر محدثین نے اسے ناقابل اعتماد قرار دیا ہے۔
رجل مبہم:
اس روایت میں ایک رجل مبہم یعنی نامعلوم شخص کا ذکر ہے، جو کہ روایت کو مزید کمزور بنا دیتا ہے۔ جب روایت میں کوئی راوی مبہم ہو، تو روایت کی قبولیت ختم ہو جاتی ہے کیونکہ اس شخص کی وثاقت کا علم نہیں ہوتا۔
محمد بن حمید رازی:
اس روایت کی ایک اور سند میں محمد بن حمید رازی کا ذکر ہے، جو کہ ضعیف راوی ہیں۔ انہوں نے حارث بن محمد سے سیدنا ابوطفیل رضی اللہ عنہ سے سماع کی تصریح نہیں کی، جس سے سند میں مزید کمزوری پیدا ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں، المزید فی متصل الاسانید کی صورت بنتی ہے، جس سے روایت کا ضعف مزید واضح ہو جاتا ہے۔
⑤ پانچویں روایت:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کلمہ شہادت پڑھا اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہوکر فرمایا:
"ہم آپ کی فضیلت اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ مرتبے کو پہچانتے ہیں اور اس خیر پر حسد نہیں کرتے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی ہے۔ لیکن آپ نے خلافت کا معاملہ خود ہی طے کیا (یعنی ہم سے مشورہ نہیں کیا)، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت کی بنا پر ہم سمجھتے تھے کہ مشورے میں ہمارا بھی حق ہے۔”
سیدنا علی رضی اللہ عنہ مسلسل گفتگو کرتے رہے، یہاں تک کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
(صحیح البخاری: 4240، 4241، صحیح مسلم: 1759)
تبصرہ:
یہ حدیث صحیح ہے، اور یہ واضح کرتی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت کو تسلیم کیا۔ اس حدیث میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ان کی امارت کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے چیلنج نہیں کیا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ "ہم سے مشورہ کیوں نہیں کیا گیا؟” دراصل ان کی ایک شکایت تھی، جو فطری ہے، کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت میں سے تھے۔ یہ شکایت خلافت پر کوئی اعتراض نہیں تھا، بلکہ خلافت کے انتخاب کے طریقہ کار پر ان کا موقف تھا۔
اس حدیث کے سیاق و سباق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کو اللہ کی طرف سے ملنے والا فضل سمجھتے ہوئے تسلیم کیا تھا، اور ان کے خلافت کے حق کو تسلیم کیا تھا۔
غلط فہمیاں اور ان کا جواب:
بعض لوگوں نے اس حدیث کو بنیاد بنا کر یہ دعویٰ کیا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنی خلافت کا حق دار سمجھتے تھے اور ان کی حق تلفی کی گئی تھی۔ تاہم، اس حدیث میں یہ واضح نہیں ہوتا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حق خلافت کو چیلنج کیا ہو۔ بلکہ یہ صرف اس بات کا اظہار ہے کہ انہیں مشورے میں شامل ہونا چاہیے تھا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس انداز میں بات کرنا ان کے بیچ کے تعلقات اور باہمی احترام کو ظاہر کرتا ہے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بات کو سنجیدگی سے سنا اور اس پر رنج کا اظہار بھی کیا، جس کا ذکر حدیث میں آنسوؤں کے بہنے سے ہوتا ہے۔
حافظ احمد بن عمر بن ابراہیم قرطبی رحمہ اللہ کا قول:
حافظ احمد بن عمر بن ابراہیم قرطبی رحمہ اللہ کا قول اس حوالے سے مزید وضاحت فراہم کرتا ہے:
"شیعہ اور رافضیوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانے کی جھوٹی احادیث گھڑ لیں اور دعویٰ کیا کہ یہ تواتر کو پہنچ گئی ہیں، حالانکہ یہ سب جھوٹ ہے۔ اگر یہ باتیں واقعی صحیح ہوتیں، تو سقیفہ کے دن صحابہ ان کا ذکر کرتے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان کو اپنے حق میں دلیل کے طور پر پیش کرتے۔ اگر ایسا ہوتا تو خاموش رہنا جائز نہ ہوتا، کیونکہ یہ حق اللہ کا، رسول کا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا اور تمام مسلمانوں کا تھا۔”
(المفہم لما أشکل من تلخیص صحیح مسلم: 4/557)
نہج البلاغہ کی گواہی:
نہج البلاغہ میں بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خلافت کے انتخاب کے طریقہ کار کے بارے میں کہا:
"میری بیعت ان لوگوں نے کی ہے جنہوں نے سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر بن خطاب، اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہم کی بیعت کی تھی۔ اگر مہاجرین اور انصار کسی شخص کو امام منتخب کریں، تو اللہ کی رضا مندی اس میں شامل ہوتی ہے۔ اگر کوئی اس کے خلاف بغاوت کرتا ہے، تو اسے واپس پلٹایا جائے گا۔”
خلاصہ:
- اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کو تسلیم کیا اور ان کی فضیلت کا اعتراف کیا۔
- ان کی شکایت خلافت کے حق کی نہیں بلکہ مشورے کے حق کی تھی، جو کہ قرابت دار ہونے کی وجہ سے فطری تھی۔
- سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس انداز میں بات کرنا ان کے باہمی احترام اور محبت کا مظہر ہے۔
- سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے مسلمانوں کے اتحاد کو ترجیح دی، جس کا مقصد امت میں تفرقہ اور انتشار کو روکنا تھا۔
- شیعہ و رافضی روایات کے برخلاف، اہل سنت کا موقف واضح ہے کہ خلافتِ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور دیگر خلفائے راشدین کا انتخاب اجماعی فیصلہ تھا، اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اسے تسلیم کیا۔