حدیث قبولیت کے اصول قرآن و سنت کی روشنی میں

حدیث قبول کرنے کے بنیادی اصول

حدیث کی قبولیت کوئی آسان اور سادہ عمل نہیں تھا کہ جو کوئی بھی بات کہہ دے اسے بغیر تحقیق کے قبول کر لیا جائے۔ بلکہ اس کے لیے مضبوط اصول اور قواعد وضع کیے گئے تھے۔ ان اصولوں کا مقصد روایت کو جھوٹ، مبالغہ یا کسی قسم کی غلطی سے محفوظ رکھنا تھا۔ ان قواعد کے ذریعے احادیث پر تنقید کی جاتی، ان کا جائزہ لیا جاتا، اور قبولیت یا رد کا فیصلہ کیا جاتا تھا۔

فنِ روایت: ایک منفرد اسلامی علم

فنِ روایت
(Science of Transmission)
اسلام کا ایک ایسا منفرد علم ہے جس کی نظیر کسی بھی قدیم تہذیب میں نہیں ملتی۔ محدثین نے حدیث کو ترتیب دینے کے لیے انتہائی باریک بینی سے کام کیا۔ روایت قبول کرنے کے لیے درج ذیل اصولوں پر عمل کیا جاتا:

  • راوی کا مضبوط حافظہ: راوی کو ایسی یادداشت کا حامل ہونا ضروری تھا کہ وہ بات کو مکمل اور صحیح انداز میں یاد رکھ سکے۔
  • دیانت داری: راوی سچا، دیانت دار اور جھوٹ بولنے سے مکمل طور پر پاک ہونا چاہیے۔
  • معروف شخصیت: راوی کا جانا پہچانا اور معتبر ہونا ضروری تھا؛ مجہول یا غیر معروف راوی کی روایت کو قبول نہیں کیا جاتا تھا۔
  • منکر روایت سے اجتناب: اگر کسی راوی کی روایت کو دوسرے ثقہ راوی رد کریں، تو اس کی روایت کو "منکر” سمجھا جاتا تھا۔
  • صرف معتبر لوگوں سے نقل: صحیح اور مضبوط روایات انہی سے قبول کی جاتی تھیں جو قابلِ اعتماد ہوں۔

قواعد میں نرمی اور اس کا تدارک

بعض اوقات محدثین نے کمزور روایات کو بھی قبول کیا، مگر ان کی کمزوریوں کو واضح کرتے ہوئے انہیں پیش کیا۔ یہ اس لیے کیا گیا تاکہ مستقبل کے محققین ان روایات کی مزید تحقیق کریں اور کسی نئی شہادت یا دلیل کے ذریعے ان کا مقام واضح ہو سکے۔

بات کے لائق قبول ہونے کے عقلی تقاضے

عقل و فطرت پر مبنی اصول

اسلام دینِ فطرت ہے، اور حدیث کی قبولیت کے اصول بھی فطری تقاضوں کے عین مطابق ہیں۔ ان میں دو بنیادی اصول ہیں:

  • قوی حافظہ: بیان کرنے والا شخص بات کو سننے، یاد رکھنے اور آگے نقل کرنے میں مضبوط ہو۔
  • دیانت و امانت: راوی جھوٹا نہ ہو، بلکہ سچائی اور دیانت داری پر کاربند ہو۔

راوی کے اوصاف

  • حفظ و ضبط: راوی کا حافظہ کمزور نہ ہو۔
  • معروف ہونا: وہ پہچانا ہوا ہو، نہ کہ مجہول۔
  • دیانت داری: وہ جھوٹ بولنے والا نہ ہو۔
  • ثقہ افراد سے روایت: وہ ایسی مجلسوں میں نہ بیٹھتا ہو جہاں غیر معتبر لوگ موجود ہوں۔

قرآن مجید میں اعتماد کا معیار

قرآنی رہنمائی: جبرائیل علیہ السلام کی صفات

قرآن میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہوا:

إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ مُطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ
"بے شک یہ (قرآن) ایک معزز رسول کا کلام ہے، جو قوت والا ہے، عرش والے (اللہ) کے نزدیک بلند مرتبہ ہے، وہاں (فرشتوں میں) اس کی اطاعت کی جاتی ہے اور وہ امانت دار ہے۔”
(التکویر: 19-21)

  • قوی اور مضبوط: یادداشت اور بیان کی قوت میں کامل۔
  • امانت دار: اللہ کے پیغام کو صحیح طریقے سے پہنچانے والے۔
  • معزز: اللہ کے ہاں بلند مقام رکھنے والے۔

بات کی قبولیت کا قرآنی معیار

قرآن میں فرمایا گیا:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا
"اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو۔”
(الحجرات: 6)

  • فاسق کی خبر از خود حجت نہیں۔
  • لیکن فاسق کی خبر کلی طور پر رد بھی نہیں؛ بلکہ تحقیق لازم ہے۔
  • خبر واحد قابل قبول ہو سکتی ہے، بشرطیکہ راوی فاسق نہ ہو۔

حدیث میں قرآنی استدلال

حضرت امام مسلمؒ فرماتے ہیں کہ:
"فاسق کی خبر از خود ناقابلِ قبول ہے، اور قرآن کریم ہمیں تحقیق کا حکم دیتا ہے۔”
(مقدمہ صحیح مسلم: 1/6)

خبر واحد کی قبولیت کا موقف

نبوی عمل

حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک ایک فرد کو احکامِ شریعت پہنچانے کے لیے بھیجا، جیسے:

  • قبلہ کی تبدیلی کی خبر: صحابہ کرام نے صرف ایک شخص کی خبر پر اپنا قبلہ تبدیل کیا۔
    (صحیح بخاری: 6710)
  • اہلِ نجران کے لیے ابوعبیدہؓ کی تقرری: آپؐ نے انہیں "امین” کہہ کر بھیجا۔
    (صحیح بخاری: 6713)

صحابہ کرام کا طرزِ عمل

حضرت عمرؓ اور دیگر صحابہؓ ایک دوسرے سے احادیث سن کر قبول کرتے تھے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ثقہ اور امین راوی کی خبر معاشرے میں مکمل طور پر قابلِ اعتماد سمجھی جاتی تھی۔

روایت بالمعنی کی اجازت

قرآنی مثال

قرآن کریم میں ایک واقعہ کو مختلف الفاظ میں بیان کیا گیا، جیسے حضرت آدمؑ کو زمین پر بھیجنے کا ذکر:

  • قُلْنَا اهْبِطُوا
    "ہم نے کہا: اتر جاؤ۔”
    (البقرۃ: 38)
  • قَالَ اهْبِطَا
    "فرمایا: تم دونوں اتر جاؤ۔”
    (طٰہٰ: 123)

یہ ظاہر کرتا ہے کہ روایت بالمعنی (مفہوم کے مطابق روایت کرنا) جائز ہے۔

روایت قبولیت کا اصل اصول: اعتماد

اعتماد کا معیار

قبولیتِ روایت میں اصل الاصول ہمیشہ اعتماد رہا ہے:

  • اگر راوی قابلِ اعتماد ہو تو خبر واحد بھی حجت ہے۔
  • روایت بالمعنی بھی قابل قبول ہے، بشرطیکہ اعتماد متاثر نہ ہو۔
  • حتیٰ کہ بعض اوقات مرسل
    (غیر متصل)
    روایات کو بھی قبول کیا گیا، اگر نچلے درجے کے راوی پر اعتماد کیا جا سکتا تھا۔

حدیث کی تدوین اور اصولی کتابیں

تدوین حدیث کے مراحل

  • ابتدائی کام: امام احمد بن حنبلؒ (کتاب العلل ومعرفۃ الحدیث)، امام مسلمؒ (مقدمہ صحیح مسلم)
  • متقدمین کی کوششیں: امام بخاریؒ، دارقطنیؒ، اور دیگر محدثین نے عظیم کام کیا۔
  • متونِ حدیث: "مقدمہ ابنِ صلاح” اور "شرح نخبۃ الفکر” اصولِ حدیث کی نمایاں کتابیں ہیں۔

مشہور اصولی کتب

  • مقدمہ ابنِ صلاح (643ھ)
  • شرح نخبۃ الفکر (ابنِ حجر عسقلانیؒ)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے