سوال:
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مذکور درج ذیل حدیث کا صحیح مفہوم کیا ہے؟
"خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ”
(بخاری، کتاب الاستئذان، باب 1)
"خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ”
(مسلم، کتاب الجنة وصفة نعيمها، قدیمی کتب خانہ، ج2، ص380)
(ناصر رشید، راولپنڈی)
الجواب
الحمد للہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث کے الفاظ:
📖 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إِذَا قَاتَلَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيَجْتَنِبْ الْوَجْهَ، فَإِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ”
(صحیح مسلم، ج2، ص327، حدیث: 2612)
ترجمہ:
"جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے لڑے تو اس کے چہرے پر نہ مارے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اس (شخص) کی صورت پر پیدا کیا ہے۔”
حدیث کا صحیح مفہوم
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے وضاحت کی ہے کہ "عَلَى صُورَتِهِ” کا مطلب ہے کہ آدم علیہ السلام کو اسی شخص کی صورت پر پیدا کیا گیا ہے، جس پر مار پڑ رہی ہے۔
(کتاب التوحید، ص 37)
یہاں "صورت” سے مراد اللہ کی شکل نہیں، بلکہ انسان کی وہ شکل ہے جو اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو عطا کی۔
بعض لوگ اس حدیث کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کے لیے کسی "صورت” کا عقیدہ رکھتے ہیں، جو درست نہیں۔ کیونکہ:
اللہ تعالیٰ کی ذات بے مثل ہے، وہ مخلوق کی مشابہت سے پاک ہے۔
📖 قرآن میں ہے:
"لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ”
(الشوریٰ: 11)
"اس جیسی کوئی چیز نہیں، اور وہی سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔”
حدیث کے سیاق و سباق سے واضح ہوتا ہے کہ "صورت” سے مراد انسان کا چہرہ ہے، جسے مارنے سے منع کیا گیا ہے۔
ضعیف روایت: "خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَةِ الرَّحْمٰنِ”
بعض لوگ "أنَّ الله خلق آدم على صورة الرحمن”
(اللہ تعالیٰ نے آدم کو الرحمٰن کی صورت پر پیدا کیا)
والی روایت پیش کرتے ہیں، جو حدیث کے اصولوں کے مطابق ضعیف ہے۔
اس روایت کی سند میں دو راوی (الاعمش اور حبیب بن ابی ثابت) مدلس ہیں، اور انھوں نے "عن” کے ساتھ روایت کیا ہے، جو اصول حدیث کے مطابق ضعیف سمجھی جاتی ہے۔
📖 یہ روایت درج ذیل کتب میں موجود ہے:
◈ کتاب التوحید لابن خزیمہ، ص 38
◈ المعجم الکبیر للطبرانی، ج12، ص430، حدیث 13580
بعض حنبلی علماء نے اس حدیث کو صحیح قرار دینے کے لیے کتابیں بھی لکھی ہیں، لیکن وہ راویوں کے سماع کو ثابت نہیں کر سکے، اور نہ ہی کوئی مستند متابعت (مؤید روایت) پیش کر سکے ہیں، اس لیے یہ حدیث ضعیف ہی رہے گی۔
نتیجہ
"خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ”
کا درست مفہوم یہ ہے کہ آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی ایک بہترین صورت پر پیدا کیا، جو بعد میں آنے والے انسانوں کی صورت سے مشابہت رکھتی ہے۔
اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کے لیے کسی خاص "صورت” کا تصور لینا غلط ہے، کیونکہ یہ اللہ کی صفات سے متعلق قرآن و حدیث کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔
📖 وصلی اللہ علی نبینا محمد وآله وصحبه اجمعین۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب۔