حج کی فرضیت: تاخیر یا فوراً ادائیگی
فی الحقیقت یہ مسئلہ اصولی بحث سے تعلق رکھتا ہے کہ کیا امر فوری طور پر عمل کا تقاضا کرتا ہے یا تاخیر سے ، اس میں علمائے اصولیین نے طویل اختلاف کیا ہے جیسا کہ امام شوکانیؒ نے تفصیلا اسے نقل فرمایا ہے۔
[إرشاد الفحول: ص/ 99 – 101]
تاہم اس میں راجح بات ان شاء الله یہی ہے کہ امر فوری طور پر عمل کا تقاضا کرتا ہے جیسا کہ امام ابن حزمؒ وغیرہ کا بھی یہی
مؤقف ہے اور اس کے دلائل میں مندرجہ ذیل آیات شامل ہیں:
① فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ [البقرة: 148]
”نیکیوں کی طرف دوڑو ۔ “
② وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمُ [آل عمران: 133]
”اپنے رب کی مغفرت کی طرف بھا گو ۔“
علاوہ ازیں مندرجہ ذیل احادیث بھی اس بات کی تائید کرتی ہیں کہ استطاعت و وسعت کے بعد فوری طور پر حج کر لینا چاہیے:
➊ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تعجلوا إلى الحج فإن أحدكم ما يدرى ما يعرض له
”حج کی طرف جلدی کرو کیونکہ یقینا تم میں سے کسی کو اُس کا علم نہیں جو اسے پیش آنے والا ہے۔“
[أحمد: 314/1]
➋ ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان مروی ہے کہ :
من أراد الحج فليتعجل فإنه قد يمرض المريض وتضل الراحلة وتعرض الحاجة
”جوحج کرنا چاہتا ہے وہ جلدی کرے کیونکہ بے شک مرض لاحق ہو سکتا ہے ، سواری گم ہو سکتی ہے اور کوئی حاجت پیش آ سکتی ہے۔“
[حسن: إرواء الغليل: 990 ، أحمد: 214/1 ، ابن ماجة: 2883 ، كتاب المناسك: باب الخروج إلى الحج]
➌ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارادہ ظاہر کیا کہ میں ان شہروں کی طرف کچھ آدمی روانہ کرنا چاہتا ہوں جو ہر ایسے شخص کو دیکھ کر اس پر جزیہ مقرر کر دیں جس نے طاقت کے باوجود حج نہیں کیونکہ ما هم بمسلمين ”وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں۔ “ یہ کلمات آپ رضی اللہ عنہ نے دو مرتبہ دہرائے ۔
[سعيد بن منصور كما فى التلخيص: 426/2 ، بيهقى: 334/4]
اس مسئلے میں فقہا نے اختلاف کیا ہے۔
(احمدؒ ، مالکؒ ، ابو حنیفہؒ) جس کے پاس استطاعت ہو اسے فوری طور پر حج کرنا چاہیے۔
(شافعیؒ ، ابو یوسفؒ ، محمدؒ) تاخیر سے بھی حج کر سکتا ہے۔
[نيل الأوطار: 280/3 ، المهذب: 204/1 ، نهاية المحتاج: 235/3 ، تحفة الفقهاء: 578/1 ، فتح القدير: 323/2]
جو لوگ تاخیر سے بھی حج کو جائز قرار دیتے ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ پانچ یا چھ ہجری میں حج فرض ہو جانے کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ہجری کو حج کیا ۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ فرضیتِ حج کی تاریخ میں اختلاف ہے اور بعض نے نو یا دس ہجری کا بھی کہا ہے جیسا کہ امام ابن قیمؒ وغیرہ اس لیے بطور دلیل یہ بات پیش کرنا درست نہیں۔