حجِ تمتع، قران یا افراد؟ افضلیت پر ائمہ کا اختلاف
اس مسئلے میں علماء نے بہت اختلاف کیا ہے۔
(ابو حنیفہؒ ، اسحاقؒ ) حجِ قران افضل ہے۔ صحابہ و تابعین کی ایک جماعت ، امام نوویؒ ، امام ابن منذرؒ ، امام مزنیؒ ، اور امام مروزیؒ کا بھی یہی موقف ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس قسم کو پسند فرمایا ، اس میں مشقت زیادہ ہے اور ایک روایت میں ہے کہ دخلت العمرة فى الحج إلى يوم القيمة ”روز قيامت تک عمرہ حج میں داخل ہو گیا ہے ۔“
[أحمد: 175/4 ، ابن ماجة: 2977]
(امیر صنعانیؒ ) اسی کو ترجیح دیتے ہیں۔
[سبل السلام: 941/2]
(مالکؒ ، احمدؒ ) حجِ تمتع افضل ہے۔ صحابہ و تابعین کی ایک جماعت اس کی بھی قائل ہے۔
[فتح البارى: 216/4 ، المغنى: 82/5 ، الأم: 312/2 ، الحاوى: 43/4 ، بدائع الصنائع: 168/2 ، المبسوط: 25/4 ، الكافي: ص/138]
ان کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:
لو استقبلت من أمرى ما استدبرت ما سقت الهدى ولجعلتها عمرة
”اگر مجھے اپنے معاملے کا پہلے علم ہوتا کہ جس کا مجھے بعد میں علم ہوا تو میں قربانی لے کر نہ چلتا بلکہ اسے عمرہ بنا لیتا۔“
[أحمد: 148/3 ، طبراني أوسط: 1850 – مجمع البحرين]
یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف افضل عمل کی ہی تمنا کر سکتے تھے نیز اس میں سہولت بھی ہے۔
(شوکانیؒ ، صدیق حسن خانؒ) حجِ تمتع افضل ہے۔
[نيل الأوطار: 317/3 ، الروضة الندية: 594/1]
(ابن قدامہؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[كما فى تحفة الأحوذي: 646/3]
(البانیؒ) یہی موقف رکھتے ہیں ۔
[التعليقات الرضية على الروضة الندية: 64/2]
بعض علماء کے نزدیک حجِ مفرد تمتع اور قران دونوں سے افضل ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ خلفائے راشدین نے حجِ مفرد کیا اور پھر اس پر مداومت اختیار کی۔ لیکن یاد رہے کہ جس روایت میں یہ ذکر ہے وہ قابل حجت نہیں ۔
[ضعيف: ضعيف ترمذي: 826 ، كتاب الحج: باب ما جاء فى إفراد الحج ، ترمذى: 820]