حاملہ عورت سے جماع کرنا
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال :

کیا حاملہ بیوی سے جماع کرنا جائز ہے ؟ کیا کتاب و سنت میں اس کی حرمت یا حلت کے بارے میں کوئی نص موجود ہے ؟

جواب :

آدمی کے لئے حاملہ عورت سے جماع کرنا جائز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ [2-البقرة:223]
”تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں۔۔۔ “
مزید برآں ارشاد باری ہے :
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ٭ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ [23-المؤمنون:5]
”اور وہ لوگ جو اپنی شرمگاہوں کی نگہداشت رکھنے والے ہیں، ہاں البتہ اپنی بیویوں اور لونڈیوں سے نہیں کہ اس صورت میں ان پر کوئی الزام نہیں ہے۔ (یعنی وہ ان سے جماع کر سکتے ہیں)“
اللہ تعالیٰ نے لفظ عَلَى أَزْوَاجِهِمْ مطلقاً بیان فرمایا ہے اور یہ اس لئے کہ اصل میں آدمی کا اپنی بیوی سے استمتاع ہر حالت میں جائز ہے۔ کتاب و سنت میں عورت سے اجتناب کے بارے میں وارد احکام ہی اس عموم سے مانع ہو سکتے ہیں، اس بناء پر حاملہ عورت سے جماع کے جواز کے بارے میں کسی مستقل دلیل کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جواز اصل ہے۔ آدمی کے لئے دوران حیض شرم گاہ میں جماع کرنا جائز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ وہ کسی بھی حصے سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ اسی طرح بیوی کی دبر میں جماع کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ کیونکہ وہ گندگی اور نجاست کا عمل ہے۔ نفاس کی حالت میں بھی خاوند بیوی سے جماع نہیں کر سکتا۔ جب وہ حیض اور نفاس سے پاک ہو جائے تو اس سے جماع کرنا جائز ہے۔ اگر عورت نفاس کے دوران چالیس دن سے پہلے ہی پاک ہو جائے تو جماع کرنا جائز ہے۔
[شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے