حالت حیض میں طلاق بدعی کے وقوع کا شرعی حکم

سوال

کیا طلاق بدعی (حالت حیض میں دی گئی طلاق) واقع ہو جاتی ہے؟

جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

طلاق بدعی کی وضاحت

حالت حیض میں دی گئی طلاق کو شریعت میں طلاق بدعی کہا جاتا ہے، اور یہ ممنوع ہے۔ تاہم، اگر حالت حیض میں طلاق دے دی جائے تو وہ طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

صحیح احادیث سے ثبوت

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ:
نافع بیان کرتے ہیں:
’’سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی جبکہ وہ حالت حیض میں تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ رجعت کر لیں اور انہیں اس وقت تک ساتھ رکھیں جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں، پھر دوبارہ حیض آئے اور اس کے بعد طہر کے دوران (ہمبستری سے پہلے) اگر طلاق دینا ہو تو طلاق دیں۔ یہی وہ وقت ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس میں عورتوں کو طلاق دی جائے۔‘‘
[صحیح البخاری: 5332]

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’یہ طلاق جو میں نے حیض میں دی تھی، مجھ پر شمار کی گئی۔‘‘
[صحیح البخاری: 5253]

فقہائے کرام کی رائے

اجماع: حالت حیض میں طلاق دینا حرام اور ممنوع ہے، کیونکہ یہ شریعت کے طے شدہ طریقے کے خلاف ہے۔
اختلاف: اس بات پر اختلاف ہے کہ آیا طلاق بدعی کو گناہ ہونے کے باوجود شمار کیا جائے گا۔
جمہور علماء: طلاق بدعی واقع ہو جاتی ہے۔
کچھ فقہاء: اسے شمار نہ کرنے کی رائے رکھتے ہیں، لیکن یہ قول قلیل ہے۔

خلاصہ

حالت حیض میں طلاق دینا گناہ ہے اور ممنوع ہے، لیکن اگر طلاق دی جائے تو وہ شمار ہوتی ہے اور واقع ہو جاتی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1