حافظ ابن کثیر کی نظر میں اہل سنت کے عقائد
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

حدیث سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما

سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:

إِنَّ ہٰذَا الْـأَمْرَ لَا یَنْقَضِي حَتّٰی یَمْضِيَ فِیہِمُ اثْنَا عَشَرَ خَلِیفَۃً، قَالَ : ثُمَّ تَکَلَّمَ بِکَلَامٍ خَفِيَ عَلَيَّ، قَالَ : فَقُلْتُ لِـأَبِي : مَا قَالَ؟ قَالَ : کُلُّہُمْ مِّنْ قُرَیْشٍ .
"یہ معاملہ ختم نہیں ہوگا جب تک ان میں بارہ خلیفہ نہ ہو جائیں۔” پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ بات کی جو مجھے سمجھ نہ آئی۔ میں نے والد سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ سب قریش میں سے ہوں گے۔
(صحیح البخاري: ٧٢٢٢، صحیح مسلم: ١٨٢١)

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کا تشریحی بیان

مؤرخ اسلام، مفسر قرآن، امام اہل سنت، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اس امت میں بارہ نیک و صالح خلفا ہوں گے جو حق قائم کریں گے اور انصاف سے کام لیں گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ پے در پے آئیں گے بلکہ ان میں سے چار، یعنی خلفاء راشدین (ابوبکر، عمر، عثمان، اور علی رضی اللہ عنہم) مسلسل آئے ہیں۔ ان میں عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو بھی شامل کیا گیا ہے، اور بعض بنو عباس کے خلفا بھی شمار کیے گئے ہیں۔ ان کی خلافت کے بغیر قیامت قائم نہیں ہوگی۔ امکان ہے کہ ان میں امام مہدی بھی شامل ہوں جن کا ذکر احادیث میں ہے کہ ان کا نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ہوگا اور وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، جیسے وہ ظلم سے بھری ہوئی ہوگی۔ تاہم، یہ وہ مہدی نہیں ہیں جس کا تصور شیعہ کرتے ہیں کہ وہ ’سامراء‘ کے غار میں غائب ہیں۔ یہ تو محض ایک خیالی تصور ہے۔ ان بارہ خلفا سے مراد شیعہ کے بارہ امام نہیں ہیں، جیسا کہ اثنا عشری شیعہ سمجھتے ہیں، بلکہ یہ سراسر جہالت اور ناسمجھی ہے۔ تورات میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے بارہ عظیم خلفا کی بشارت دی گئی ہے، اور یہ وہی خلفا ہیں جن کا ذکر ابن مسعود اور جابر بن سمرہ کی احادیث میں آیا ہے۔ بعض نادان لوگ، جو یہود سے مسلمان ہوئے اور شیعوں کی صحبت میں آئے، یہ غلط تصور اپناتے ہیں کہ یہ بارہ خلفا وہی بارہ امام ہیں اور ناسمجھی میں شیعہ مذہب اپنا لیتے ہیں۔”
(تفسیر ابن کثیر: 3/65، 66)

مزید فرماتے ہیں:

ہٰذَا الْحَدِیثُ فِیہِ دَلَالَۃٌ عَلٰی أَنَّہ، لَا بُدَّ مِنْ وُّجُودِ اثْنَيْ عَشَرَ خَلِیفَۃً عَادِلًا وَّلَیْسُوا ہُمْ بِأَئِمَّۃِ الشِّیعَۃِ الِاثْنَيْ عَشْرَ فَإِنَّ کَثِیرًا مِّنْ أُولٰئِکَ لَمْ یَکُنْ إِلَیْہِمْ مِنَ الْـأَمْرِ شَيْئٌ، فَأَمَّا ہٰؤُلَاءِ فَإِنَّہُمْ یَکُونُونَ مِنْ قُرَیْشٍ، یَلُونَ فَیَعْدِلُونَ، وَقَدْ وَقَعَتِ الْبِشَارَۃُ بِہِمْ فِي الْکُتُبِ الْمُتَقَدِّمَۃِ، ثُمَّ لَا یُشْتَرَطُ أَنْ یَّکُونَ مُتَتَابِعِینَ، بَلْ یَکُونُ وُجُودُہُمْ فِي الْـأُمَّۃِ مُتَتَابِعًا وَّمُتَفَرِّقًا، وَقَدْ وُجِد مِنْہُمْ أَرْبَعَۃٌ عَلَی الْوَلَائِ، وَہُمْ أَبُو بَکْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ، ثُمَّ عُثْمَانُ، ثُمَّ عَلِيٌّ، رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ، ثُمَّ کَانَتْ بَعْدَہُمْ فَتْرَۃٌ، ثُمَّ وُجِدَ مِنْہُمْ مَا شَاءَ اللّٰہُ، ثُمَّ قَدْ یُوجَدُ مِنْہُمْ مَّنْ بَّقِيَ فِي وَقْتٍ یَّعْلَمُہُ اللّٰہُ، وَمِنْہُمُ الْمَہْدِيُّ الَّذِي یُطَابِقُ اسْمُہُ اسْمَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَکُنْیَتُہ، کُنْیَتَہ،، یَمْلَـأُ الْـأَرْضَ عَدْلًا وَّقِسْطًا، کَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا وَّظُلْمًا .

"اس حدیث میں واضح اشارہ ہے کہ بارہ عادل خلفا ضرور آئیں گے، جو شیعہ کے بارہ امام نہیں ہیں کیونکہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو خلافت حاصل ہی نہیں ہوئی۔ یہ خلفا قریش میں سے ہوں گے اور خلافت ملتے ہی عدل قائم کریں گے۔ ان کے بارے میں پیشین گوئیاں سابقہ کتابوں میں بھی ہیں اور یہ لازم نہیں کہ وہ تسلسل میں آئیں، بلکہ ان میں سے بعض تسلسل سے اور بعض وقفوں سے آئیں گے۔ ابو بکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم لگاتار خلفا تھے، پھر ایک عرصہ کے بعد اور بھی خلفا آئے۔ ان بارہ میں امام مہدی بھی شامل ہیں، جن کا نام اور کنیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام اور کنیت کے مطابق ہوگا اور وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، جیسا کہ وہ ظلم و زیادتی سے بھری ہوئی ہوگی۔”
(تفسیر ابن کثیر: 6/78)

فرمان باری تعالیٰ: سورۃ التوبہ آیت 100

(وَالسَّابِقُونَ الْـأَوَّلُونَ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ وَالْـأَنْصَارِ وَالَّذِینَ اتَّبَعُوہُمْ بِّإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ وَأَعَدَّ لَہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَہَا الْـأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا أَبَدًا ذَالِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ)
”ایمان میں سبقت و اولیت حاصل کرنے والے مہاجرین و انصار اور احسان کے ساتھ ان کی پیرو ی کرنے والوں سے اللہ راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔ ابدالاباد تک ان کے لیے ایسے باغات کا انتظام کیا ہے، جن کے نیچے دریا جاری ہیں۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔”

(سورۃ التوبہ: ١٠٠)

ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خبر دی ہے کہ وہ مہاجرین و انصار اور ان کی پیروی کرنے والوں سے راضی ہوا۔ جو شخص صحابہ کرام سے بغض رکھتا ہے، انہیں گالیاں دیتا ہے، یا بعض صحابہ کے بارے میں ایسا رویہ رکھتا ہے، اس کا حال افسوس ناک ہے، خاص طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کے سردار اور سب سے افضل شخصیت صدیق اکبر ابوبکر بن ابو قحافہ رضی اللہ عنہ۔ کچھ شیعہ ان افضل صحابہ کو اپنے بغض کا نشانہ بناتے ہیں۔ اللہ کی ان پسندیدہ ہستیوں سے دشمنی رکھنا، درحقیقت عقل کی کمی اور دل کی گمراہی کی علامت ہے۔ اہل سنت تو ان سے محبت رکھتے ہیں جن سے اللہ نے محبت کی، اور ان سے دشمنی رکھتے ہیں جن سے اللہ نے دشمنی رکھی، اور یہی وجہ ہے کہ وہ اللہ کے کامیاب گروہ اور اس کے مومن بندے ہیں۔”
(تفسیر ابن کثیر: 4/203)

فرمان الٰہی: سورۃ الاحزاب آیت 58

(وَالَّذِینَ یُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَیْرِ مَا اکْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُہْتَانًا وَّإِثْمًا مُّبِینًا)
”جنہوں نے مومنین اور مومنات کو ایسے بہتان لگا کر تکلیف دی، جن کے وہ مرتکب ہی نہیں ہوئے، تو ان لوگوں نے بہتان بازی کی اور کھلم کھلا گناہ کمایا۔”

(سورۃ الاحزاب: ٥٨)

ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"مؤمنین اور مؤمنات پر جھوٹے الزامات لگا کر عیب جوئی کرنا واضح بہتان ہے۔ اس وعید میں وہ کافر شامل ہیں جو اللہ اور رسول کے منکر ہیں، اور پھر وہ روافض، جو صحابہ کرام پر بے بنیاد الزامات عائد کرتے ہیں۔ اللہ نے مہاجرین و انصار سے اپنی رضا کا اعلان کیا ہے، مگر یہ بدبخت جاہل ان پر سب و شتم کرتے ہیں اور ایسے ایسے الزامات عائد کرتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ درحقیقت، ان کے دل الٹے ہیں، ممدوحین کی مذمت کرتے ہیں اور مذمومین کی مدح کرتے ہیں۔”
(تفسیر ابن کثیر: 6/480، 481)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پاکیزگی اور ان کے فضائل

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نیتیں خالص تھیں اور ان کے اعمال بہترین تھے۔ ان کی شخصیت اور ہدایت کو دیکھنے والا ہر شخص ان سے متاثر ہوتا۔ اللہ نے فرمایا: (ذَالِکَ مَثَلُہُمْ فِي التَّوْرَاۃِ) ‘ان کی مثال تورات میں ہے’۔ پھر فرمایا: (وَمَثَلُہُمْ فِي الْـإِنْجِیلِ کَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَہ، فَآزَرَہ، فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوقِہٖ)، یعنی ‘انجیل میں بھی ان کا تذکرہ ہے؛ ان کی مثال کھیتی کی مانند ہے، جو مضبوط ہو کر تناور ہو جاتی ہے’۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مددگار اور آپ کی قوت و استحکام تھے۔ جیسے فصل میں بالیاں مضبوطی سے جڑیں ہوتی ہیں، ویسے ہی صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔”
(تفسیر ابن کثیر: ٧/٣٦٢، ٣٦٣)

ابن کثیر رحمہ اللہ مزید وضاحت کرتے ہیں کہ:

"فضائل صحابہ کے بارے میں اور ان کے بارے میں زبان درازی سے بچنے کی ممانعت میں بہت سی احادیث موجود ہیں۔ اللہ کی طرف سے ان کی تعریف و رضا ہی ان کے لیے کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والے اور صالح اعمال کرنے والوں سے مغفرت اور عظیم اجر کا وعدہ کیا ہے، اور اللہ کا وعدہ حق اور سچ ہے۔ ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کے لیے بھی یہی وعدہ ہے، البتہ صحابہ کرام کو ان کے فضائل اور سبقت میں خصوصی مقام حاصل ہے، جو کسی اور کو نہیں مل سکتا۔ اللہ تعالیٰ صحابہ کرام سے راضی ہے اور انہیں جنت الفردوس میں ٹھکانہ عطا کیا ہے۔”
(تفسیر ابن کثیر: ٧/٣٦٢، ٣٦٣)

واقعہ کربلا اور اس کے بعد پیدا ہونے والے شیعہ من گھڑت واقعات

ابن کثیر رحمہ اللہ شیعہ روایات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

"شیعہ روایات میں کہا گیا ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن ہر پتھر کے نیچے تازہ خون پایا گیا، سورج گہنا گیا، افق سرخ ہوگیا، اور پتھروں کی بارش ہونے لگی۔ یہ سب باتیں جھوٹ پر مبنی ہیں۔ بے شک یہ سانحہ بہت عظیم تھا، لیکن جو باتیں گھڑی گئی ہیں، وہ حقیقت نہیں رکھتیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ، جو بالاجماع سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے افضل تھے، شہید ہوئے، مگر اس قسم کے واقعات اس وقت پیش نہیں آئے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو محصور اور مظلوم حالت میں شہید کیا گیا، لیکن ان کے وقت میں بھی ایسا کچھ نہیں ہوا۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی فجر کی نماز میں محراب میں شہید ہوئے، مسلمانوں کے لیے یہ سانحہ بھی بڑا تھا، مگر ان کے وقت میں بھی ایسی چیزیں وقوع پذیر نہیں ہوئیں۔ دنیا و آخرت کے سردار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دن بھی یہ من گھڑت واقعات پیش نہیں آئے۔ حتیٰ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت سورج گرہن لگا، تو لوگوں نے کہا کہ ابراہیم کی وفات کی وجہ سے سورج بے نور ہو گیا ہے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کسوف پڑھا کر خطبہ دیا اور وضاحت کی کہ سورج اور چاند کو کسی کی موت یا زندگی سے گرہن نہیں لگتا۔”
(تفسیر ابن کثیر: ٧/٢٥٥)

شب قدر کی حقیقت اور شیعہ کا باطل نظریہ

ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"اس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ لیلۃ القدر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی ہر سال قیامت تک آئے گی۔ یہ نظریہ غلط ہے کہ لیلۃ القدر مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے، جیسا کہ بعض شیعہ گروہوں نے ایک حدیث سے یہ غلط مفہوم اخذ کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ‘لیلۃ القدر اٹھا لی گئی’، دراصل اس کے مخصوص وقت کے متعلق تھا۔ مزید یہ کہ لیلۃ القدر کے رمضان المبارک میں وقوع پذیر ہونے کا ثبوت بھی اسی سورت میں موجود ہے۔”
(تفسیر ابن کثیر: ٨/٤٤٦)

مسح علی الخفین (موزوں پر مسح) اور اہل سنت کے وضو کے احکام

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:

"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً و عملاً موزوں پر مسح کا جواز متواتر روایت سے ثابت ہے۔ اس سلسلے میں ہماری کتاب ‘الاحکام الکبیر’ میں مسح کے وقت، اس کی انتہا اور دیگر متعلقہ احکام کی مکمل وضاحت دی گئی ہے۔ اس پر تفصیلی گفتگو متعلقہ مقام پر کی جا چکی ہے۔ تاہم، روافض نے ان تمام احکام کی بغیر کسی دلیل کے مخالفت کی ہے اور یہ سراسر جہالت و گمراہی پر مبنی ہے، حالانکہ صحیح مسلم میں سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے موزوں پر مسح کرنے کا ثبوت موجود ہے۔ اسی طرح بخاری و مسلم میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے نکاح متعہ کی ممانعت بھی ثابت ہے، جبکہ شیعہ حضرات اسے جائز سمجھتے ہیں۔”
(تفسیر ابن کثیر: ٣/٥٨، ٥٩)

ابن کثیر رحمہ اللہ مزید وضاحت کرتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ پاؤں کو دھونے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ قرآنی حکم کے مطابق عمل کرنا ثابت ہے۔ روافض اس کی بھی مخالفت کرتے ہیں اور ان کے پاس صحیح دلائل نہیں ہیں۔

ٹخنوں کے مقام پر اختلاف

ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

"روافض نے ٹخنوں (کعبین) کے مقام پر بھی اہل سنت کے ائمہ کی مخالفت کی ہے۔ ان کے نزدیک کعبین پاؤں کی اوپر والی ہڈی کو کہا جاتا ہے، اس لیے ان کے مطابق ہر پاؤں میں ایک کعب (ٹخنہ) ہوتا ہے۔ جمہور اہل علم کے نزدیک کعبین ان دونوں ابھری ہوئی ہڈیوں کو کہا جاتا ہے جو پنڈلی اور پاؤں کے جوڑ پر موجود ہوتی ہیں۔ ربیع بن سلیمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: ‘میرے علم کے مطابق کسی نے بھی اس بات کی مخالفت نہیں کی کہ جن کعبین کو اللہ تعالیٰ نے وضو کے متعلق ذکر کیا ہے ان سے مراد وہ ابھری ہوئی دو ہڈیاں ہیں جو پنڈلی اور پاؤں کے ملنے والی جگہ میں ہوتی ہیں۔'”
(تفسیر ابن کثیر: ٣/٥٨، ٥٩)

لہذا، اہل سنت کے ائمہ کے نزدیک ہر پاؤں میں دو کعب (ٹخنے) ہوتے ہیں، اور یہ لوگوں میں معروف ہے اور سنت سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ بخاری و مسلم میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے وضو کا ذکر ہے کہ انہوں نے اپنے دائیں پاؤں کو کعبین (ٹخنوں) سمیت دھویا اور اسی طرح بائیں پاؤں کو بھی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے