حائضہ سے نکاح کا حکم
فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ

سوال : میں ایک نوجوان لڑکی ہوں، کچھ عرصہ قبل ایک نوجوان کے ساتھ شادی کا پروگرام طے ہوا، اگر اتفاقًا اس دوران میں حیض سے دوچار تھی۔ میں نے نکاح خواں سے دریافت کیا : کیا ان ایام میں نکاح ہو سکتا ہے ؟ اس نے تو جواز کا فیصلہ دے دیا مگر اس پر میں خود مطمئن نہ ہوئی۔ آپ سے یہ دریافت کرنا ہے کہ کیا یہ نکاح صحیح ہے ؟ اور اگر صحیح نہیں تو کیا دوبارہ کرنا ہو گا ؟
جواب : دوران حیض عورت سے نکاح جائز اور درست ہے۔ اس میں قطعاً کوئی حرج نہیں ہے، اس لئے کہ عقود نکاح میں اصل چیز اس کا حلال اور صحیح ہونا ہے۔ جبکہ حالت حیض میں تحریم نکاح کی کوئی دلیل نہیں۔ اگر صورت حال اس طرح کی ہو تو نکاح درست ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں۔ یہاں نکاح اور طلاق کے مابین فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔ دوران حیض طلاق دینا ناجائز بلکہ حرام ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو ایام حیض کے دوران طلاق دی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے اور اسے حکم دیا کہ وہ بیوی سے رجوع کرے، پھر آئندہ طہر تک اسے چھوڑے رکھے، پھر چاہے تو اسے طلاق دے دے اور اگر چاہے تو روک لے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّـهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّـهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ [64-الطلاق:1 ]
”اے نبی ! (لوگوں سے کہ دیجئے کہ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت میں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو اور اپنے اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا پروردگار ہے، نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں۔ بجز اس صورت میں کہ وہ کھلی بےحیائی کر بیٹھٰیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود ہیں اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کرے گا یقیناً وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا۔ “
لہٰذا دوران حیض طلاق دینا یا اس طہر میں طلاق دینا جس میں اس نے بیوی سے جماع کیا ہو جائز نہیں ہے، سوائے اس صورت میں کہ حمل ظاہر ہو جائے۔ اور اگر حمل ظاہر ہو جائے تو جب چاہے طلاق دے سکتا ہے، یہ طلاق واقع ہو جائے گی۔ عام لوگوں میں ایک عجیب و غریب بات مشہور ہے کہ دوران حمل دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی، یہ بات درست نہیں ہے حاملہ عورت کو دی گئی طلاقی مؤثر ہو جاتی ہے اور تمام طلاقوں میں مدت کے اعتبار سے یہ زیادہ وسیع طلاق سے، لہٰذا حاملہ عورت کو طلاق دینا آدمی کے لئے حلال ہے۔ اگر اس نے غیر حاملہ عورت سے کچھ ہی عرصہ قبل جماع کیا ہو تو پھر اس پر انتظار کرنا ضروری ہے حتیٰ کہ عورت حائضہ ہو جائے اور پھر پاک ہو یا یہ کہ حمل واضح ہو جائے۔ سورۂ طلاق میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ [64-الطلاق:1 ]
”اور حاملہ عورتوں کی عدت وضح حمل ہے۔ “
یہ اس امر کی واضح دلیل ہے کہ دوران حمل دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں یوں بھی ہے :
مرهٔ فلير اجعها ثم ليطلقها طاهرا او حاملا
”اسے حکم دو کہ وہ اس سے رجوع کرے پھر طہر یا حمل کی حالت میں اسے طلاق دے۔ “
جب یہ بات واضح ہو گئی کہ دوران حیض عورت سے نکاح کرنا جائز اور صحیح ہے تو میری رائے میں خاوند کو طہر تک بیوی کے پاس نہیں جانا چاہیے، اس لئے کہ اگر وہ طہر سے پہلے اس کے پاس جائے گا تو اس بات کا خطرہ ہے کہ وہ کہیں دوران حیض ممنورع کام کا ارتکاب نہ کر بیٹھے، شاید وہ اپنے آپ پر کنٹرول نہ کر سکے، خاص طور پر جب وہ جوان ہو تو اسے طہر تک انتظار کرنا چاہئیے تب وہ بیوی کے ساتھ اس وقت مجامعت کرے جب وہ شرمگاہ سے لطف اندوز ہونے پر قادر ہو۔ والله اعلم

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!