سوال:
حدیث "میں حائضہ عورت اور جنبی کا مسجد میں آنا حلال نہیں کرتا” (عن عائشہ رضی اللہ عنہا، سنن ابی داود: 232) کو آپ نے حسن کہا ہے، جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ اور حافظ عبدالرؤف نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ مفصل دلائل سے وضاحت کریں کہ یہ حدیث حسن کیوں ہے؟
الجواب:
الحمدللہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!
1. حدیث کی سند اور محدثین کے اقوال
یہ روایت امام بیہقی رحمہ اللہ نے السنن الکبریٰ (2/442-443) میں ابو داود کی سند سے روایت کی ہے۔
اس حدیث کو درج ذیل محدثین نے صحیح یا حسن قرار دیا:
- ابن خزیمہ (حدیث: 1327)
- ابن سید الناس
- ابن القطان الفاسی نے اسے حسن قرار دیا۔
جبکہ درج ذیل محدثین نے اسے ضعیف کہا:
- ابن حزم
- عبدالحق الاشبیلی
2. حدیث کی سند کی تفصیل
یہ روایت افلت بن خلیفہ نے جسرہ بنت دجاجہ سے نقل کی ہے، اور وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتی ہیں۔
2.1. افلت بن خلیفہ کا مقام
- احمد بن حنبل رحمہ اللہ: "ماأرى به بأساً” (مجھے ان میں کوئی حرج نظر نہیں آتا)۔
- دارقطنی رحمہ اللہ: "صالح” (نیک راوی)۔
- ابن حبان: انہیں "الثقات” میں ذکر کیا۔
- ابن خزیمہ: ان کی روایت کو صحیح قرار دیا۔
- ابوحاتم الرازی: انہیں "شیخ” کہا۔
وضاحت:
ابو حاتم کے نزدیک "شیخ” کا مطلب نہ تو جرح ہے اور نہ ہی توثیق۔ (میزان الاعتدال، ج2، ص385، ترجمہ العباس بن الفضل العدنی)
نتیجہ:
افلت بن خلیفہ کم از کم "حسن الحدیث” راوی ہیں۔ حافظ ابن حجر اور امام ذہبی نے بھی انہیں "صدوق” قرار دیا ہے۔ (تقریب التہذیب: 546، الکاشف: 1/85)
2.2. جسرہ بنت دجاجہ کا مقام
- امام العجلی، ابن خزیمہ، ابن حبان نے ثقہ قرار دیا۔
- امام بخاری رحمہ اللہ: "عند جسرة عجائب” (جسرہ کے پاس عجیب روایات ہیں)۔
- ابن حزم نے ان پر جرح کی، لیکن یہ جرح مردود ہے۔
نتیجہ:
ابن القطان الفاسی کے مطابق امام بخاری کی یہ جرح روایت کے ساقط ہونے کے لیے کافی نہیں ہے۔
جسرہ کی روایت حسن ہوتی ہے، اور اس روایت کے کئی شواہد بھی موجود ہیں، جو اسے مزید تقویت دیتے ہیں۔
3. حدیث کا درجہ:
- افلت بن خلیفہ حسن الحدیث ہیں۔
- جسرہ بنت دجاجہ ثقہ ہیں، البتہ ان کے پاس بعض عجیب روایات پائی جاتی ہیں، لیکن یہ جرح محدثین کے نزدیک روایت کو ضعیف کرنے کے لیے کافی نہیں۔
- ابن خزیمہ، ابن سید الناس اور ابن القطان الفاسی جیسے محدثین نے اس حدیث کو صحیح یا حسن قرار دیا۔
- متعدد شواہد کی بنا پر یہ روایت "صحیح لغیرہ” کے درجے میں آ جاتی ہے۔
نتیجہ:
یہ حدیث "حسن” ہے، اور دیگر شواہد کی موجودگی میں "صحیح لغیرہ” کے درجے میں آ جاتی ہے۔
واللہ أعلم بالصواب