آثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
حدیث نمبر 13 میں عام صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں گزرا کہ وہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کرتے تھے تو سورہ فاتحہ پڑھتے تھے۔ اس کے بعد نام بنام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار ذکر کئے جاتے ہیں۔
اثر نمبر 1
از عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ
«عن يزيد بن شريك انه سئل عمر عن القراءة خلف الامام فقال اقرأ بفاتحة الكتاب قلت ان كنت انت قال و ان كنت انا قلت و ان جهرت قال و ان جهرت رواته كلهم ثقات»
(الدارقطنی صفحہ 317 جلد 1)
یزید بن شریک سے روایت ہے کہ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے امام کے پیچھے قراءت کرنے کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے فرمایا: سورہ فاتحہ پڑھا کرو۔ میں نے عرض کی: اگر آپ نماز پڑھا رہے ہوں؟ انہوں نے جواب دیا: اگرچہ میں نماز پڑھا رہا ہوں۔ میں نے عرض کی: اگر آپ قراءت بالجہر کر رہے ہوں؟ انہوں نے جواب دیا: اگرچہ میں قراءت بالجہر ہی کر رہا ہوں۔ امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ اس اثر کے سب راوی ثقہ ہیں۔
اثر نمبر 2
از علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ
«عن على بن ابي طالب رضى الله عنه انه كان يأمر و يحب ان يقرأ خلف الامام فى الظهر والعصر بفاتحة الكتاب وسورة و فى الاخريين بفاتحة الكتاب»
(جزء القراءۃ للبخاری صفحہ 15)
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حکم دیتے اور پسند کرتے تھے کہ ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ اور دوسری کوئی سورت پڑھی جائے جبکہ آخری دو رکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ پڑھی جائے۔
اور جزء القراءۃ للبیہقی صفحہ 62 میں ہے:
«ان عليا رضى الله عنه كان يأمر بالقراءة خلف الامام»
یعنی علی رضی اللہ عنہ امام کے پیچھے قراءت کرنے کا حکم دیتے تھے۔
اثر نمبر 3
از ابن مسعود رضی اللہ عنہ
«عن ابي مريم سمعت ابن مسعود رضى الله عنه يقرأ خلف الامام»
(جزء القراءۃ للبخاری صفحہ 15-16)
ابو مریم سے روایت ہے کہ میں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو سنا، وہ امام کے پیچھے قراءت کر رہے تھے۔
اثر نمبر 4
از ابن عباس رضی اللہ عنہ
«عن ابن عباس رضي الله عنهما قال اقرأ خلف الامام جهر او لم يجهر»
(جزء القراءۃ للبیہقی صفحہ 64)
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ امام کے پیچھے پڑھا کرو چاہے امام جہری قراءت کر رہا ہو یا سری۔
دوسری روایت میں ہے کہ:
«عن ابن عباس رضي الله عنهما قال لا تدع فاتحة الكتاب جهر الامام او لم يجهر»
یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہر حال میں سورہ فاتحہ پڑھا کرو چاہے امام جہری قراءت کر رہا ہو یا سری۔
اثر نمبر 5
از ابی بن کعب رضی اللہ عنہ
«عن عبدالله بن ابي الهذيل قال سألت ابي بن كعب رضى الله عنه اقرأ خلف الامام قال نعم و عن ابي المغيرة عن ابي بن كعب رضى الله عنه انه كان يقرأ خلف الامام»
(جزء القراءۃ للبیہقی صفحہ 62)
عبداللہ بن ابی ہذیل سے روایت ہے کہ میں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا میں امام کے پیچھے قراءت کروں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ ابو مغیرہ سے روایت ہے کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ امام کے پیچھے قراءت کرتے تھے۔
اثر نمبر 6
از ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ
«عن ابي نضرة قال سألت ابا سعيد عن القراءة خلف الامام فقال فاتحة الكتاب»
(جزء القراءۃ للبخاری صفحہ 62)
ابو نضرہ سے روایت ہے کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے امام کے پیچھے قراءت کرنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ سورہ فاتحہ پڑھنی چاہئے۔
اثر نمبر 7
از عمران بن حصین رضی اللہ عنہ
«عن الحسن حدثني عمران بن حصين قال لا تزكوا صلاة مسلم الا بطهور و ركوع و سجود و فاتحة الكتاب وراء الامام وغير الامام»
(جزء القراءۃ للبیہقی صفحہ 68)
حسن سے روایت ہے کہ مجھے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ مسلمان کی نماز اس وقت تک پاکیزہ نہیں ہو سکتی جب تک اس میں پاکیزگی، رکوع، سجود اور سورہ فاتحہ نہ ہو، خواہ وہ امام کے پیچھے ہو یا امام کے بغیر ہو۔
اثر نمبر 8
از عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ
«عن محمود بن الربيع قال صلينا صلاة و الي جنبي عبادة بن الصامت فسمعه يقرأ بفاتحة الكتاب فلما فرغنا قلت يا ابا الوليد الم اسمعك قرأت فاتحة القرآن قال اجل انه لا صلاة الا بها»
(جزء القراءۃ للبیہقی صفحہ 75)
محمود بن ربیع کہتے ہیں کہ ہم نماز پڑھ رہے تھے۔ میرے ساتھ عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ کھڑے تھے۔ میں نے سنا وہ سورہ فاتحہ پڑھ رہے تھے۔ جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے کہا: اے ابو الولید! کیا میں نے آپ کو سورہ فاتحہ پڑھتے نہیں سنا؟ انہوں نے کہا: ہاں، اس لئے کہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
اثر نمبر 9
از عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما
«عن يحيي ابن البكاء سئل ابن عمر رضى الله عنه عن القراءة خلف الامام فقال ما كانوا يرون بأسا ان يقرأ بفاتحة الكتاب فى نفسه»
(جزء القراءۃ للبخاری صفحہ 14-15)
یحییٰ بن بکاء کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کے متعلق پوچھا گیا۔ انہوں نے کہا: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ مقتدی دل میں آہستہ سے سورہ فاتحہ پڑھ لے۔
اور دوسری روایت ہے کہ:
«عن ابي العاليه البراء ان عبدالله بن صفوان قال لابن عمر يا ابا عبدالرحمن افي كل صلاة تقرأ قال اني لأستحي من رب هذا البيت ان اركع ركعتين لا اقرأ فيهما بأم الكتاب فزائدا او قال فصاعدا»
(جزء القراءۃ للبیہقی صفحہ 64)
یعنی ابو العالیہ البراء سے روایت ہے کہ عبداللہ بن صفوان نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیا آپ ہر نماز میں قراءت کرتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: میں اس بیت اللہ کے رب سے شرم محسوس کرتا ہوں کہ کوئی بھی دو رکعتیں نماز پڑھوں اور ان میں سورہ فاتحہ نہ پڑھوں یا اس کے بعد قرآن کی کوئی دوسری سورت نہ پڑھوں۔
اثر نمبر 10
از ابو ہریرہ و عائشہ رضی اللہ عنہما
«عن ابي هريره و عائشه رضي الله عنهما كانا يأمران بالقراءة خلف الامام فى الظهر والعصر فى الركعتين الأوليين بفاتحة الكتاب و شيء من القرآن و كانت عائشه رضي الله عنها تقول يقرأ فى الاخريين بفاتحة الكتاب»
(جزء القراءۃ للبیہقی صفحہ 80)
ابو ہریرہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما دونوں امام کے پیچھے ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور کچھ اور قرآن پڑھنے کا حکم دیتے تھے۔ اور عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں کہ آخری دو رکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ پڑھی جائے گی۔
نیز حدیث نمبر 2 میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول گزرا کہ انہوں نے امام کے پیچھے آہستہ سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا۔
اثر نمبر 11
از ابو الدرداء رضی اللہ عنہ
«عن حسان بن عطيه ان ابا الدرداء رضى الله عنه قال لا تترك قراءة فاتحة الكتاب خلف الامام جهر او لم يجهر»
(جزء القراءۃ للبیہقی صفحہ 68)
حسان بن عطیہ سے روایت ہے کہ ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: امام جہری قراءت کر رہا ہو یا سری، اس کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا ترک نہ کرنا۔
اثر نمبر 12
از انس رضی اللہ عنہ
«عن ثابت عن انس قال كان يأمرنا بالقراءة خلف الامام قال و كنت اقوم الي جنب انس فيقرأ بفاتحة الكتاب و سورة من المفصل و يسمعنا قراءته لنأخذ عنه»
(جزء القراءۃ للبیہقی صفحہ 68)
ثابت تابعی کہتے ہیں کہ انس رضی اللہ عنہ نے امام کے پیچھے پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ اور میں ان کے ساتھ جماعت میں کھڑا ہوتا تھا۔ وہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ اور کوئی دوسری سورت پڑھتے اور ہمیں سناتے تاکہ ہم بھی سیکھ لیں۔
اثر نمبر 13
از معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ
«عن ابي شيبه المهري يقول سأل رجل معاذ بن جبل رضى الله عنه عن القراءة خلف الامام قال اذا قرأ فاقرأ بفاتحة الكتاب و قل هو الله احد و اذا لم تسمع فاقرأ فى نفسك و لا تؤذ من عن يمينك و لا من عن شمالك»
(جزء القراءۃ للبیہقی صفحہ 63)
ابو شیبہ مہری کہتے ہیں کہ ایک شخص نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے امام کے پیچھے قراءت کرنے کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے کہا: جب امام قراءت کر رہا ہو تب تو سورہ فاتحہ اور قل هو الله احد پڑھ۔ اور جب تو امام کی قراءت نہ سن رہا ہو تو اپنے دل میں آہستہ قراءت کر اور اپنے دائیں طرف والے اور بائیں طرف والے کو ایذاء نہ دے (یعنی جہر سے نہ پڑھ کہ ان کو تشویش ہو)۔“
اثر نمبر 14
از عبداللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ
«عن حصين قال صليت الي جنب عبيد الله بن عبدالله بن عتبه فسمعه يقرأ خلف الامام فلقيت مجاهدا فذكرت له ذلك فقال مجاهد سمعت عبدالله بن عمرو بن العاص يقرأ خلف الامام»
(جزء القراءۃ للبیہقی صفحہ 65)
حصین کہتے ہیں کہ میں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ کے ساتھ نماز پڑھی۔ میں نے سنا کہ وہ امام کے پیچھے قراءت کر رہے تھے۔ پھر میں مجاہد تابعی سے ملا، اس کو یہ بات بتائی۔ اس نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کو سنا، وہ بھی امام کے پیچھے قراءت کر رہے تھے۔
اثر نمبر 15
از ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ
«عن حميد بن هلال ان هشام بن عامر قرأ فقيل له اتقرأ خلف الامام قال انا لنفعل»
(جزء القراءۃ للبیہقی صفحہ 67)
حمید بن ہلال کہتے ہیں کہ ہشام بن عامر امام کے پیچھے قراءت کر رہے تھے۔ ان کو کہا گیا: آپ امام کے پیچھے قراءت کر رہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: ہم ایسا ہی کرتے ہیں۔ اور معجم الکبیر طبرانی میں الفاظ اس طرح ہیں کہ:
«جاء هشام بن عامر الي الصلاة فأسرع المشي فدخل المسجد فى الصلاة وقد حفظه النفس فجهر بالقراءة خلف الامام فلما قضي صلاته قيل له اتقرأ خلف الامام قال انا لنفعل»
یعنی ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ جلدی جلدی جماعت کو پہنچے تو ان کی سانس پھولی ہوئی تھی۔ اس کے باوجود انہوں نے قراءت کی جو کہ سننے میں آ رہی تھی۔ پھر ان سے کہا گیا: آپ امام کے پیچھے بھی قراءت کرتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: ہم ایسا ہی کرتے ہیں۔
علامہ ہیثمی مجمع الزوائد صفحہ 111 جلد 2 میں لکھتے ہیں کہ رجاله موثوقون یعنی اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں۔
اثر نمبر 16
از عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ
«عن عبدالله بن مغفل رضى الله عنه انه كان يقرأ فى الظهر و العصر خلف الامام بفاتحة الكتاب و سورة فى الأوليين و فى الاخريين بفاتحة الكتاب فقط»
(جزء القراءۃ للبخاری صفحہ 16)
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ اور دوسری کوئی سورت اور آخری دو رکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ پڑھتے تھے۔
اثر نمبر 17
از علی و جابر رضی اللہ عنہما
«عن على و جابر بن عبدالله رضي الله عنهما قال لا يقرأ الامام و من خلفه فى الأوليين الا بفاتحة الكتاب وسورة و فى الاخريين بفاتحة الكتاب»
(جزء القراءۃ للبیہقی صفحہ 67)
امیر المؤمنین علی اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما دونوں کہا کرتے تھے کہ امام اور مقتدی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور کوئی دوسری سورت اور آخری دو رکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ پڑھا کریں۔
ان آثار اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بھی یہی عمل تھا یعنی وہ بھی امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کے قائل اور عامل تھے۔ اس کے بعد کچھ تابعین کے آثار نقل کئے جاتے ہیں۔