آمین کہنے کا وقت
آمین کہنے میں فرشتوں کی موافقت کے بابت چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں
(1) صحیح مسلم ص 76 اج امع النووی میں یہ الفاظ ہیں۔
«اذا قال القارى غير المغضوب عليهم و الضالين فقال من خلفه آمين فوافق قوله قول اهل السماء غفر له ما تقدم من ذنبه»
یعنی جب قاری غير المغضوب عليهم و الا الضالين کہے اور پیچھے والوں نے بھی آمین کہا پس ان کا قول آسمان والوں کے قول کے موافق ہو گیا تو ان کے گذشتہ گناہ معاف کئے جائیں گے۔
(2) ابوداؤد ص 135 ج 1 میں ہے۔
«اذا امن الامام فامنوا فانه من وافق تأمينه تأمين الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه»
یعنی جب امام آمین کہے تو تم آمین کہو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں سے موافق ہوئی تو اس کے گذشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے۔
یہی حدیث بخاری ص 108 ج 1 میں بھی ہے۔
(3) بخاری ص 108 ج 1 باب جهر الماموم بالتأمین میں ہے۔
«اذا قال الامام غير المغضوب عليهم ولا الضالين فقولوا آمين، فانه من وافق قوله قول الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه»
یعنی جب امام غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہے تو تم بھی آمین کہو پس جس کا قول فرشتوں کے قول سے موافق ہوا تو اس کے گذشتہ گناہ معاف ہو جائیں گے۔
(4) نسائی ص 94 ج 1 باب جهر الامام بآمین میں ہے۔
«اذا قال الامام غير المغضوب عليهم ولا الضالين فقولوا آمين فان الملائكة تقول آمين و ان الامام يقول آمين فمن وافق تأمينه تأمين الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه»
یعنی جب امام غير المغضوب عليهم و لا الضالين کہے کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں اور امام بھی آمین کہتا ہے، پس جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے موافق ہو گئی تو اس کے گذشتہ گناہ معاف ہو جائیں گے۔
یہ روایت دارمی ص 228 ج 1 میں بھی ہے اور ابن حبان ص 146 ج 4 (بترتیب الفارسی ) میں بھی ہے۔
(5) ابن ماجہ ص 61 میں ہے۔
اذا امن القارى فامنوا ، فان الملائكة تؤمن فمن وافق تأمينه تأمين الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه
یعنی جب قراءت کرنے والا آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں ، پس جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے موافق ہو گئی تو اس کے گذشتہ گناہ ! معاف ہو جائیں گے۔
(6) دارمی ص 228 ج 1 میں ہے۔
اذا قال القارى غير المغضوب عليهم و الضالين فقال من خلفه آمين فوافقذلك اهل السماء غفر له ما تقدم من ذنبه
یعنی جب قاری غير المغضوب عليهم و الا الضالين کہے اور پیچھے والوں نے بھی آمین کہا پس یہ آسمان والوں کے ساتھ موافقت ہو جائیگی تو اسکے گذشتہ گناہ معاف ہو جائیں گے۔
(7) صحیح ابو عوانہ ص 110 ج 2 میں ہے۔
اذا قال غير المغضوب عليهم ولا الضالين فقولوا آمين فانه اذا وافق كلامه كلام الملائكة غفر له
یعنی جب امام غير المغضوب عليهم و لا الضالین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ جب اس کا کلام فرشتوں کے کلام سے موافق ہو گا تو وہ بخشا جائیگا۔
ابو داؤد ص 135۔ 134 ج1 میں ہے۔
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لعل الله اذا قرأ و الا لضالين قال آمين و رفع بها صوته
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ولا الضالين پڑھتے تھے تو آمین کہتے اور اس کے ساتھ آواز کو بلند کرتے تھے۔
جملہ الفاظ احادیث کو غور سے پڑھو ان سے حسب ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
(الف) قاری یا امام کو اس وقت آمین کہنی ہے جب وہ ولا الضالين کہے۔
(ب) فرشتے بھی امام کے آمین کے وقت آمین کہتے ہیں۔
(ج) مقتدی کے لئے دو قسم کا حکم ہے ایک یہ کہ اذا قال الامام غير المغضوب عليهم و لا الضالين فقولوا آميين یعنی جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔ ظاہر ہے کہ امام فاتحہ کے بعد آمین کہے گا اور مقتدی اس کے ساتھ آمین کہیں گے تاکہ دونوں حکموں پر عمل ہو جائے۔ یعنی امام ولا الضالين کہنے کے بعد اس کی آمین کے ساتھ آمین کہیں۔ اور یہ کہنا صحیح نہیں کہ مقتدیوں کا امام کے اختتام فاتحہ پر آمین کہنا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ مقتدی اپنے امام کے ساتھ ساتھ پڑھ رہے تھے کیونکہ متقدی کو کبھی تو سکنات میں امام کے ختم کرنے سے پہلے سورت فاتحہ پڑھنے کا موقعہ مل جاتا ہے کبھی ایک دو آیتیں رہ جاتی ہیں ورنہ تو بعد میں بھی سکتات میں پڑھ سکتا ہے مثلا ایک آدمی ایسے وقت جماعت میں شامل ہوتا ہے کہ امام فاتحہ پوری کر کے دوسری سورت پڑھ رہا ہے تو اس وقت کیا کرے گا۔ یہی کہ کوشش کرے کہ امام کے سکتات میں فاتحہ پڑھ سکے مگر آمین کا وقت مقرر ہے یعنی جب امام فاتحہ پوری کر کے آمین کہنے لگے تو اسی وقت آمین کہنی ہے ۔ لیکن قراءت کا وقت محدود یا خاص نہیں بلکہ رکوع تک فاتحہ کو پورا کرنا ہے۔ اس پر یہ کہنا کہ آیت قرآنی کے خلاف ہے قابل تامل ہے کیونکہ اول تو یہ بتایا گیا کہ فاتحہ اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ حدیث کے الفاظ میں فلا تقرؤوا بشيء اذا جهرت الا بام القرآن یعنی امام کے جہر کے وقت فاتحہ کے سوا باقی پڑھنا منع ہے کیونکہ کلمہ ”اذا جهرت“ حرف شرط ہے جو اپنے مدخول جملہ کو شرط کے ساتھ مقید کرتا ہے۔ اور یہ استثناء صرف احادیث کیلئے ہیں بلکہ اس کے بعد یہ تاکیدی جملہ مسئلہ واضح کر دیتا ہے فانه لا صلاة لمن لم يقرأ بها اور دوسری حدیث جو ہم نے لکھی ہے کہ هل تقرؤون فى الصلاة معى؟ قلنا نعم قال فلا تفعلوا الا بفاتحة الكتاب ، پس سورت فاتحہ زیر بحث ہی نہیں ہو سکتی۔ ثانیا اگرچہ مقتدی نے امام سے پہلے فاتحہ پوری کر لی ہے تو بھی امام کے سکنات میں جن میں پڑھنے سے قرآن کی مخالفت جس کا آپ نے ذکر کیا ہے لازم نہیں آتی اور یہ بھی صحیح نہیں کہ امام کی آیت سننے کے بعد وہی آیت پڑھے ایسا حکم کسی حدیث میں نہیں ہے بلکہ پورے قیام میں جب موقعہ ملے پڑھنا ہے اور آمین سے پہلے جو آپ نے امام کو سکتہ کرنے کا حکم دیا ہے اس کا کسی حدیث میں ثبوت نہیں ہے بلکہ حدیث میں صریح ہے کہ ولا الضالين کہتے ہی آمین کہنی چاہئیے ، آپ نے جو ابوداؤد کی روایت نقل کی ہے کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے جب آمین کہی تو صف اول نے آپ کی آواز سنی یہ روایت آپ نے پوری نقل نہیں کی۔ پوری روایت اس طرح ہے۔
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا تلا غير المغضوب عليهم ولا الضالين قال آمين حتى يسمع من يليه من الصف الاول ابو داؤد ص 135 ج 1 باب التأمين وراء الامام
یعنی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جب آیت غير المغضوب عليهم ولا الضالين پڑھتے تو ! آمین کہتے حتی کہ صف اول والوں میں سے جو آپ کے قریب ہوتے وہ سنتے تھے ۔ اب اس حدیث نے ہی فیصلہ کر لیا کہ آپ نے فاتحہ پڑھتے ہی آمین کہی اور لوگوں نے سنی سابقہ حدیث سے ثابت ہوا کہ امام کی آمین کے ساتھ مقتدیوں کو آمین کہنی چاہئیے ۔ آپ نے جو جزء القراء ۃ بیھقی سے جو حدیث نقل کی ہے کہ ”جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوتے تو صحابہ کرام آپ کے پیچھے پڑھتے الخ ۔ اس میں بھی یہ بیان نہیں ہے نہیں ہے کہ جو آیت آپ پڑھتے وہی پیچھے پڑھتے تھے بلکہ مطلق ذکر ہے کہ وہ آپ کے سکوت کے منتظر ہوتے جب آپ سکوت فرماتے تو جو پڑھ سکتے تھے وہ پڑھ لیتے۔ بس یہی طریقہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت کرے۔ آمين
و الله يهدى من يشاء الى صراط مستقيم