جوتے سے متعلق 20 اسلامی احکام اور سنتیں
ماخوذ: ماہنامہ الحدیث، حضرو

جوتے کے احکام

انسان کی روز مرہ زندگی میں جوتے کی اہمیت مسلم ہے۔ دن اور رات میں کتنے ہی ایسے مواقع آتے ہیں کہ کبھی جوتا پہنا جاتا ہے تو کبھی اتارا جاتا ہے، اس کا اندازہ لگانا کافی مشکل ہے لیکن افسوس کہ اکثر مسلمان جوتے کے احکام سے ناواقف ہیں۔ اسی سوچ کے پیش نظر کہ ہمارے ہر مسلمان بھائی اور بہن کو جوتے کے احکام معلوم ہونے چاہئیں تا کہ وہ ان پر عمل کر سکیں لہذا انتہائی اختصار کے ساتھ ’’جوتے کے احکام‘‘ پیش خدمت ہیں:

① پہلے دایاں جوتا پہننا چاہئے پھر بایاں

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((إذا انتعل أحدكم فليبدأ باليمين …))

جب تم میں سے کوئی شخص جوتا پہنے تو پہلے دایاں جوتا پہنے…

(صحیح البخاری: ۵۸۵۶ صحیح مسلم: ۲۰۹۷، دار السلام : ۵۴۹۵)

سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں:

’’كان النبي صلی اللہ علیہ وسلم يعجبه التيمن في تنعله و ترجله و طهوره و في شأنه كله‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جوتا پہننے، کنگھی کرنے ، وضو کرنے غرضیکہ اپنے ہر کام میں دائیں جانب سے ابتدا کرنے کو پسند فرماتے تھے۔

(صحیح البخاری: ۱۶۸ صحیح مسلم : ۲۶۸، دار السلام : ۶۱۷)

② جوتا پہن کر چلنا مسنون ہے

سیدنا جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((استكشــروا مـن النعال ، فإنّ الرجل لايزال راكبًا ما انتعل))

اکثر اوقات جو تیاں پہنے رہا کرو کیونکہ جوتیاں پہننے سے آدمی سوار رہتا ہے۔(یعنی مشل سوار کے پاؤں کو تکلیف نہیں پہنچتی)

(صحیح مسلم:۲۰۹۶، دار السلام :۵۴۹۴)

معلوم ہوا کہ اکثر اوقات جوتے پہن کر چلنا چاہئے مگر کبھی کبھی ننگے پاؤں چلنا بھی جائز ہے۔

(دیکھئے صحیح بخاری:۵۸۵۵، صحیح مسلم: ۲۰۹۷)

بعض الناس محرم الحرام کے خاص دنوں میں ننگے پاؤں چلتے ہیں یہ عمل غیر مسنون اور بدعت ہے۔

③ جوتا اتارتے وقت پہلے بایاں جوتا اتارنا چاہئے

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((إذا انتعل أحدكم فليبدأ باليمين و إذا انتزع فليبدأ بالشمال لتكن اليمني أولهما تنعل و آخرهما تنزع))

جب تم میں سے کوئی جوتا پہنے تو پہلے دایاں جوتا پہنے اور جب اتارے تو پہلے بایاں اتارے اور دایاں جوتا پہننے میں پہلا اور اتارنے میں آخر ہو۔

(صحیح البخاری : ۵۸۵۶، صحیح مسلم: ۲۰۹۷، دارالسلام: ۵۴۹۵)

④ ایک جوتا پہن کر چلنا ممنوع ہے

سید نا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((لايمش أحدكم في نعل واحدة ، لينعلهما جميعًا أو ليحفهما جميعًا))

تم میں سے کوئی ایک جوتے میں مت چلے، دونوں پہنے یا پھر دونوں ہی اتار دے۔

(صحیح البخاری: ۵۸۵۵، صحیح مسلم: ۲۰۹۷، دار السلام : ۵۴۹۶)

سید نا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((إذا انقطع شسع أحدكم فلا يمش في الأخرى حتى يصلحها))

جب تم سے کسی کی ایک جوتی کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ ایک جوتے میں نہ چلے یہاں تک کہ وہ اسے (دوسرے جوتے کو) درست کروالے۔

(صحیح مسلم: ۲۰۹۸، دار السلام : ۵۴۹۷)

سید نا جابر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جوتے میں چلنے سے منع فرمایا ہے۔

(صحیح مسلم: ۲۰۹۹ ، دار السلام : ۵۳۹۹)

بعض لوگ اس میں کوتا ہی کرتے ہیں لہذا ایسے عمل سے ہمیشہ اجتناب کرنا چاہئے جس سے سنت کی مخالفت ہوتی ہو۔

⑤ جوتوں میں نماز پڑھنا صحیح ہے

ابو مسلمہ کہتے ہیں کہ میں نے (سیدنا) انسؓ سے سوال کیا :

أكان النبي صلی اللہ علیہ وسلم يصلي في نعليه ؟ قال : نعم
کیا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جوتوں میں نماز پڑھتے تھے؟ انھوں نے کہا: ہاں!

(صحیح البخاری: ۱۳۸۶ صحیح مسلم: ۵۵۵، دار السلام :۱۳۳۶)

لیکن یادر ہے کہ جوتے پاک ہوں تو تب ہی ان میں نماز پڑھ سکتے ہیں بصورت دیگر نہیں۔

علامہ ابن بطال فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو اس بات پر محمول کریں گے کہ اس جوتے میں گندگی نہ لگی ہو ۔

(فتح الباری ۶۵۱/۱)

⑥ اگر گندگی لگی ہو تو اس کو دور کر کے پھر اس میں نماز پڑھنی جائز ہے

سید نا ابوسعید الخدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((إذا جاء أحدكم إلى المسجد فلينظر فإن رأى في نعليه قذرا أو أذًى فليمسحه وليصل فيهما))

جب تم میں سے کوئی آدمی مسجد کی طرف آئے تو وہ دیکھے اگر اس کے جوتوں میں کوئی گندگی وغیرہ لگی ہو تو اسے صاف کرے اور ان میں نماز پڑھے۔

(سنن ابی داود : ۲۵۰ وسنده صحیح صحیح ابن خزیمہ: ۱۰۱۷)

بعض لوگ اس کو بر اخیال کرتے ہیں حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((خالفوا اليهود فإنهم لا يصلون في نعالهم ولا خفا فهم))

یہودیوں کی مخالفت کرو کیونکہ وہ اپنے جوتوں اور موزوں میں نماز نہیں پڑھتے ۔

(ابوداود: ۶۵۲ ، وسندہ صحیح)

اس حدیث سے واضح معلوم ہوا کہ (پاک) جوتے سمیت نماز پڑھنا جائز ہے۔

سید نا عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ
’’رأيت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم يصلي حافياً و متعلاً‘‘
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ننگے پاؤں اور جوتوں سمیت (دونوں طرح) نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔

(ابوداود:۶۵۳ وسندہ حسن)

صحابہ کرامؓ سے بھی جوتے پہن کر نماز پڑھنا ثابت ہے۔

(صحیح ابن خزیمہ: ۱۰۱۷، ابوداود:۲۵۰ وسنده صحیح)

تنبيه:

بعض لوگ بعض جوتوں میں نماز جائز اور بعض میں ناجائز سمجھتے ہیں۔اس فرق کی ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ ہر اس جوتے میں نماز پڑھنی جائز ہے جسے جوتا کہا جا سکتا ہے۔ (واللہ اعلم)

جوتے پہن کر نماز پڑھنا ایک رخصت ہے جس پر عمل کرنا مسنون ہے مگر جوتے کی آڑ میں مسجد کا احترام پامال کرنا صحیح نہیں ہے۔ جوتے کو بھی دیکھا جائے گا کہ آیا اس کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھنے سے مسجد کی صفائی کا نظام تو خراب نہیں ہوگا.

اگر گندگی لگے جوتے میں نماز پڑھ رہے ہوں اور نماز کے دوران میں معلوم ہو جائے تو جوتے اتار دینے چاہئیں۔

(صحیح ابن خزیمہ: ۱۰۱۷، ابوداود:۲۵۰ وسندہ صحیح)

اگر گندگی لگے جوتے میں نماز پڑھ لی گئی ہے تو دہرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ سیدنا ابوسعید الخدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا رہے تھے آپ نے اپنے جوتے اتار دیئے تو صحابہ ؓ نے بھی اپنے جوتے اتار دئیے جب آپ نے نماز مکمل کی تو فرمایا:

((لم خلعتم نعالكم ؟))

تم نے اپنے جوتے کیوں اتارے ہیں؟ صحابہ ؓ نے کہا :

اے اللہ کے رسول! ہم نے آپ کو جوتے اتارتے ہوئے دیکھا تو ہم نے بھی اتار دیئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

میرے پاس جبریل (علیہ السلام) آئے تھے انھوں نے آکر مجھے خبر دی کہ آپ کے جوتوں کو گندگی لگی ہوئی ہے لہذا جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو وہ اپنے جوتے کو الٹا کر کے دیکھے (اگر) وہ ان میں گندگی دیکھے تو ان کو زمین پر رگڑے، پھر وہ ان میں نماز پڑھے۔

(صحیح ابن خزیمہ: ۱۰۱۷، واللفظ له، ابوداود:۲۵۰ وسندہ صحیح)

امام الائمہ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب باندھا ہے کہ ’’جوتے میں نماز پڑھنا خواہ ان کو گندگی لگی ہوئی ہو اور نمازی کو اس کا علم نہ ہو ۔‘‘ یہ باب اس بات کی بھی دلیل ہے کہ نمازی جب جوتے یا کپڑے میں نماز پڑھے جو اس کے نزدیک پاک ہو، پھر اسے پتا چلے کہ جو تا یا کپڑا پاک نہیں تھا تو جس حالت میں اس نے نماز پڑھی وہ جائز ہے،اس کا دہرانا واجب نہیں ہے کیونکہ آدمی اس بات کا مکلف ہے کہ وہ اپنے علم کے مطابق پاک کپڑوں (اور پاک جوتے) میں نماز پڑھے نہ کہ وہ علم غیب کا مکلف ہے جس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔

نماز پڑھتے ہوئے جوتے کوا تار کر اپنی دائیں طرف نہیں رکھنا چاہئے۔

(صحیح ابن خزیمہ: ۱۰۱۶، ابوداود:۶۵۴ صحیح حدیث ہے۔)

نمازی جوتے کو اتار کر اپنی بائیں طرف رکھ سکتا ہے۔ اس شرط کے ساتھ کہ ادھر کوئی دوسرا نمازی نہ ہو۔

(صحیح ابن خزیمہ ۱۰۱۶، ابوداود: ۲۵۴، حدیث صحیح ہے۔)

اگر بائیں طرف کوئی آدمی ہو تو پھر جوتے کو دونوں پاؤں کے درمیان رکھ لے۔

سید نا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اپنے جوتے دائیں طرف نہ رکھے اور نہ بائیں طرف رکھے، کیونکہ اس صورت میں وہ کسی دوسرے کے دائیں طرف ہوں گے۔ ہاں اگر اس کے بائیں طرف کوئی نہ ہو تو پھر رکھ لے اور نمازی اپنے جوتے اپنے پاؤں کے درمیان رکھے۔

(صحیح ابن خزیمہ: ۱۰۱۶، ابوداود:۶۵۴ ، حدیث صحیح ہے۔)

⑦ جوتا سامنے رکھ کر نماز پڑھنا

نماز کی حالت میں جو تا کہاں رکھنا چاہئے ؟ اس کی تفصیل آپ نے پڑھ لی ہے۔

اگر سامنے رکھ کر نماز پڑھنی منع ہوتی تو اس کا ضرور ذکر ہوتا۔ یہ یادر ہے کہ ہر کام میں اصل اباحت ہے، منع کی دلیل چاہئے اور اسی کے متعلق حافظ عبدالمنان نورپوری حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
رہی یہ بات کہ ’’جو تا آگے ہو تو نماز نہیں ہوتی تو اس کے بارے میں کوئی آیت یا حدیث مجھے معلوم نہیں ۔‘‘

(احکام و مسائل ج ۲ ص ۱۲۰)

معلوم ہوا کہ اگر جو تا آگے ہو تو بھی نماز ہو جاتی ہے۔ (واللہ اعلم)

⑧ کھڑے ہو کر جوتا پہننا

سید نا ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ
’’نھی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم أن ينتعل الرجل وهو قائم‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے کھڑے جوتا پہنے سے منع فرمایا ہے۔

(سنن الترمذی: ۱۷۷۶، وقال: هذا حدیث غریب)

یہ روایت سند ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں قتادہ مدلس ہیں اور عن سے بیان کر رہے ہیں، اس روایت کی دوسری سندیں بھی ضعیف ہیں۔ کما قال شيخنا الحافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ فی تحقیقہ

⑨ احرام کی حالت میں جوتے پہننا جائز ہیں

حدیث میں ہے کہ ’’اگر جوتے نہ ہوں تو پھر موزے پہن لے اور اسے چاہئے کہ دونوں موزوں کو ٹخنوں سے نیچے تک کاٹ لے۔‘‘

(صحیح البخاری:۱۵۴۲ صحیح مسلم: ۱۱۷۷، دار السلام :۲۷۹۱)

صحیح مسلم (۱۷۹) میں موزوں کوٹخنوں سے نیچے تک کاٹنے کا ذکر نہیں ہے لیکن عدم ذکر فی ذکر کو مستلزم نہیں ہے۔ یادر ہے کہ امام احمد، شیخ الاسلام ابن تیمیہ، شیخ ابن باز رحمہم اللہ جوتوں کو حالت احرام میں کاٹنا منسوخ سمجھتے ہیں۔

⑩ قبرستان میں جوتوں سمیت چلنا

سیدنا بشیر بن خصاصیہؓ کہتے ہیں کہ میں جوتوں سمیت قبرستان میں چل رہا تھا، اچانک ایک آدمی نے میرے پیچھے سے آواز لگائی کہ اے جو تیاں پہنے والے! جوتے اتار دو۔

(ابوداود:۳۲۳۰، وسنده صحیح)

اگر قبرستان میں کانٹے وغیرہ ہوں تو پھر جوتے پہن کر چل سکتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔

بعض دلائل سے جوتوں سمیت قبرستان میں چلنے کا جواز ثابت ہوتا ہے مثلاً حدیث میں آتا ہے کہ قبر میں مدفون آدمی لوگوں کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔

(صحیح بخاری: ۱۳۳۸ صحیح مسلم:۲۸۷۰)

معلوم ہوا کہ قبرستان میں جوتوں سمیت چلنا جائز ہے لہذا بعض علماء کا اسے مکروہ یا ممنوع قرار دینا صحیح نہیں ہے۔

⑪ اونچی ایڑی والی جوتی پہننا

دیکھا دیکھی یہ عام ہورہا ہے کہ عورتیں اس قد راونچی ایڑی والی جوتی پہنتی ہیں کہ آدمی دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے کہ پتا نہیں یہ عورت کیسے چلتی ہے؟ حالانکہ جوتا پہنے کا مقصد یہ ہے کہ کانٹوں وغیرہ سے پاؤں محفوظ رہیں یا آدمی آسانی سے چل پھر سکے مگر اونچی ایڑی والی جوتی میں رقم کی بھی فضول خرچی ہے کیونکہ ایسی جوتی قدرے مہنگی ہوتی ہے اور پھر اس میں تصنع کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔ اس کے متعلق سیدنا ابوسعید الخدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں ایک عورت تھی جو کہ پست قامت تھی اور یہ ایسی دوعورتوں کے ساتھ جارہی تھی جو طویل القامت تھیں تو اس عورت نے لکڑی کے دو پاؤں (جوتی نما) بنوائے اور ایک سونے کی انگوٹھی اور اس میں مشک بھر دی۔ پھر یہ دونوں طویل القامت عورتوں کے ساتھ چل رہی تھی تو عام طور پر اسے پہچانا نہیں گیا۔

(صحیح مسلم ۲۳۵۲)

اس حدیث کی تشریح میں علامہ نووی فرماتے ہیں کہ ’’اس حدیث میں جو عورت کا لکڑی کے پاؤں لگا کر چلنے کا ذکر ہے جس کی وجہ سے وہ دو لمبی عورتوں کے درمیان نہیں پہچانی گئی۔ ہماری شریعت میں اس کا یہ حکم ہے کہ اگر اس کا منشاء صیح اور مقصود شرعی ہو ، تا کہ وہ اپنے آپ کو چھپائے اور اس کو کوئی پہچان نہ سکے اور اذیت نہ پہنچا سکے تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر ایسا کرنے کا منشاء بڑائی بتلانا اور اپنے آپ کو کامل عورتوں کے مشابہ ثابت کرنا یا لوگوں کو دھوکا دینا مقصود ہے تو ایسا کرنا حرام ہے۔‘‘

شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’اونچی ایڑی کم از کم کراہت کا حکم رکھتی ہے کیونکہ اس میں دھوکا ہے، عورت دراز معلوم ہوتی ہے جبکہ وہ ایسی نہیں ہوتی ۔ دوسری وجہ ہے کہ اس میں عورت کے گرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ ڈاکٹروں کی رائے میں ایسی جوتی پہنا صحت کے لئے نقصان دہ ہے۔‘‘

(فتاوی برائے خواتین ص ۲۷۵-۲۷۶)

نیز یہ بھی یادر ہے کہ عورت کو چھپ کر رہنے کا حکم دیا گیا ہے اونچی ایڑی والی جوتی پہن کر عورت خود بخو د غیروں کی نظروں کا شکار بنتی ہے۔

⑫ جوتے مار کر کسی کو سزا دینا

جب کوئی شراب پینے والا (حرمت شراب کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام ؓ کو اسے مارنے کا حکم دیتے پھر کوئی ان میں سے اپنے ہاتھ سے مارتا، کوئی جوتے سے اور کوئی کپڑے سے۔

(صحیح البخاری: ۶۷۷۷)

بعض دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شراب پینے والے کو جوتے اور چھڑی سے سزا دیتے۔

(صحیح البخاری: ۶۷۷۶)

معلوم ہوا کہ امور شریعت کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی کو بطور سزا جوتے مارنا صحیح ہے۔

⑬ خوبصورت جوتا پہنا تکبر کی علامت نہیں ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

وہ آدمی جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہو، ایک آدمی نے کہا کہ بے شک آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کا جوتا اچھا ہو، آپ نے فرمایا:

بے شک اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر تو حق کو ٹھکرا دینا ہے اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔

(صحیح مسلم:۹۱، دارالسلام : ۲۶۵)

معلوم ہوا کہ خوبصورت جوتا پہنا بالکل صحیح ہے صرف یہ خیال رکھا جائے کہ اس میں مال کا اسراف نہ ہو۔

⑭ بعض مقامات پر جوتے اتار دینے جائز ہیں

جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام طولی وادی پر پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

موسیٰ میں تمھارا پروردگار ہوں۔ اس وقت تم طویٰ کے مقدس میدان میں ہوا لہذا جوتے اتار لو … (طہ۱۳)

سنن الترمذی (۱۷۳۴) میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اس وقت مرے ہوئے گدھے کے چمڑے کا جوتا پہنا ہوا تھا، لیکن یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں حمید الا عرج ہے جو کہ ضعیف ہے اور امام ترمذی نے بھی اس روایت کو’’ غریب‘‘ کہا ہے۔

⑮ جوتے سمیت کھانا پینا صحیح ہے

جس روایت میں آیا ہے کہ کھانا جوتے اتار کرکھانا چاہئے وہ ضعیف ہے۔

⑯ جوتے کو حق مہر میں مقرر کرنا ثابت نہیں

بنو فزارہ کے ایک آدمی نے جوتے کو حق مہر میں باندھ کر شادی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے نکاح کو جائز (درست) قرار دیا۔

(ابن ماجہ: ۱۸۸۸ سنن الترمذی:۱۱۳)

یہ روایت عاصم بن عبید اللہ (ضعیف) کی وجہ سے ضعیف ہے۔

جب یہ روایت ہی ضعیف ہے تو پھر اس سے مسئلہ بھی ثابت نہیں ہوگا۔

علامہ عبد الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ (تحفۃ الاحوذی ۱۸۲/۲) شیخ البانی رحمہ اللہ اور شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے بھی اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔

⑰ جوتا پہن کر اذان کہنا درست ہے

دیکھئے فتاوی الدین الخالص (۲۳۰/۳)

⑱ جمرات کو کنکریوں کے بجائے جوتے مارنا؟

بعض لوگ حج یا عمرہ کرتے ہوئے جمروں کو کنکریاں مارنے کے بجائے جوتے مارنا شروع کر دیتے ہیں ایسا کرنا درست نہیں ہے بلکہ بعض علماء نے اسے بدعت کہا ہے۔

دیکھئے السلسلۃ الضعیفۃ (۴۱۱/۲، ج ۹۸۰)

⑲ اگر جوتا الٹا پڑا ہو تو کیا ہوگا ؟

بعض لوگ جب جوتے کو الٹا پڑا دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اسے سیدھا کر دو۔ ایسا کرنے کی وجہ یہ بتلاتے ہیں کہ اگر جوتا الٹا پڑا ہوتو یہ نحوست کی علامت ہے اور اس سے رزق میں تنگی آجاتی ہے۔ یہ شیطانی وسوسہ ہے جس کا قرآن وحدیث میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ہاں البتہ اُسے سیدھا ضرور کر دینا چاہئے کہ طبیعت ناگواری محسوس کرتی ہے۔

⑳ عوام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب

جوتے کا جو عکس مشہور ہے، صحیح حدیث اور آثار سلف صالحین سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

وما علينا إلا البلاغ

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے