جنگ صفین کے متنازعہ واقعات حقائق اور تجزیہ

مقدمہ

گزشتہ تحاریر میں ہم نے مشہور تاریخی کتاب "تاریخ طبری” میں موجود دروغ گو اور کذاب راویوں پر تفصیل سے بات کی۔ خاص طور پر جنگ جمل و صفین کے واقعات پر روشنی ڈالی گئی، جہاں طبری نے ابو مخنف سے روایت کی۔ اس تحریر میں ابو مخنف لوط بن یحیی کی تین مشہور روایات کا تجزیہ پیش کیا جا رہا ہے۔ اس تحقیق سے نہ صرف ان تاریخی واقعات کی حقیقت واضح ہوگی بلکہ ان راویوں کی چالاکیوں اور جعلسازی کے طریقے بھی سامنے آئیں گے۔

اہم موضوعات

  • جنگ صفین کے بعد "تحکیم” کا واقعہ
  • ثالثوں کے فیصلے اور وضاحت طلب امور
  • جنگ جمل و صفین کا پس منظر
  • صحابہ کرام پر الزامات کا جائزہ

جنگ جمل و صفین: پس منظر

حضرت علیؓ کے دورِ خلافت میں امت میں اختلاف حضرت عثمانؓ کے قاتلوں سے قصاص کے مسئلے پر ہوا۔

حضرت معاویہؓ کا موقف:

وہ اور ان کے ساتھیوں کا مطالبہ تھا کہ حضرت علیؓ خلافت کی بیعت قبول کرنے سے پہلے قاتلانِ عثمانؓ سے قصاص لیں۔

حضرت علیؓ کا موقف:

ان کا کہنا تھا کہ پہلے بیعت کی جائے اور بعد میں قصاص لیا جائے گا تاکہ سیاسی حالات سازگار ہوں۔

قاتلینِ عثمانؓ (سبائی) نے ان دونوں گروہوں میں مزید اختلافات پیدا کیے، جس کے نتیجے میں جنگ جمل اور جنگ صفین جیسے سانحات پیش آئے۔

جنگ صفین

صفین کے دوران جب لڑائی زوروں پر تھی، حضرت معاویہؓ نے حضرت علیؓ کو قرآن کے ذریعے صلح کی دعوت دی، جو حضرت علیؓ نے قبول کی۔ اس پر دونوں طرف جنگ بندی کا اعلان ہوا۔

ابو مخنف کی روایات کی حقیقت

ابو مخنف کی بیان کردہ روایتوں میں حضرت معاویہؓ اور حضرت عمرو بن العاصؓ پر قرآن کو دھوکے کے طور پر نیزوں پر بلند کرنے کا الزام ہے۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ حضرت علیؓ اپنی فوج کو جنگ جاری رکھنے پر اصرار کرتے رہے، مگر ان کے ساتھیوں نے ان کا ساتھ نہ دیا اور بالآخر تحکیم پر مجبور ہو گئے۔

حوالہ: تاریخ طبری، اردو ایڈیشن، دارالاشاعت کراچی، جلد 3، صفحات 620 تا 650

تحکیم کے بعد کیا ہوا؟

ثالثوں کا تقرر

  • حضرت علیؓ کی جانب سے: حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ
  • حضرت معاویہؓ کی جانب سے: حضرت عمرو بن العاصؓ

یہ دونوں ثالثوں کو قرآن و سنت کی روشنی میں فیصلہ کرنے کا پابند بنایا گیا۔

تحکیم کی شرائط

  • دونوں گروہوں کو اہلِ ایمان تسلیم کیا گیا۔
  • ثالثوں کو فیصلہ کرنے میں مکمل آزادی دی گئی۔
  • فیصلہ تحریری شکل میں ہونا طے پایا۔
  • رمضان کے مہینے میں فیصلہ کا اعلان کیا جانا تھا۔

تاریخی روایتوں کی حقیقت

ابو مخنف اور دیگر سبائی راویوں نے یہ افواہ پھیلائی کہ ثالثوں نے فیصلہ کے دوران ایک دوسرے پر دھوکہ دیا۔ اس کے برعکس حقیقی شرائط اور نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ دونوں گروہوں کے درمیان کشیدگی کم کرنے اور امن قائم کرنے میں کامیاب رہا۔

وضاحت طلب امور

  • حضرت معاویہؓ کی خلافت کا دعویٰ: یہ دعویٰ کہ حضرت عمرو بن العاصؓ نے حضرت معاویہؓ کو خلیفہ قرار دیا، جھوٹا معلوم ہوتا ہے کیونکہ حضرت معاویہؓ نے کبھی خلافت کے لیے بیعت نہیں لی۔
  • تحریری فیصلہ کا فقدان: معاہدے میں فیصلہ تحریری شکل میں ہونے کی شرط تھی، مگر روایات میں اسے تقریروں کی شکل میں دکھایا گیا۔
  • جنگ بندی کے بعد کا رویہ: اگر حضرت معاویہؓ کو خلافت پر مقرر کیا گیا تھا تو انہوں نے بیعت کیوں نہیں لی؟ اور حضرت علیؓ نے دوبارہ جنگ کیوں نہ کی؟

ثالثوں کی شخصیت پر اعتراضات کا جائزہ

  • حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ: ان پر مغفل اور ناسمجھ ہونے کا الزام لگایا گیا، حالانکہ آپ ایک مدبر اور زیرک صحابی تھے جنہیں نبی اکرم ﷺ اور خلفائے راشدین نے اہم ذمہ داریاں سونپی تھیں۔
  • حضرت عمرو بن العاصؓ: حضرت عمرو بن العاصؓ پر یہ الزام لگایا گیا کہ انہوں نے دھوکہ دہی سے حضرت معاویہؓ کو خلافت پر برقرار رکھا۔ حالانکہ تاریخ کے مستند ذرائع سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ فتنہ کو ختم کرنے کی نیت سے ثالث بنے تھے اور ان کا مقصد صرف امن قائم کرنا تھا۔

قرآن کے نیزوں پر بلند کرنے کا الزام

یہ دعویٰ کہ حضرت عمرو بن العاصؓ کے مشورے پر حضرت معاویہؓ نے قرآن کو نیزوں پر بلند کیا، ابو مخنف کی گھڑی ہوئی روایت ہے۔
حوالہ: تاریخ ابن کثیر، جلد 8، صفحہ 131 کے مطابق یہ اقدام صلح کی دعوت کے لیے کیا گیا تھا، نہ کہ دھوکہ دینے کے لیے۔

غور طلب نکات

  • صحابہ کرام پر عائد کردہ الزامات سبائی راویوں کی گھڑی ہوئی داستانیں ہیں۔
  • صحابہ کرام کے اختلافات شریعت کے دائرے میں تھے اور ان کے درمیان ادب و احترام برقرار رہا۔
  • شیعہ کتب، جیسے "نہج البلاغہ”، میں حضرت علیؓ کے حضرت معاویہؓ کے بارے میں نرم اور باوقار رویے کا ذکر موجود ہے۔

حوالہ: نہج البلاغہ، جلد 2، صفحہ 114

اختتامیہ

یہ واضح ہے کہ جنگ صفین اور تحکیم سے متعلق ابو مخنف اور دیگر سبائی راویوں کی کہانیوں کا مقصد صحابہ کرام کے درمیان اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اور ان کی کردار کشی کرنا تھا۔ تحقیق کے بعد یہ ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ نے ہر معاملے میں دین کے اصولوں کو پیش نظر رکھا اور ان کے فیصلے امت کے بہترین مفاد میں تھے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے