حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے باغوں کی جانب گئے۔ اتفاق سے ہمارا گزر ایک باغیچہ پر سے ہوا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے دیکھ کر فرمایا یہ باغیچہ کتنا عمدہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جنت میں تجھے جو باغیچہ ملے گا وہ اس سے بہتر ہوگا۔ حتی کہ آپ سات باغوں پر سے گزرے اور ہر بار یہی کہتے رہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رونے لگے۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سوال کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کیوں رو رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا اس قوم کے سینوں میں کینہ بھرا ہوا ہے جسے تجھ سے ظاہر نہیں کرتے۔ اور میری وفات تک یہی ہوتا رہے گا۔
[ميزان الاعتدال : 314/7، 315 و اخرجه ابن جوزي فى العلل 243/1، 244]
یونس بن خباب الاسیدی الکوفی :
اس روایت کا راوی یونس بن خباب ہے۔ اس کی روایات ترمذی، نسائی ابوداؤد اور ابن ماجہ میں پائی جاتی ہیں۔ ابن عدی کا بیان ہے کہ یہ رافضی تھا۔
عباد بن عباد کا بیان ہے کہ میں یونس بن خباب کے پاس گیا۔ اور اس سے عذاب قبر کی حدیث دریافت کی۔ اس نے حدیث بیان کی اور پھر کہنے لگا کہ اس حدیث میں ایک جملہ اور بھی تھا۔ جو میں نے ناصیوں سے چھپا لیا ہے۔ میں نے دریافت کیا وہ جملہ کیا تھا۔ اس نے جواب دیا کہ قبر میں یہ بھی سوال ہوگا کہ تیرا ولی کون ہے ؟ اگر مرنے والے نے یہ جواب دیا کہ وہ علی رضی اللہ عنہ ہیں تو نجات پا جائے گا۔ (جب ہی تو آج کل ہمارے سنی بھائی کہتے ہیں جس کا کوئی پیر نہیں اس کا پیر شیطان ہوتا ہے)۔
عباد کہتے ہیں میں نے اس پر کہا کہ نے ہم تو اپنے باپ دادا سے ایسی بات نہیں سنی تھی۔ اس نے سوال کیا تو کہاں کا باشندہ ہے، میں نے جواب دیا بصرہ کا۔ اس پر بولا : تو تو عثمانی خبیث ہے، عثمان رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہے۔ حالانکہ عثمان نے حضور کی دو بیٹیوں کو قتل کر دیا تھا۔ عباد کہتے ہیں میں نے کہا جب ایک کو قتل کر چکے تھے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دوسری بیٹی کا نکا ح کیوں فرمایا ؟ تو یہ چپ ہو گیا۔
یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں کہ یونس کذاب ہے یحیی بن معین کا بیان ہے کہ یہ بد ترین انسان تھا۔ ابن حبان کہتے ہیں اس سے روایت لینا بھی حلال نہیں۔ نسائی کا بیان ہے کہ ضعیف ہے دارقطنی کہتے ہیں یہ ایک بد ترین انسان تھا غالی شیعہ ہے۔ بخاری کا قول ہے منکر الحدیث ہے۔
[ميزان الاعتدال : ج 4، ص479۔ كتاب الضعفاء والمتروكين للنسائي ص107۔ كتاب الضعفاء والمتروكين للدارقطني، ص : 181]