جنابت کے احکام اور طہارت کے مسائل

جنابت کے احکام اور اس سے متعلقہ مسائل

جنابت کے وقت غسل فرض ہونے کی صورتیں

اسلام میں بعض حالتوں میں غسل فرض ہو جاتا ہے۔ ان میں درج ذیل صورتیں شامل ہیں:

  • منی جوش کے ساتھ خارج ہو (اس میں احتلام بھی شامل ہے)
  • میاں بیوی کے درمیان صحبت کے بعد
  • حیض (ماہواری) کے ختم ہونے پر
  • نفاس (بچے کی پیدائش کے بعد کا خون) کے بند ہونے پر

صحبت کے بعد غسل جنابت کا حکم

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان ایک مسئلہ زیر بحث آیا کہ آیا صرف دخول سے غسل فرض ہو جاتا ہے یا انزال (منی کا اخراج) بھی شرط ہے؟

سیّدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اس بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب مرد، عورت کی چار شاخوں کے درمیان بیٹھ جائے اور اس کا محل ختنہ عورت کے محل ختنہ کے ساتھ مس کرے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔‘‘
(مسلم، الحیض، باب نسخ (الماء من الماء) ووجوب الغسل بالتقاء الختانین، ۹۴۳)

اسی مضمون کی ایک اور حدیث میں ہے:
’’جب تم عورت کی چار شاخوں کے درمیان بیٹھ کر صحبت کرو تو تم پر غسل واجب ہو گیا۔ اگرچہ منی نہ نکلے۔‘‘
(بخاری، الغسل، باب اذا التقی الختانان، ۱۹۲، مسلم، الحیض، ۷۸(۸۴۳))

نتیجہ:

صرف شرمگاہوں کے آپس میں ملنے سے بھی غسل واجب ہو جاتا ہے، انزال شرط نہیں۔

عورت کا محتلم ہونا

ام المؤمنین سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:
’’اے ﷲ کے رسول! کیا عورت پر غسل ہے جب کہ اس کو احتلام ہو؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ہاں، جب پانی (یعنی منی کا نشان) دیکھے۔‘‘
ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: ’’کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ہاں (ہوتا ہے) تیرا داہنا ہاتھ خاک آلود ہو۔‘‘
(بخاری، الغسل، باب اذا احتلمت المراۃ، ۲۸۲۔ مسلم، الحیض، باب وجوب الغسل علی المراۃ بخروج المنی منھا، ۳۱۳)
(نوٹ: آخری جملہ محاورے کے طور پر ہے، اس میں بددعا کا مفہوم نہیں)

احتلام کی کیفیت اور غسل کا حکم

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے شخص کے متعلق پوچھا گیا جو تری کو تو دیکھتا ہے لیکن احتلام یاد نہیں، تو آپ نے فرمایا:
’’وہ غسل کرے گا۔‘‘
اور جسے احتلام یاد ہو مگر تری (یعنی منی) نہ ملے، تو فرمایا:
’’اس پر کوئی غسل نہیں۔‘‘
(ابو داؤد، الطھارۃ، الرجل یجد البلۃ فی منامہ، ۶۳۲)

نتیجہ:

اگر منی کا نشان نظر آئے تو غسل واجب ہے۔
اگر صرف خواب یاد ہو اور نشان نہ ہو تو غسل فرض نہیں۔

جنبی کے بالوں سے متعلق حکم

ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:
’’میں اپنے بالوں کو مضبوط گوندھتی ہوں، کیا غسل جنابت یا حیض کے وقت کھولا کروں؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’نہیں، تین لپ پانی سر پر ڈالنا کافی ہے، پھر سارا بدن دھو لینا چاہیے۔‘‘
(مسلم، الحیض، باب حکم ضفائر المغتسلۃ۸۵۔ ۰۳۳)

ایک اور روایت میں ہے:
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو خبر ملی کہ عبد ﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہ عورتوں کو غسل کے لیے بال کھولنے کا کہتے ہیں، تو فرمایا:
’’ابن عمرو پر تعجب ہے، وہ عورتوں کو تکلیف دیتے ہیں، انہیں تو سر منڈوانے کا حکم دے دینا چاہیے۔ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن میں غسل کرتے اور میں تین چلو سے زیادہ پانی نہیں ڈالتی تھی۔‘‘
(مسلم، الحیض، باب حکم ضفائر المغتسلۃ، ۱۳۳)

نتیجہ:

غسل جنابت کے لیے بال کھولنا ضروری نہیں۔
غسل حیض کے لیے بال کھولنا بہتر ہے، جیسا کہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اپنے بال کھولو اور غسل کرو۔‘‘
(ابن ماجہ، الطھارۃ، باب فی الحائض کیف تغتسل، ۱۴۶۔ بوصیری: اس کے راوی ثقہ ہیں)

جنبی سے ملاقات یا تعلقات

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ایک دن میں جنابت کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا، آپ نے میرا ہاتھ پکڑا۔
میں چپکے سے نکل کر گھر جا کر غسل کیا اور واپس آیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’اے ابو ہریرہ! کہاں گیا تھا؟‘‘
میں نے وجہ بتائی تو آپ نے فرمایا:
’’سبحان اﷲ، تحقیق مومن ناپاک نہیں ہوتا۔‘‘
(بخاری، الغسل، باب عرق الجنب، وان المسلم لا ینجس، ۳۸۲۔ مسلم، الحیض، باب الدلیل علی ان المسلم لا ینجس، ۱۷۳)

وضاحت:

مومن حقیقی طور پر ناپاک نہیں ہوتا۔
جنابت ایک حکمی نجاست ہے، حسی نجاست نہیں۔
جنبی سے میل جول، بیٹھک، بات چیت اور کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں۔

مذی کے نکلنے پر غسل کا حکم نہیں

سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہیں مذی کثرت سے آتی تھی، تو انہوں نے سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھنے کو کہا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر مذی خارج ہو تو شرمگاہ دھو لو اور وضو کرو۔‘‘
(بخاری، الوضوء، باب من لم یر الوضوء الامن المخرجین، ۸۷۱۔ مسلم، الحیض، باب المذی، ۳۰۳)

اور فرمایا:
’’جہاں مذی کپڑے پر لگی ہو، وہاں ایک چلو پانی چھڑک لینا کافی ہے۔‘‘
(ابو داؤد، الطھارۃ، باب فی المذی، ۰۱۲۔ ترمذی، الطھارۃ، باب فی المذی یصیب الثوب، ۵۱۱۔ امام ترمذی: حسن صحیح)

مذی، منی، اور ودی کا فرق

  • مذی: شہوت کے وقت ذکر کے سرے پر نمودار ہونے والا چپک دار پانی۔
  • منی: جوش اور لذت کے ساتھ خارج ہونے والا سفید مادہ، جس سے انسان پیدا ہوتا۔ اس کے اخراج پر غسل فرض ہے۔
  • ودی: پیشاب کے بعد یا پہلے خارج ہونے والا گاڑھا سفید پانی۔ اس کے بعد غسل واجب نہیں۔

سیلانِ رحم سے غسل فرض نہیں

جن عورتوں کو لیکوریا (سفید رطوبت) کی شکایت ہو، ان پر غسل واجب نہیں۔
وہ باقاعدہ طور پر نماز ادا کر سکتی ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1