الْحَدِيثُ الرَّابِعُ: عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ: { سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الْجُمُعَةِ؟ قَالَ: نَعَمْ } وَزَادَ مُسْلِمٌ ” وَرَبِّ الْكَعْبَةِ ” .
محمد بن عباد بن جعفر بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا؟ انھوں نے کہا: جی ہاں۔
مسلم نے یہ اضافہ کیا ہے: ربِ کعبہ کی قسم! (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے)۔
(200) صحيح البخارى، كتاب الصوم، باب صوم يوم الجمعة ، ح: 198٤ ، 1985 – صحيح مسلم، كتاب الصيام، باب كراهة صيام يوم الجمعة منفرداً، ح: 1143، 1144 .
شرح الحديث:
اس سے مراد یہ ہے کہ وہ صرف جمعہ کے دن کا روزہ نہ رکھے۔ [فتح الباري لابن حجر: 233/4]
اس کراہت کی علت باقی دنوں کو چھوڑ کر جمعہ کو تعظیماً خاص کرنا ہے، اس ضمن میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: لَا تَخُصُّوا لَيْلَةَ الْجُمُعَةٍ بِقِيَامِ مِنْ بَيْنِ اللَّيَالِي ، وَلا تَخُصُوا يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِصِيَامٍ مِنْ بَيْنِ الأَيَّامِ ”دیگر راتوں کو چھوڑ کر جمعہ کی رات کو قیام کے لیے خاص مت کرو اور باقی دنوں کو چھوڑ کر جمعہ کے دن کو روزے کے لیے خاص مت کرو۔“ [صحيح مسلم: 1144]
اسی طرح ایک مرفوع روایت میں مذکور ہے: إِنَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ يَوْمُ عِيدِ ، فَلَا تَجْعَلُوْا يَوْمَ عِيْدِكُمْ يَوْمَ صِيَامِكُمْ ، إِلَّا أَنْ تَصُومُوا قَبْلَهُ اَوْ بَعْدَهُ . ”یقیناً جمعے کا دن عید کا دن ہوتا ہے، سوتم اپنی عید کے دن کو اپنے روزے کا دن مت بناؤ، ہاں یہ ہے کہ تم اس سے پہلے یا اس کے بعد (بھی ) روزہ رکھو (تو ٹھیک ہے ۔ )“ [صحيح ابن خزيمة: 2161] ۔
ام المؤمنین سیدہ جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جمعہ کے روز ان کے پاس تشریف لائے تو وہ روزہ رکھے ہوئے تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم نے کل بھی روزہ رکھا تھا؟ انھوں نے جواب دیا کہ نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم کل روزہ رکھنا چاہتی ہو؟ انھوں نے کہا: نہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر روزہ توڑ دو۔ [صحيح البخاري: 1885 ، سنن ابي داؤد: 2422] ۔
مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ صرف جمعہ کا روزہ رکھنا جائز نہیں ہے، ہاں اگر جمعرات یا ہفتے کا روزہ بھی ساتھ ملا لیا جائے تو پھر جائز ہے۔
راوى الحديث:
محمد رحمۃ اللہ معروف تابعی تھے۔ اہل مجاز میں شمار ہوتے تھے اور قبیلہ بنومخزوم سے تعلق تھا۔ سیدنا ابو ہریرہ، ابن عمر اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سماع کیا۔ اورسیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں آپ کی وفات ہوئی۔
——————
الْحَدِيثُ الْخَامِسُ: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ { لَا يَصُومَنَّ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ، إلَّا أَنْ يَصُومَ يَوْمًا قَبْلَهُ ، أَوْ يَوْمًا بَعْدَهُ } .
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: تم میں سے کوئی بھی جمعہ کے دن ہرگز روزہ نہ رکھے، ہاں اگر اس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد بھی روزہ رکھے (تو پھر ٹھیک ) ہے۔
(201) صحيح البخاري ، كتاب الصوم، باب صوم يوم الجمعة . . . ، ح: 1985. صحيح مسلم ، كتاب الصيام ، باب كراهة صوم يوم الجمعة منفرداً ، ح: 1144 .
شرح المفردات:
قبلَة أَو بَعدَهُ: یعنی جمعرات یا ہفتے کے دن کا رکھ لے۔
شرح الحديث:
یہ حدیث بھی گزشتہ حدیث کے ہی ہم معنی ہے۔ ابنِ ابی شیبہ رحمہۃ اللہ صحیح سند کے ساتھ سیدنا على رضی اللہ عنہ سے یہ روایت لائے ہیں: مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مُتَطَوّعًا مِنَ الشَّهْرِ فَلْيَصُمْ يَوْمَ الْخَمِيسِ ، وَلَا يصم يوم ا مَ الْجُمُعَةِ ، فَإِنَّهُ يَوْمُ طَعَامٍ وَ شَرَابٍ وَذِكْرٍ . ”تم میں سے جس شخص نے مہینے میں کوئی نفلی روزہ رکھنا ہو تو اسے جمعرات کا روزہ رکھنا چاہیے، اور وہ جمعہ کے دن کا روزہ مت رکھے، کیونکہ وہ کھانے پینے اور ذکر کرنے کا دن ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه: 9243]