جمعہ سے متعلق 10 اہم مسائل اور شرعی احکام

جمعہ کے متفرق مسائل

جمعہ کی فرضیت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’غلام، عورت، بچے اور بیمار کے علاوہ جمعہ پڑھنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔‘‘
(ابوداود: الصلاۃ، باب: الجمعۃ للمملوک والمرأۃ: 7601۔ امام نووی نے اسے صحیح کہا۔)

فضیلۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"جو شخص کسی شرعی عذر مثلاً بیماری یا دیگر اسباب کی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ مل کر نماز جمعہ ادا نہ کر سکے تو اسے نماز ظہر پڑھنی چاہیے۔ اسی طرح عورت، مسافر اور بادیہ نشین لوگ بھی نماز ظہر ادا کریں جیسا کہ سنت سے ثابت ہے۔”
(فتاوی اسلامیہ، اول: 135)

دیہات میں جمعہ کی مشروعیت

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
"مسجد نبوی کے بعد جو سب سے پہلا جمعہ پڑھا گیا وہ بحرین کے گاؤں جواثی میں عبدالقیس کی مسجد میں تھا۔”
(بخاری: الجمعۃ، باب: الجمعۃ فی القری والمدن: 298)
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ دیہات میں بھی جمعہ فرض ہے۔

اگر دیہات کے رہائشی جمعہ ترک کریں گے تو گناہ گار ہوں گے۔

سیدنا اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے بنو بیاضہ کی بستی ’’ھزم النبیت‘‘ (مدینہ سے ایک میل کے فاصلے پر) میں جمعہ قائم کیا، ان کے ساتھ چالیس نمازی شریک تھے۔
(أبو داود: الجمعۃ، باب: الجمعۃ فی القری: 9601۔ حاکم، امام ابن خزیمہ اور حافظ ذہبی نے اسے صحیح کہا۔)

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مکہ اور مدینہ کے درمیان رہنے والوں کو جمعہ پڑھتے دیکھتے تو کوئی اعتراض نہ کرتے۔
(عبدالرزاق 3/071، حافظ ابن حجر نے اسے صحیح کہا۔)

بارش کے دن جمعہ کی رخصت

حنین کے دن بارش ہو رہی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤذن کو حکم دیا:
’’آج اپنی، اپنی قیام گاہوں میں نماز پڑھنے کا اعلان کر دو، اور وہ جمعہ کا دن تھا۔‘‘
(أبو داود: الصلاۃ، باب: الجمعۃ فی الیوم المطیر: 7501، 9501۔ امام حاکم، امام ابن خزیمہ، امام ابن حبان اور حافظ ذہبی نے اسے صحیح کہا۔)
اس سے معلوم ہوا کہ بارش کے دن جمعہ کی نماز واجب نہیں۔

اگر بارش کی وجہ سے جمعہ ترک کیا جائے اور ظہر کی نماز پڑھی جائے تو اس میں کوئی گناہ نہیں۔

عید اور جمعہ ایک دن ہو جائے

سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"آج کے دن دو عیدیں (عید اور جمعہ) اکٹھی ہو گئی ہیں۔ جو شخص صرف عید پڑھنا چاہے تو اسے وہ کافی ہے، لیکن ہم (عید اور جمعہ) دونوں پڑھیں گے۔”
(أبو داود: الصلاۃ، باب: إذا وافق یوم الجمعۃ یوم عید: 1370۔ امام حاکم اور حافظ ذہبی نے اسے صحیح کہا۔)

سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعہ کے دن عید ہوئی، تو انہوں نے صرف نماز عید پڑھائی اور جمعہ نہیں پڑھایا۔
جب سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ بات معلوم ہوئی تو فرمایا:
"ان کا یہ عمل سنت کے مطابق ہے۔”
(نسائی، صلاۃ العیدین، باب الرخصۃ فی التخلف عن الجمعۃ لمن شھد العید: 1593، أبو داود: 1870۔ امام ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا۔)

جمعہ کے دن لباس اور وقت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اگر گنجائش ہو تو جمعہ کے لیے روزانہ استعمال ہونے والے کپڑوں کے علاوہ کپڑے بناؤ۔”
(ابن ماجہ: لإقامۃ الصلاۃ، باب: ما جاء فی الزینۃ یوم الجمعۃ: 1096، أبو داود: 1078۔ امام ابن حبان اور امام ابن خزیمہ (5671) نے اسے صحیح کہا۔)

سیّدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شدید سردی میں جمعہ کی نماز سویرے پڑھتے اور گرمی میں دیر سے۔”
(بخاری، الجمعۃ، باب اذا اشتد الحریوم الجمعۃ: 906)

جمعہ میں تشہد میں شامل ہونا

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد اللہ بن عبدالرحمن الجبرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"جس نے نماز جمعہ میں ایک رکعت سے کم حصہ پایا، اس کا جمعہ فوت ہو گیا۔ لہٰذا اسے ظہر کی چار رکعتیں پڑھنی چاہئیں۔”
(فتاوی اسلامیہ، اول: 835)

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"جو کوئی نماز جمعہ میں سجدہ یا تشہد میں آکر ملے، تو اسے جمعہ کی بجائے نماز ظہر پڑھنا ہو گی، کیونکہ جمعہ کے لیے ضروری ہے کہ کم از کم ایک رکعت ضرور پا لے۔۔۔ جو شخص جمعہ کی ایک رکعت بھی نہ پا سکے، اس کا جمعہ فوت ہو گیا، لہٰذا اسے ظہر کی نماز پڑھنی چاہیے۔”
(فتاوی اسلامیہ، اول: 145)

جمعہ سے پہلے نوافل

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس نے غسل کیا، جمعہ میں آیا، جتنی تقدیر میں تھی نماز پڑھی، خطبہ سے فارغ ہونے تک چپ رہا، پھر امام کے ساتھ نماز پڑھی، اس کے جمعہ سے گزشتہ جمعہ تک اور تین دن کے اور گناہ معاف ہو گئے۔ اور جو کنکریوں سے کھیلے، اس نے فضول کام کیا۔”
(مسلم، الجمعۃ، باب فضل من استمع و انصت فی الخطبۃ: 875)
اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ سے پہلے رکعتیں مقرر نہیں۔

بلکہ امام کے خطبہ سے پہلے جس قدر ممکن ہو، نوافل ادا کیے جائیں۔

البتہ دو رکعت ادا کرنا لازم ہے۔

بدعت: جمعہ کے بعد ظہر احتیاطی

بعض لوگ جمعہ کے بعد "ظہر احتیاطی” کی نماز پڑھتے اور دوسروں کو بھی فتویٰ دیتے ہیں، حالانکہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کا کوئی ثبوت نہیں۔

اگر یہ عمل درست ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بیان فرماتے۔

کیا بعد میں آنے والوں نے دین کی ایسی تکمیل کی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے رہ گئی تھی؟

احتیاطی نماز پڑھنے والو! اللہ سے ڈرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے نہ بڑھو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اپنی آواز بلند نہ کرو۔

جمعہ کے دن اکیلا روزہ رکھنا

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کا دن خاص طور پر روزے کے لیے اور جمعہ کی رات (جمعرات و جمعہ کی درمیانی رات) کو عبادت کے لیے مخصوص کرنے سے منع فرمایا۔
(مسلم، الصیام، باب کراھیۃ صیام یوم الجمعۃ منفردا: 1144)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1