مغربی فکر کا ارتقاء
مغربی فکر کی بنیاد قرون وسطیٰ کے عیسائی مذہبی نظریات کے خلاف بغاوت سے پڑی۔ نشاۃ ثانیہ کی تحریک نے انسانی عقل، فلسفہ، تجربے اور مشاہدے کو مذہب سے علیحدہ کرتے ہوئے زندگی کے بنیادی سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی راہ ہموار کی۔
فطری مذہب کا تصور
- ابتدا میں روایتی مذاہب کو مسترد کرتے ہوئے انسانی فطرت پر مبنی "فطری مذہب” کے فلسفے کو فروغ دیا گیا۔
- اٹھارہویں صدی میں تحریکِ تنویر نے مذہبی نظریات کو مکمل طور پر رد کر دیا اور مذہب کو دورِ جہالت کی علامت قرار دے دیا۔
- مذہب کی جگہ کائنات، سماج، اور انسان کے لیے متبادل نظریات اور فلسفے پیش کیے گئے، جو لا دینی بنیادوں پر استوار تھے۔
اسلام کے لیے چیلنج
مغربی فکر نے ایک نظام تشکیل دیا جو ہر شعبہ زندگی پر اثرانداز ہوا اور مذہب کو حیات و کائنات کی تفہیم کے بجائے تنقید کے ایک موضوع کے طور پر پیش کیا۔ یہ صورت حال اسلام کے لیے ایک بڑے فکری چیلنج کے طور پر سامنے آئی۔
علم الکلام اور اس کا کردار
علم الکلام کی تعریف
علم الکلام ایسے مباحث کا نام ہے جن میں الٰہیاتی یا اعتقادی مسائل پر جدلیاتی انداز میں بحث کی جاتی ہے۔ اس کا مقصد اسلامی عقائد کی حقانیت کو ثابت کرنا اور باطل نظریات کے اثرات کو زائل کرنا ہے۔
جدید تقاضے
علم الکلام میں روایتی مباحث کے علاوہ ایسے اصول وضع کرنے کی ضرورت ہے جن کے ذریعے:
- الحاد سے متاثر ذہنوں کو مذہب کی طرف مائل کیا جا سکے۔
- مختلف نفسیاتی اور فکری رجحانات کے تحت لوگوں کی ذہنی اصلاح ممکن ہو۔
جدید مغربی نظریات کے اثرات اور ان کا تدارک
مولانا عبدالماجد دریابادی کا تجربہ
- کتب کے اثرات: مولانا نے ایک انگریزی کتاب "Elements of Social Science” کے بارے میں لکھا کہ یہ کتاب بظاہر مذہب سے غیر متعلق تھی لیکن اس کا اصل حملہ اخلاقی اقدار اور مذہبی اصولوں پر تھا۔ (آپ بیتی، ص ۲۳۴-۲۳۶)
- نفسیاتی موضوعات کا زہر: ڈاکٹر ماڈسلی کی کتب جیسی تحریریں، جو نفسیاتی مسائل پر تھیں، غیر محسوس طریقے سے مذہب اور وحی کو نشانہ بناتی تھیں۔ (آپ بیتی، ص ۲۴۰)
- واپسی کا سفر: مولانا نے بدھ مت، ہندو فلسفہ، اور تھیوسوفی جیسے متنوع خیالات سے گزر کر اسلام کی حقانیت کو محسوس کیا۔ یہ مطالعہ ان کے ذہن میں مادی فلسفے کے بت کو توڑنے کا پہلا قدم ثابت ہوا۔ (آپ بیتی، ص ۲۴۷-۲۴۸)
- قرآن اور سیرت النبیﷺ کا مطالعہ: مولانا شبلی کی "سیرۃ النبیﷺ” نے رسول اللہ ﷺ کی شخصیت کے بارے میں مغربی مستشرقین کے منفی اثرات زائل کیے۔ (آپ بیتی، ص ۲۴۸)
- تصوف اور روحانیت کا اثر: مثنوی مولانا روم اور مکتوبات امام ربانی نے مولانا دریابادی کو شریعت اور تصوف کے ساتھ جوڑا، اور مادیت کے اثرات ختم کیے۔ (آپ بیتی، ص ۲۵۷)
اصلاح اور دعوت کے اصول
علمی و عقلی مناظرے کی حدود
جدلیاتی مناظرے بعض افراد کے لیے مفید ثابت ہو سکتے ہیں، لیکن عمومی سطح پر یہ طریقہ اکثر الٹا اثر ڈال سکتا ہے۔ اس کے بجائے، مخلصانہ اور نفسیاتی بنیادوں پر حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔
موثر شخصیات کا کردار
- اکبر الہ آبادی: طنز و مزاح کے ذریعے مولانا دریابادی کی اصلاح کی کوشش کرتے رہے۔
- مولانا محمد علی جوہر: خلوص اور جوش و جذبے کے ساتھ تبلیغ کی، جس نے دل پر اثر چھوڑا۔ (آپ بیتی، ص ۲۴۹-۲۵۰)
نتیجہ
جدید مغربی فکر کے اثرات سے متاثر افراد کی اصلاح اور اسلام کی حقانیت کو واضح کرنے کے لیے علمی و نفسیاتی اصولوں کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ مولانا دریابادی کے تجربات اس ضمن میں رہنمائی فراہم کرتے ہیں کہ اصلاح کے لیے متنوع طریقے اور حکمت عملی اپنائی جا سکتی ہے۔