جدیدیت، سائنس اور رویوں کے تضاد کا المیہ

جدیدیت اور سائنس پر اصرار

تمہاری باتیں جدیدیت پر مبنی ہیں، ہم مانتے ہیں۔
تم سائنس اور منطق کے قائل ہو، یہ بھی تسلیم۔
تم ہر چیز کا ثبوت مانگتے ہو، اچھی بات ہے۔
تمہیں مذہب اور مولویوں کی باتیں بھونڈی لگتی ہیں، ہم یہ بھی مانتے ہیں۔
تم دوسروں کو جمود پرست، جاہل اور غیر معقول کہتے ہو، ٹھیک ہے۔

لیکن مسئلہ کہاں ہے

حل کی عدم موجودگی

تم دوسروں کو غلط کہتے ہو، لیکن خود کوئی عملی حل پیش نہیں کرتے۔

غلط رویے اور انداز

تمہارا لہجہ اور رویہ اتنا سخت اور طنزیہ ہوتا ہے کہ لوگ تم سے متنفر ہو جاتے ہیں۔

علم کی کمی

تم خود سائنس کا بنیادی علم نہیں رکھتے۔

  • مثلاً، نظریۂ ارتقا پر بات کرتے ہو، لیکن نیچرل سیلیکشن کے میکانزم سے بھی لاعلم ہو۔
  • میکینکس اور لوپیٹلز رول کا ادراک نہیں رکھتے۔

تنقید کی اہمیت اور رویے کا مسئلہ

سائنس کی تبلیغ تمہارے بس کی بات نہیں۔ تم نے عام آدمی کی عزت نفس مجروح کرکے سائنس کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔
تمہارے سائنسی مباحث پتھر ہلاتے گھی کے ڈبے یا گوبر ملا ملک شیک جیسے لگتے ہیں، کیونکہ وہ غیر سائنسی اور غیر مدلل ہوتے ہیں۔
تمہارے رویے سے عام آدمی معقولات اور سائنس دونوں سے دور ہو رہا ہے۔

اعتدال اور توازن کی ضرورت

جہاں تم غلط ہو، وہاں تم سے اختلاف ہوگا۔
جہاں تم صحیح ہو، وہاں تمہارا ساتھ دیا جائے گا۔
دلیل کے بغیر کوئی بات قبول نہیں ہوگی۔

شدت پسندی کا مسئلہ

شدت پسندی دونوں طرف موجود ہے۔

  • ایک طرف وہ لوگ ہیں جو سائنس کو کفر قرار دیتے ہیں۔
  • دوسری طرف تم جیسے لوگ، جو سائنس کے نام پر غیر سائنسی رویے اپناتے ہیں۔

حقیقت ان دونوں کے درمیان ہے۔ لیکن تم لوگ یا تو زمین بوس ہو جاتے ہو یا آسمان پر اُڑنے کی بات کرتے ہو۔

اعتراف اور مشورہ

تم مولوی بننے کے قابل ہو نہ سائنس دان۔
تمہیں چاہیے کہ اپنا رویہ بدلو اور عامی کی سطح پر آ جاؤ۔
بغیر علم کے کسی بھی شعبے میں رائے دینے سے گریز کرو۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1