مغربی تحریک تنویر اور تصور علم
کسی بھی تہذیب کے علم کا تصور اس کے اہداف و مقاصد کا اعلیٰ ترین اظہار ہوتا ہے۔
مغربی تحریک تنویر کا آغاز پاپائیت کے ردعمل میں ہوا، جہاں وحی اور مابعد الطبیعات کو مسترد کرتے ہوئے "انسانی ذہن” کو علم کا واحد منبع قرار دیا گیا۔
جدیدیت نے سائنسی طریقہ کار کو جنم دیا، جو ابتدا میں صرف مادی اشیاء اور فطری قوانین کو سمجھنے کے لیے استعمال ہوا، لیکن بعد میں انسانی علوم کے تمام شعبوں تک پھیل گیا۔
سائنسی طریقہ کار کی بنیاد
سائنسی طریقہ کار دو اصولوں پر مبنی ہے: مشاہدہ اور تجربہ۔
- مشاہدہ: براہِ راست (چاند، سورج کی گردش) یا بالواسطہ (الیکٹران کے اثرات کے ذریعے موجودگی کا یقین)۔
- مشاہدے کی بنیاد پر مفروضہ قائم کرکے تجربات کے ذریعے اس کی تصدیق کی جاتی ہے۔
سائنسی ترقی کے نتیجے میں مغرب میں مادی ترقی نے ہر شعبے کو متاثر کیا اور دیگر علوم کے ماہرین نے بھی اپنی تحقیقات میں سائنسی اصول اپنانے شروع کیے۔
تاریخ اور سائنسی طریقہ کار کی پیچیدگیاں
تاریخ ماضی کے واقعات کا مجموعہ ہے، جن تک رسائی دو ذرائع سے ممکن ہے:
- آثارِ قدیمہ (کھدائی کے دوران برآمد شدہ چیزیں)
- خبریں (تحریری یا زبانی روایات)
عینی شاہدین کی کمی تاریخ کے قابلِ اعتماد ہونے کو متاثر کرتی ہے۔
اسلامی تاریخ، خاص طور پر دورِ نبوی ﷺ, اس معاملے میں منفرد ہے کیونکہ اس میں عینی شاہدین کی بڑی تعداد اور ان کے کردار و سیرت کی تفصیلات محفوظ ہیں۔
نظریہ ارتقاء اور مذہب کا تصور
ڈارون کا نظریہ ارتقاء اور اس کے اثرات
نظریہ ارتقاء نے مغربی مفکرین کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ مذہب انسانی ذہن کی پیداوار ہے۔
- پہلا نقطہ نظر: خدا کا تصور انسانی تخیل کا نتیجہ ہے۔
- دوسرا نقطہ نظر: ابتدا میں کئی خداؤں کا تصور تھا جو وقت کے ساتھ ایک خدا کے تصور میں بدل گیا۔
جدید سائنس نے "ایک خدا” کے تصور کو بھی مسترد کر دیا۔
مذہب کے متعلق مغربی محققین کے خیالات
مذہب کے مطالعے میں عینی شاہدین کی عدم دستیابی اور بنیادی ماخذ کی کمی کی بنا پر محض قیاس آرائیوں پر انحصار کیا جاتا ہے۔
ارتقاء پر یقین رکھنے والے محققین کے لیے مذہب کا ہر تصور انسانی ذہن کی تخلیق سمجھا جاتا ہے۔
سائنس کے پاس ایسا کوئی آلہ نہیں جو یہ ثابت کر سکے کہ کسی عمل یا تصور کی بنیاد الہامی تھی یا انسانی۔
مذہب کے اتفاقات پر مختلف نظریات
دنیا کے مختلف حصوں میں ایک جیسے مذہبی تصورات (جیسے خدا، جنت، جہنم، فرشتے) کا پایا جانا:
- وحی کو ماننے والے: یہ اتفاقات الہامی رہنمائی کا ثبوت ہیں۔
- وحی کے منکرین: یہ سب انسانی ذہن کے اتفاقات ہیں۔
جدیدیت کے مذہبی تصورات پر تنقید
مغربی محقق کیرن آرمسٹرانگ کی کتاب A History of God میں بیان:
"انسانوں نے ابتدا میں ایک خدا کا تصور تخلیق کیا جو زمین و آسمان کا مالک تھا، لیکن انسان اور خدا کا تعلق ہمیشہ لازم و ملزوم رہا۔”
جدید سائنسی دور بھی انسان کو ماوراء حقیقت کی جستجو سے بے پرواہ نہیں کر سکا۔
کائنات میں موجود بے شمار اتفاقات ایک "ذہین ہستی” کے وجود کی گواہی دیتے ہیں۔
خدا کا تصور انسانی فطرت کا حصہ ہے اور انسان کے خاتمے تک قائم رہے گا۔