جان بوجھ کر ضعیف روایات پر عمل کرنے والوں کا انجام
تحریر: قاری اسامہ بن عبدالسلام حفظہ اللہ

 قرآن کریم سے رہنمائی

(1) جھوٹ گھڑنے اور اللہ کی طرف منسوب کرنے کی سخت وعید

اللہ تعالیٰ نے جھوٹ گھڑنے اور اسے دین کا حصہ بنانے پر سخت وعید سنائی ہے:

وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ ٱلْكَذِبَ هَٰذَا حَلَٰلٌ وَهَٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوا عَلَى ٱللَّهِ ٱلْكَذِبَ ۚ إِنَّ ٱلَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى ٱللَّهِ ٱلْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ
(النحل: 116)
"اور مت کہو اپنی زبانوں کے گھڑے ہوئے جھوٹ کو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام، تاکہ اللہ پر جھوٹ باندھو، جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ کامیاب نہ ہوں گے۔”

(2) بغیر علم کے بات کرنا ممنوع ہے

وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ ٱلسَّمْعَ وَٱلْبَصَرَ وَٱلْفُؤَادَ كُلُّ أُو۟لَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـُٔولًۭا
(الإسراء: 36)
"اور اس چیز کے پیچھے نہ چلو جس کا تمہیں علم نہیں، بیشک کان، آنکھ اور دل، ان سب کے بارے میں سوال ہوگا۔”

جو شخص جان بوجھ کر ضعیف اور من گھڑت روایات پر عمل کرتا ہے، وہ اللہ کے ہاں سخت پکڑ میں آ سکتا ہے۔

 احادیث مبارکہ سے رہنمائی

(1) نبی ﷺ پر جھوٹ بولنے والوں پر سخت وعید

مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ
(صحیح بخاری: 1291، صحیح مسلم: 3)
"جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا، اسے چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔”

جو شخص ضعیف یا موضوع روایات کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کرتا ہے، وہ اس وعید میں آسکتا ہے۔

(2) حدیث گھڑنے کی شدت

إِنَّ كَذِبًا عَلَيَّ لَيْسَ كَكَذِبٍ عَلَى أَحَدٍ، مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ
(صحیح مسلم: 4)
"مجھ پر جھوٹ بولنا عام لوگوں پر جھوٹ بولنے کی طرح نہیں ہے، جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔”

دین میں جھوٹ بولنا عام جھوٹ سے بھی زیادہ خطرناک جرم ہے۔

(3) ضعیف اور جھوٹی احادیث کا پھیلانا منع ہے

كَفَىٰ بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ
(صحیح مسلم: 5)
"آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو بیان کرتا رہے۔”

یہ ان لوگوں کے لیے تنبیہ ہے جو تحقیق کیے بغیر ضعیف روایات بیان کرتے ہیں۔

 آثارِ سلف صالحین سے رہنمائی

(1) امام مالک (رحمہ اللہ) کا قول

لَا يُؤْخَذُ الْعِلْمُ عَنْ أَرْبَعَةٍ…
(الجرح والتعدیل: 1/28)
ضعیف اور جھوٹی روایات پھیلانے والے بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔

(2) امام احمد بن حنبل (رحمہ اللہ) کا فرمان

الضَّعِيفُ يَلْقَى اللَّهَ بِهِ ضَعِيفًا، وَالْمَوْضُوعُ يَلْقَى اللَّهَ بِهِ مُفْتَرِيًا
یہ واضح انتباہ ہے کہ ضعیف حدیث کو پھیلانے والا دین میں کمزور اور گمراہ قرار پائے گا۔

(3) امام ابن المبارک (رحمہ اللہ) کا قول

الإِسْنَادُ مِنَ الدِّينِ، وَلَوْلَا الإِسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَاءَ مَا شَاءَ
(مقدمة صحیح مسلم)
یہی وجہ ہے کہ اہلِ علم صرف صحیح اسناد والی احادیث کو اپناتے ہیں اور ضعیف روایات سے اجتناب کرتے ہیں۔

 جان بوجھ کر ضعیف احادیث پر عمل کرنے والوں کا انجام

اللہ پر جھوٹ باندھنے کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔
نبی ﷺ پر جھوٹ بولنے کی وعید میں آ سکتے ہیں۔
آخرت میں جہنم کے عذاب کے مستحق بن سکتے ہیں۔
لوگوں کو غلط دین سکھانے کے سبب گمراہی پھیلانے والے قرار پا سکتے ہیں۔

نبی ﷺ نے دین میں احتیاط کا حکم دیا ہے، اس لیے تحقیق کے بغیر کسی بھی حدیث پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔

نتیجہ

جان بوجھ کر ضعیف اور من گھڑت روایات پر عمل کرنا دین میں تحریف اور جھوٹ کو فروغ دینا ہے، جو کہ سخت ترین گناہ ہے۔
اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے تحقیق کے بغیر بات پھیلانے سے سختی سے روکا ہے۔
اہلِ علم کا طریقہ یہی رہا ہے کہ وہ صرف مستند اور صحیح احادیث کو اپناتے ہیں۔

لہذا، ہمیں چاہیے کہ دین کو صرف مستند اور صحیح احادیث سے لیں اور تحقیق کے بغیر کسی بھی ضعیف یا موضوع حدیث پر عمل نہ کریں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1