سوال: بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے کہ بلاشبہ ثابت بن قیس کی بیوی نے نبی صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! میں اس (ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ ) پر اخلاق اور دینداری کے حوالے سے کوئی ملامت نہیں کرتی ، لیکن میں اسلام میں کفر (ناشکری) کو ناپسند کرتی ہوں ۔ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی کو طلاق کا مطالبہ کرنے کی کیا ضرورت اور سبب تھا ، پس اس میں اور اس سابقہ حدیث میں کیا مناسبت اور موافقت ہے؟
جواب: یہ ناپسندیدگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی ، مذکورہ حدیث کی بعض سندوں سے یہ الفاظ ثابت ہیں کہ اس نے کہا تھا: بلاشبہ اس نے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو مردوں کی ایک جماعت کے ساتھ دیکھا تو وہ ان میں سب سے چھوٹے
(پستہ قد ) تھے لہٰذا وہ ان کو ناپسند کرنے لگی ، ان کے اخلاق اور دینداری (میں کوئی نقص اور عیب ہونے ) کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک ایسے امر کی وجہ سے جس سے اللہ نے اس کے دل میں کراہت اور نفرت پیدا کر دی ۔ پس اس طرح کی صورت حال میں ، جیسے کہ پہلے بھی گزرا ہے ، عورت کے مرد سے خلع کا مطالبہ کرنے میں کوئی حرج نہیں اور واجب ہے کہ اس کا مطالبہ پور اکیا جائے ، کیونکہ اگر اس کو ایسے شخص کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور کیا جائے گا جس کو وہ پسند ہی نہیں کرتی تو خدشہ ہے کہ وہ خودکشی کر لے گی یا اپنے گھر سے بھاگ جائے گی ۔ (مقبل بن ہادی رحمہ اللہ )