تین مقامات پر نماز جنازہ پڑھنا ثابت ہے
تحریر:شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ , پی ڈی ایف لنک

الحمد لله ربّ العالمين والصلوة والسلام على رسوله الأمين ، أما بعد :

جنازہ گاہ اور مسجد میں نماز جنازہ

تین مقامات پر نماز جنازہ پڑھنا ثابت ہے اور ممنوع نہیں ہے:
➊ جنازہ گاہ
(دیکھئے صحیح بخاری:۱۳۲۹، ۱۳۴۵، صحیح مسلم :۹۵۱)

➋ عام زمین مثلاً کھلا میدان وغیرہ ، سوائے اُس زمین کے جسے ممانعت کی دلیل نے خاص کر دیا ہے مثلاً گندگی کی جگہ وغیرہ۔
(دیکھئے صحیح مسلم:۵۲۳، اور دیگر احادیث)

➌ مسجد
(دیکھئے صحیح مسلم : ۹۷۳)

ان تین حالتوں میں سے اول الذکر (جنازہ گاہ ) میں جنازہ پڑھنا افضل ہے، کیونکہ نبی ﷺ کا عام معمول یہی رہا ہے۔

مسجد میں نماز جنازہ کے جواز کے دلائل درج ذیل ہیں:

❀ سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ
ما صلى رسول الله الله على سهيل ابن البيضاء إلا في المسجد.
رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن البیضاءؓ کا جنازہ مسجد میں ہی پڑھا تھا۔
(صحیح مسلم :۹۷۳)

❀ سیدہ عائشہؓ نے حکم دیا کہ سعد بن ابی وقاصؓ (متوفی ۵۵ھ ) کا جنازہ مسجد میں پڑھا جائے تو لوگوں نے اُن پر انکار کیا۔ الخ
(صحیح مسلم :۹۷۳)

یہاں انکار کرنے والے لوگوں سے مراد صحابہ نہیں بلکہ وہ ’’عامة جهال أو أعراب“ عام جہال یا بدو تھے۔
دیکھئے المحلی لابن حزم (۱۶۳٫۵، مسئلہ:۶۰۳)
ان لوگوں کو ام المومنین سیدہ عائشہؓ نے’’ لا علم “ قرار دیا۔
(صحیح مسلم :۹۷۳)

❀ نبی ﷺ کی ازواج مطہرات نے سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کا جنازہ مسجد میں پڑھا۔
دیکھئے صحیح مسلم (۹۷۳، دار السلام :۲۲۵۳)

❀ سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے سہیل بن البیضاء اور اُن کے بھائی (صفوان یا سہلؓ) کا جنازہ مسجد میں پڑھا تھا۔
(صحیح مسلم :۹۷۳)

❀ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ نے سیدنا عمر بن الخطابؓ کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی تھی۔
دیکھئے موطا امام مالک ( روایت یکی ا۲۳۰ ۵۴۲ وسنده صحیح)
یہ نماز جنازہ سیدنا صہیبؓ نے پڑھائی تھی۔
(دیکھئے السفن الکبری للمربعی ۵۲۴ وسند صحیح)

اور کسی صحابی سے اس فعل پر رد یا انکار ثابت نہیں لہذا معلوم ہوا کہ مسجد میں نماز جنازہ کے جواز پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اجماع ہے۔

❀ امام مالک رحمہ اللہ نے ’’باب الصلوة على الجنائز في المسجد “ کے ذریعے سے مسجد میں نماز جنازہ کی روایات ذکر کیں اور کسی قسم کی مخالفت نہیں کی۔
دیکھئے الموطأ ( روایۃ یکی ۲۲۹/۱ ۲۳۰)
یہ اس کی دلیل ہے کہ امام مالک مسجد میں نماز جنازہ جائز سمجھتے تھے۔
تنبیه : امام مالک سے مسجد میں نماز جنازہ کی مخالفت والی روایت( سنن الترمذی:۱۰۳۳) موطا امام کی تبویب کی رو سے منسوخ ہے۔

❀ امام شافعی رحمہ اللہ بھی مسجد میں نماز جنازہ کے قائل تھے۔
دیکھئے کتاب الام ( ج 2 ص ۲۱۱)

❀ امام ابو داود رحمہ اللہ نے فرمایا:
رأيت أحمد مالا أحصي يصلي على الجنائز في المسجد۔
میں نے بے شمار مرتبہ دیکھا کہ (امام) احمد (بن حنبل رحمہ اللہ ) مسجد میں نماز جنازہ پڑھتے تھے ۔
(مسائل ابی داود ص ۱۵۷)

❀ امام بخاری نے ’’باب الصلوة على الجنائز بالمصلى والمسجد“ کے ذریعے سے مسجد میں نماز جنازہ کے جواز کی طرف اشارہ کیا ہے۔
دیکھئے صحیح بخاری ( قبل ح ۱۳۲۷)

❀ مسجد میں نماز جنازہ کا جائز ہونا جمہور کا مسلک ہے۔
دیکھئے فتح الباری ( ج ۳ ص ۱۹۹ تحت ح ۱۳۲۷-۱۳۲۹) اور شرح صحیح مسلم للنووی (۴۰/۷ تحت ح۹۷۳)

◈ عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ نے فرمایا:
ابوبکرؓ کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی گئی۔
(طبقات ابن سعد ۲۰۷٫۳ من طریق عبدالعزیز بن محمد عن ہشام عن ابیہ وسندہ صحیح الی عروہ رحمہ اللہ)

یہ روایت مرسل ہے لیکن اس سے دو باتیں ظاہر ہیں:

۱۔۔ عروہ رحمہ اللہ مسجد میں نماز جنازہ کو جائز سمجھتے تھے۔
۲۔۔ عروہ رحمہ اللہ اپنے نانا سیدنا ابو بکرؓ ان کے بارے میں دوسرے لوگوں سے زیادہ جانتے تھے اور اس کے مقابلے میں کوئی صحیح روایت نہیں کہ سیدنا ابو بکرؓ کی جنازہ مسجد کے باہر پڑھی گئی تھی ۔ واللہ اعلم
تاہم یہ روایت مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے لہذا میں نے اُسے اپنے دلائل میں ذکر نہیں کیا۔

❀ مکه مکرمه (بیت اللہ) اور مدینہ نبویہ (مسجد نبوی علی صاحبہا الصلوۃ والسلام ) میں نماز جنازہ دونوں مسجدوں میں پڑھی جاتی ہے، جس کا ہم نے بار بار مشاہدہ کیا ہے اور مکہ مدینہ میں حجاج کرام معتمرین اور عام مسلمین بھی اس نماز جنازہ میں شامل ہوتے ہیں۔ خلاصتہ اتحقیق یہ ہے کہ اگر کوئی عذر یا سبب ہو تو مسجد میں نماز جنازہ جائز ہے، چاہے میت مسجد میں ہو یا مسجد سے باہر ہو، دونوں حالتوں میں جائز ہے اور مکروہ نہیں ہے۔ جو لوگ مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے سے منع کرتے ہیں اور اسے مکروہ تحریمی یا مکروہ تنزیہی قرار دیتے ہیں، ان کے شبہات کے جوابات درج ذیل ہیں:
◈ سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ جس شخص نے مسجد میں نماز جنازہ پڑھی ’’فلا شي له“ اس کے لئے ( یعنی اُس پر)کوئی چیز نہیں ہے۔
(مسند احمد۴۵۵/۲ ح ۹۸۶۵)
ایک روایت میں ”فلا شئ علیہ‘‘ اس پر کوئی چیز ( یعنی کوئی گناہ وغیرہ ) نہیں ہے۔
(سنن ابی داود: ۳۱۹۱)

اس روایت کی سند دو وجہ سے ضعیف ہے:

اول :

صالح بن نبهان مولی التوامہ جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
اُس پر امام ابو زرعہ الرازی ، ابو حاتم الرازی ، نسائی ، ابن الجارود، الساجی اور ابو العرب وغیر ہم نے جرح کی اور امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا :
’’صالح مولى التوأمة كذاب “
صالح مولی التوامہ کذاب ہے۔
(کتاب الضعفاء لابي زرعة الرازی ص ۴۶۱ وسندہ صحیح)

اگر کوئی کہے کہ ’’صالح مذکور پر جرح اُس کے اختلاط کی وجہ سے ہے لہذا اُس کے اختلاط سے پہلے والی روایات صحیح یا حسن ہیں اور یہ روایت صالح مولی التوامہ کے اختلاط سے پہلے کی ہے۔‘‘
تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا:
و ابن أبي ذئب سمع منه أخيراً، يروي عنه مناكير
اور ابن ابی ذئب نے اُس سے آخر میں (یعنی اختلاط کے بعد ) سنا تھا، وہ اُس سے منکر روایتیں بیان کرتے تھے ۔
(معرفة السنن والآثار البہیقی ۱۸۱/۳ علل الترندی الکبیر ا/۳۳، ترتیب علل الترندی ۱/ ۸ ورقه ۵ ، شرح سنن ابن ماجه لمغلطائی ۳۴۲/۱/ آخرالذکر تین حوالے مکتبہ شاملہ سے لئے گئے ہیں)

معلوم ہوا کہ محدثین کرام کا اس میں اختلاف تھا کہ ابن ابی ذئب کا صالح مولی التوامہ سے سماع اختلاط سے پہلے کا ہے یا بعد کا ہے لہذا مسئلہ مشکوک ہو گیا۔ غالبا یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حبان نے فرمایا:
فاختلط حديثه الأخيـر بـحـديثه القديم و لم يتميز فاستحق الترك۔
پس اُس کی آخری حدیثیں پہلی حدیثوں سے خلط ملط ہو گئیں اور ( دونوں کے درمیان ) تمیز نہ ہو سکا لہذا وہ اس کا مستحق ہوا کہ (اُسے یا اس کی روایتوں کو ) ترک کر دیا جائے۔
(کتاب الحجر وحین ج اص ۳۶۶، دوسرا نسخه ج اص۴۶۴ت ۴۷۹)

دوم :

جلیل القدر محدثین کرام نے خاص طور پر صالح مولی التوامہ کی اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ مثلاً :
۱ : امام ابن المنذ رالنیسابوری رحمہ اللہ (متوفی ۳۱۸ھ) نے فرمایا:
ولا يصح عن النبي ﷺ۔
اور نبی ﷺ سے یہ روایت صحیح (ثابت) نہیں ہے۔
(الاوسط ۴۱۶/۵ ، دوسر انسخه ۴۵۶/۵ ۳۰۹۴۶)

❀ حافظ ابن حبان نے کہا:
و هذا خبر باطل
اور یہ روایت باطل ہے۔
(کتاب المجروحین ۳۶۶/۱، دوسرا نسخه ار ۳۶۵)

❀ حافظ ابن عبدالبر نے فرمایا:
عن أبي هريرة لا يثبت عنه.
یہ روایت ابو ہریرہؓ سے ثابت نہیں ہے ۔
(الاستد کار ۴۶٫۳)

❀ حافظ ابن عبدالبر نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے (بغیر کسی سند کے ) نقل کیا کہ حدیث ابی ہریرہؓ ثابت نہیں ہے۔ (ایضاً)
(نیز دیکھئے فقرہ: ۵ ۴)

❀ حافظ ابن الجوزی نے کہا:
’’هذا حديث لا يصح ‘‘
یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔
(العلل المتابیه ۴۱۴/۱ ۶۹۶۳)

❀ امام احمد بن حنبل نے فرمایا:
’’حتى يثبت حديث صالح مولى التوامة “
حتی که صالح مولی التوامہ کی حدیث ثابت ہو جائے۔

❀ عبداللہ بن احمد بن حنبل نے کہا:
كان عنده ليس يثبت أوليس صحيحا.
وہ آپ کے نزدیک ثابت نہیں تھی یا صحیح نہیں تھی۔
(مسائل احمد ، روایت عبد الله بن احمد۴۸۲/۲ ۴۸۳۰ فقره: ۶۷۱)

❀ احمد بن سلیمان ( یعنی احمد بن سلمان النجاد ) کی روایت میں ہے کہ
كـأنــه عـنـده ليــس يثبت أو ليس بصحيح.
گویا وہ اُن کے نزدیک ثابت نہیں یا صحیح نہیں ہے۔
(ناسخ الحدیث و منسوعه لابن شامین: ۳۵۲ وسند و هیچ ، دوسرا نسخه ۳۴۹)

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے مسجد میں نماز جنازہ کے بارے میں فرمایا:
”إليه أذهب وهو قول الشافعي “
میرا یہی مذہب ہے اور شافعی کا یہی قول ہے۔
(ناسخ الحدیث و منسوخه: ۳۵۱ وسند و هیچ ، دوسرا نسخه ۳۴۹)

❀ نووی نے اسے ضعیف روایات میں شمار کیا۔
(دیکھئے خلاصتہ الاحکام ج ۳ ص۱۵۰ ح ۱۷۸۹)
اور فرمایا: اس کے ضعیف ہونے پر حفاظ کا اتفاق ہے۔
(الجموع شرح المہذب ۲۱۴٫۵)

❀ حافظ ابن عدی نے اس روایت کو صالح بن نبهان مولی التوامہ کی روایات ( یعنی روایات منتقدہ) میں ذکر کیا۔
(دیکھئے الکامل لابن عدی ۱۳۷۴/۴، دوسرانسخه ۸۵/۵)

❀ عینی حنفی نے کہا:
و رواه ابن عدي في الكامل بلفظ أبي داود و عده من منكرات صالح
اسے ابن عدی نے الکامل میں ابو داود کے لفظ کی طرح روایت کیا اور اسے صالح کی منکر روایتوں میں شمار کیا۔
(شرح سنن ابی داود ج ۶ ص ۱۲۸-۱۲۹)

❀ امام بخاری کے نزدیک یہ روایت منکر ہے۔
دیکھئے معرفتہ السنن والآثار (۱۸۱/۳)

❀ حافظ ذہبی نے یہ روایت ذکر کر کے فرمایا:
” صالح واہ “
صالح سخت ضعیف ہے۔
(لتنقيح لكتاب التحقيق لا حادیث التعليق ۴۳۳/۱)

یعنی یہ روایت حافظ ذہبی کے نزدیک ضعیف و مردود ہے۔
ابن حزم نے صالح مولی التوامہ کوساقط قرار دے کر اس روایت پر جرح کی۔
(دیکھئے المحلی ۱۶۳/۵، مسئلہ: ۶۰۳)

❀ ابن بطال نے قاضی اسماعیل بن اسحاق سے بغیر کسی سند کے نقل کیا کہ انھوں نے اس سند کو ضعیف و غیر ثابت قرار دیا ۔
(شرح صحیح بخاری لابن بطال ۳۱۲/۳)

❀ امام حسین بن مسعود البغوی رحمہ اللہ نے اس روایت کے بارے میں فرمایا:
’’ و هذا ضعيف الإسناد “
اور اس کی سند ضعیف ہے۔
(شرح السنۃ ۳۵۲٫۵ ح ۱۴۹۳)

❀ زیلعی حنفی نے نووی کی کتاب الخلاصہ سے نقل کیا کہ خطابی نے اس روایت کوضعیف قرار دیا۔
(دیکھئے نصب الرایہ ۲۷۶/۲)

جمہور کی اس جرح کے مقابلے میں بعض علماء کا اسے حسن یا صحیح قرار دینا غلط ہے۔

تنبيه :
راقم الحروف نے سنن ابی داود (۳۱۹۱) اور سنن ابن ماجہ ( ۱۵۱۷) وغیر ہما میں بعض علماء کے اس قول : ’’صالح مولی التوامہ نے اس روایت کو اختلاط سے پہلے بیان کیا ہے‘‘ پر اعتماد کرتے ہوئے ’’اسنادہ حسن “ قرار دیا، جو کہ قولِ مذکور کے مشکوک ہونے کی وجہ سے غلط ہے لہذا میں اپنی سابق تحقیق سے علانیہ رجوع کرتا ہوں اور حق یہ ہے کہ یہ روایت ضعیف ومنکر ہے۔

❀ صالح مولی التوامہ سے روایت ہے کہ میں نے ان لوگوں کو دیکھا جنھوں نے نبی ﷺ اور ابو بکرؓ کو پایا تھا، وہ جب نماز جنازہ کے لئے آتے اور انھیں مسجد کے سوا کوئی جگہ نہ ملتی تو واپس چلے جاتے اور مسجد میں نماز جنازہ نہ پڑھتے تھے۔
(مسند الطیالسی: ۲۳۱۰، دوسرانسخہ:۲۴۲۹، نیز دیکھئے مصنف ابن ابی شیبه ۳۶۴/۳ ۱۱۹۷۱)

یہ روایت صالح مولی التوامہ کے ضعیف ہونے کی وجہ سے ضعیف و مردود ہے۔ نیز دیکھئے فقر و سابقہ :

❀ کثیر بن عباسؓ سے روایت ہے کہ
لأعرفن ما صليت على جنازة في المسجد
مجھے خوب معلوم ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی۔
(مصنف ابن ابی شیبه ۳۶۵/۳ ح ۱۱۹۷۲)

یہ روایت دووجہ سے ضعیف ہے :

اول :

مصنف عبدالرزاق (۵۲۷/۳ ح ۶۵۸۰ وسندہ ضعیف) میں کثیر بن عباس کے شاگرد کا نام مسلم ہے اور المحلی ابن حزم (۱۶۳/۵) میں سعید بن ایمن لہذا یہ سند مضطرب ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔

دوم :

مصنف ابن ابی شیبہ میں کثیر بن عباس سے راوی سعید بن سمعان ہیں جن کے اُن سے سماع کا ثبوت نہیں۔

❀وفاء الوفاء (۵۳۱/۲) نامی کتاب میں بغیر سند کے دو روایتیں ہیں:
◈مروان بن الحکم کے سپاہی لوگوں کو مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے سے روکتے تھے۔
◈عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے سپاہی لوگوں کو مسجد میں جنازہ پڑھنے سے روکتے تھے۔
یہ دونوں روایتیں بے سند ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔

❀ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر میت مسجد کے اندر ہو تو نماز جنازہ مکروہ ہے اور اگر باہر ہو تو جائز ہے۔
ان لوگوں کا یہ قول بے دلیل ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

❀ بعض لوگ مسجد میں نماز جنازہ کی ممانعت کے لئے فقہ حنفی کی کتابوں مثلاً ہدایہ وغیرہ کے حوالے اور ابن فرقد (محمد بن الحسن الشیبانی) اور طحاوی وغیر ہما کے اقوال پیش کرتے ہیں۔ یہ تمام حوالے اور اقوال صحیح احادیث، آثار صحابہ، آثار سلف صالحین ، فقہ شافعی اور فقہ حنبلی کی کتابوں کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔

❀ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسجد میں نماز جنازہ منسوخ ہے۔
یہ قول کئی وجہ سے مردود ہے۔ مثلاً :
◈ سیدنا عمرؓ کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی گئی ، جس پر کسی صحابی کا اعتراض ثابت نہیں لہذا دعوی منسوحیت باطل ہے۔

◈ امام ابن شاہین البغدادی رحمہ اللہ (متوفی ۳۸۵ھ) نے مسجد میں نماز جنازہ نہ پڑھنے والی روایت کے بارے میں فرمایا:
فإن صـح حـديـث ابن أبي ذئب فهو منسوخ بحديث سهيل بن بيضاء
اگر ابن ابی ذئب کی حدیث صحیح ہوتی تو وہ سہیل بن بیضاءؓ کی حدیث کی رو سے منسوخ ہے.
(ناسخ الحدیث و منسوخه ص ۴۰۴ ح ۳۴۹)
یعنی مسجد میں نماز جنازہ نہ پڑھنا منسوخ ہے بشرطیکہ نہ پڑھنے والی روایت صحیح ثابت ہو جائے۔

تنبیہ :
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے باسند صحیح یہ قطعاً ثابت نہیں کہ مسجد میں نماز جنازہ نہ پڑھی جائے ، یا مسجد میں جنازہ مکروہ ہے۔

ابن فرقد وغیرہ کے مردود حوالے اور بے سند اقوال کی علمی میدان میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔

آخر میں بطور خلاصتہ التحقیق عرض ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ جائز ہے۔ چاہے مسجد میں میت کی لاش ہو یا مسجد سے باہر ہو، لیکن مسجد سے باہر جنازہ گاہ یا کھلے میدان میں نماز جنازہ بہتر ہے۔
(۲۹/ اپریل ۲۰۱۰ء)
و ما علينا إلا البلاغ

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!