تین طلاقوں کی شرعی حیثیت: ایک مجلس میں تین طلاقوں کا حکم
تحریر: قاری اسامہ بن عبدالسلام

تین طلاقوں کی شرعی حیثیت

ایک ہی لفظ میں تینوں طلاقیں دے دینا یعنی ایک طہر میں ایک ہی کلمہ کے ساتھ تینوں طلاقیں دے دی جائیں۔ مثلاً شوہر اپنی بیوی سے کہے کہ میں نے تجھے تین طلاقیں دے دی یا دس طلاقیں دیں، یا یوں کہے کہ میں نے تجھے طلاق دی یا طلاق، طلاق، طلاق تو عام الفاظ سے ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے۔ اور ایسی تین طلاقوں کے بعد شوہر کو رجعت کا مکمل اختیار ہے۔ دورِ حاضر میں اس مسئلے پہ بحث کی جاتی ہے اس لیے اس مسئلے کی حقیقت لکھنے کی ضرورت پیش آئی۔

احناف کی مشہور کتاب "الہدایہ” میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو بدعت کہا گیا ہے اور اس طرح طلاق دینے والے کو عاصی و گنہگار بتایا گیا ہے۔
جیسا کہ فقہ حنفی کے امام برہان الدین المرغینانی (رحمہ اللہ) ہیں۔ ان کا پورا نام برہان الدین علی بن ابی بکر المرغینانی ہے، لکھتے ہیں، آپ ملاحظہ کیجئے:

وَطَلَاقُ البِدۡعَةِ أَنْ يُطَلِّقَهَا ثَلَاثًا بِكَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ أَوۡ ثَلَاثًا فِي طُهۡرٍ وَاحِدٍ، فَإِذَا فَعَلَ ذَٰلِكَ وَقَعَ الطَّلَاقُ وَكَانَ عَاصِيًا۔

ترجمہ:
"اور طلاقِ بدعت یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو ایک ہی لفظ کے ساتھ تین طلاقیں دے یا ایک ہی طہر (پاکی کی حالت) میں تین طلاقیں دے۔ پس اگر اس نے ایسا کیا تو طلاق واقع ہو جائے گی اور وہ گناہگار ہوگا۔”
(الہدایہ فی شرح بدایۃ المبتدی، جلد 1، صفحہ 355، باب طلاق السنۃ عربی و درسی نسخہ)

تنبیہ:
احناف کے مدارس میں پڑھائی جاتی ہے یہ کتاب۔

قرآن پاک سے پہلی دلیل

اللہ رب العزت، جو عرشِ عظیم کے مالک ہیں، فرماتے ہیں:

ٱلطَّلَٰقُ مَرَّتَانِۖ فَإِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌۢ بِإِحْسَٰنٍ(البقرہ: 229)

امام احمد بن عبدالسلام بن تیمیہ (661-728) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ دو طلاقیں ہیں بلکہ یہ فرمایا ہے کہ دو مرتبہ کرکے دو ہیں۔ پس اگر کوئی اپنی بیوی سے یہ کہتا ہے کہ تجھے دو طلاقیں ہیں یا دس ہیں یا ہزار ہیں تو یہ ایک ہی طلاق مانی جائے گی۔
(مجموع الفتاوی لابن تیمیہ، جلد 3، صفحہ 47)

اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے جو تفسیر کی ہے وہ درج ذیل ہے:

آیت "ٱلطَّلَٰقُ مَرَّتَانِ” کا تفصیلی اعراب درج ذیل ہے:

ٱلطَّلَٰقُ: مبتدأ مرفوع، اور اس پر رفع کی علامت آخری حرف پر ظاہر ہونے والی ضمہ ہے۔
مَرَّتَانِ: خبر مرفوع، اور چونکہ یہ تثنیہ ہے، اس لیے اس پر رفع کی علامت الف ہے۔

اس جملے کا مکمل اعراب یہ ہوگا: "ٱلطَّلَٰقُ” مبتدأ ہے اور "مَرَّتَانِ” اس کی خبر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ طلاق دو مرتبہ ہے۔
(سورۃ البقرہ، آیت 229)

لفظ "مَرَّتَانِ"، "مرۃ” کا تثنیہ ہے جس کا معنی یہ ہے کہ ایک مرتبہ کے بعد دوسری مرتبہ یعنی وقفہ کے ساتھ، یعنی کہ الگ الگ دو بار طلاق دی جائے۔

اس پر دلیل موجود ہے، ملاحظہ کیجئے:

اللہ رب العزت فرماتے ہیں:

"وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلَاث مَرَّاتِ”(سورۂ نور، آیت 58)

اس آیت میں لفظ "مَرَّات"، "مرۃ” کی جمع ہے۔ اس لفظ کے بعد تین اوقات بیان کیے گئے ہیں جن میں وقفہ ہے، نہ کہ اکٹھے۔ (یعنی ایک مرتبہ فجر سے پہلے، دوسری مرتبہ دوپہر کو، تیسری مرتبہ نمازِ عشاء کے بعد)

نوٹ: لہٰذا معلوم ہوا کہ پہلی آیت میں بھی وقفہ کے ساتھ طلاقیں دینا مراد ہے، نہ کہ اکٹھی۔

الإِمَامُ العَلَّامَةُ المُفَسِّرُ الفَقِيهُ عَلَاءُ الدِّينِ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ البَغْدَادِيُّ الحَازِنِيُّ (741) (المعروف بِـ حَازِن)

"إِنَّ التَّطْلِيقَ الشَّرْعِيَّ يَجِبُ أَنْ يَكُونَ تَطْلِيقَةً بَعْدَ تَطْلِيقَةٍ عَلَى التَّفْرِيقِ دُونَ الجَمْعِ وَالإِرْسَالِ دَفْعَةً وَاحِدَةً۔”
ترجمہ:
"بے شک شرعی طلاق یوں ہونی چاہیے کہ ایک طلاق کے بعد دوسری طلاق دی جائے، تفریق کے ساتھ، نہ کہ اکٹھی اور ایک ہی بار دے دی جائے۔”
(لُبَابُ التَّأْوِيلِ فِي مَعَانِي التَّنْزِيلِ، سورہ طلاق تحت آیت (229) "الطلاق مرتان”)

الإِمَامُ العَلَّامَةُ الفَقِيهُ أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مَعْقِلٍ الرَّازِيُّ الجَصَّاصُ ـــ وُفِّيَ سَنَةَ 370هـ (981م)

"تَضَمَّنَتِ الْأَمْرَ بِإِيقَاعِ الإثْنَيْنِ فِي مَرَّتَيْنِ فَمَنْ أَوْقَعَ الإِثْنَيْنِ فِي مَرَّةٍ فَهُوَ مُخَالِفٌ لِحُكْمِهَا۔”
ترجمہ:
"یہ حکم اس بات کو شامل کرتا ہے کہ دونوں طلاقیں دو الگ الگ مواقع پر دی جائیں، لہٰذا جو شخص دونوں طلاقیں ایک ہی وقت میں دے، وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے الہی حکم کے خلاف ہوگا۔”
(أَحْكَمُ القُرْآنِ لِأَبِي بَكْرٍ الجَصَّاصِ، جلد 1، صفحہ 380)

النُعْمَانُ بْنُ مَحْمُودٍ بْنِ عَبْدِ القَادِرِ السِّندِيِّ الحَنَفِيِّ (متوفی: 1334ھ / 1915م) فرماتے ہیں:

"الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ إِلَىٰ قَوْلِهِ وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًافَإِنَّ مَعْنَاهُ: التَّطْلِيقُ الشَّرْعِيُّ تَطْلِيقَةٌ بَعْدَ تَطْلِيقَةٍ، عَلَى التَّفْرِيقِ دُونَ الجَمْعِ وَالإِرْسَالِ مَرَّةً وَاحِدَةً۔
وَلَمْ يُرَدْ بِالْمَرَّتَيْنِ التَّثْنِيَةُ، وَمِثْلُهُ قَوْلُهُ تَعَالَى: "ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ” (الملك: 4)، أَي كَرَّةً بَعْدَ كَرَّةٍ، لَا كَرَّتَيْنِ اثْنَتَيْنِ.”
ترجمہ:
"طلاق دو بار ہے… (اللہ کے فرمان تک) ‘اور اللہ کی آیات کو مذاق نہ بناؤ’۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت کے مطابق طلاق ایک بار دی جاتی ہے اور پھر دوسری بار، یعنی الگ الگ مواقع پر، نہ کہ اکٹھی یا بیک وقت چھوڑ دینا۔
یہاں ‘دو بار’ سے عددی تثنیہ (محض دو بار) مراد نہیں، بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک بار طلاق دینے کے بعد دوبارہ دی جائے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ‘پھر اپنی نظر دو بار لوٹاؤ’ (الملک: 4)، یعنی ایک بار دیکھنے کے بعد دوبارہ دیکھو، نہ کہ صرف دو بار دیکھنا ہی مراد ہو۔”
(حاشیہ السندی على سنن النسائی، جلد 2، صفحہ 29)

أبو المُحَاسِن أشرف علي بن عبد الحقّ بن فضل الرّحمن التهانوي (رحمه الله)
(تاریخِ وفات: 16 ربیع الاول 1362ھ مطابق 20 مارچ 1943م)
کے استاد محمد تھانوی نے بھی اس آیت کی تفسیر میں تقریباً یہی لکھا ہے اور اس کے معنی کی تعیین و تائید کی ہے۔ ملاحظہ کیجئے:

"إِنَّ قَوْلَهُ تَعَالَى: "ٱلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ” مَعْنَاهُ: مَرَّةً بَعْدَ مَرَّةٍ، فَٱلتَّطْلِيقُ ٱلشَّرْعِيُّ عَلَى ٱلتَّفْرِيقِ دُونَ ٱلْجَمْعِ وَٱلْإِرْسَالِ.”
ترجمہ:
"بے شک اللہ تعالیٰ کے فرمان ‘اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ’ کا مطلب یہ ہے کہ ایک طلاق کے بعد دوسری طلاق (یعنی الگ الگ طلاق دینا)، پس شریعت میں طلاق تفریق کے ساتھ ہے، نہ کہ اکٹھی دینا اور یکبارگی چھوڑ دینا۔”
(سنن نسائی، جلد 2، صفحہ 29)
لفظ "مرتان” کی یہی تفسیر لکھی ہے جو مذکورہ بیان کی گئی ہے۔

أَبُو ٱلْبَرَكَاتِ عَبْدُ ٱللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مَحْمُودٍ ٱلنَّسَفِيُّ (رحمه الله)
پیدائش: 710ھ (تقریباً 1310ء)
وفات: 793ھ (1390ء)

"إِنَّ قَوْلَهُ تَعَالَى: "ٱلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ” مَعْنَاهُ: مَرَّةً بَعْدَ مَرَّةٍ، فَٱلتَّطْلِيقُ ٱلشَّرْعِيُّ عَلَى ٱلتَّفْرِيقِ دُونَ ٱلْجَمْعِ وَٱلْإِرْسَالِ۔”
ترجمہ:
"بے شک اللہ تعالیٰ کے فرمان ‘اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ’ کا مطلب یہ ہے کہ ایک طلاق کے بعد دوسری طلاق (یعنی الگ الگ طلاق دینا)، پس شریعت میں طلاق تفریق کے ساتھ ہے، نہ کہ اکٹھی دینا اور یکبارگی چھوڑ دینا۔”
(مَدَارِكُ ٱلتَّنْزِيلِ وَحَقَائِقُ ٱلتَّأْوِيلِ، تحت آیت بقرہ 229، جلد 2، صفحہ 177)

ٱلْإِمَامُ فَخْرُ ٱلدِّينِ ٱلرَّازِيُّ أَبُو عَبْدِ ٱللّٰهِ مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ ٱلْحُسَيْنِ ٱلتَّمِيمِيُّ ٱلرَّازِيُّ ٱلشَّافِعِيُّ
(ولادت: 543ھ مطابق 1149م، وفات: 606ھ مطابق 1210م)

وہ مفسر، متکلم، فقیہ اور فیلسوف تھے، جن کا شمار چھٹی صدی ہجری کے مشہور علماء اسلام میں ہوتا ہے۔ ان کی اہم تالیف: "تفسیر کبیر” (مفاتیح الغیب) ہے۔ انہوں نے بھی اپنی تفسیر میں یہی تفسیر کی ہے جو مذکورہ بالا مفسرین نے کی ہے، جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں:
(تفسیر امام فخر الدین الرازی المعروف بـ "مفاتیح الغیب” جلد 2، صفحہ 177 طبع مصر)

علامہ ٱلْإِمَامُ ٱبْنُ حَيَّانَ ٱلْأَنْدَلُسِيُّ
أَبُو ٱلْحَسَنِ غَرْنَاطَةِيُّ ٱلْمُحَقِّقُ مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ بْنِ عَلِيٍّ ٱبْنِ حَيَّانَ ٱلْأَنْدَلُسِيُّ (متوفىٰ 745ھ)

وہ غرناطہ میں پیدا ہوئے۔ حافظ، مفسر، نحوی، اصولی اور کئی فنون کے عالم تھے۔ ان کی مشہور تفسیر "البحر المحیط” ہے۔ انہوں نے بھی وہی تفسیر کی ہے جو اوپر مذکور ہے۔
(جلد 2، صفحہ 192، طبع مصر)

ٱلْعَلَّامَةُ ٱلشَّيْخُ عَبْدُ ٱلْحَقِّ ٱلدِّهْلَوِيُّ
أَبُو ٱلْفَضْلِ عَبْدُ ٱلْحَقِّ بْنُ لُوطِ ٱلدِّهْلَوِيُّ (ولادت: 958ھ/1551م، وفات: 1052ھ/1642م)

انہوں نے بھی یہی تفسیر کی ہے۔
(الاقلیل علی مدارک التنزیل، جلد 2، صفحہ 171)

ٱلْإِمَامُ ٱلْفَقِيهُ ٱلْمُفَسِّرُ أَبُو ٱلْفَضْلِ عَبْدُ ٱللَّهِ بْنُ عُمَرَ ٱلْبَيْضَاوِيُّ
(ولادت: 491ھ/1097م، وفات: 567ھ/1172م)

انہوں نے بھی یہی تفسیر کی ہے۔
(تفسیر امام عبد اللہ عمر البیضاوی، جلد 1، صفحہ 150)

ٱلْقَاضِي ثَنَاءُ ٱللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ٱلْبَكْرِيُّ ٱلْفَتْوِيُّ ٱلْفَقِيهُ ٱلْحَنَفِيُّ ٱلْبَحْرِيُّ ٱلْبَسْنَويُّ
(ولادت: 1033ھ، وفات: 1118ھ)

انہوں نے "تفسیر مظہری” جلد 1، صفحہ 235 طبع قدیم دہلی 1273ھ میں بھی یہی تفسیر کی ہے۔

ٱلْعَلَّامَةُ ٱلْإِمَامُ ٱلْمُفَسِّرُ ٱلْفَقِيهُ أَبُو ٱلْفَضْلِ مَحْمُودُ بْنُ مُحَمَّدٍ ٱلْآلُوسِيُّ
(ولادت: 1270ھ/1853م، وفات: 1373ھ/1954م)

انہوں نے "روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم” جلد 2، صفحہ 37 طبع مصر میں اس آیت کے تحت تین اقوال ذکر کئے ہیں، اور تیسرے قول کو ہی راجح قرار دیا ہے جس میں "مرتان” کے معنی تفریق کے ہیں:


"وَإِذَا كَانَ مَعْنَی مَرَّتَيْنِ التَّفْرِيقُ مَعَ التَّصْنِيعِ كَمَا قَالَ فِيهِ ٱلْمُحَقِّقُونَ بِنَاءً عَلَىٰ إِنَّهُ حَقِيقَةٌ فِي ٱلثَّانِيِّ ظَاهِرٌ فِي ٱلْأوَّلِ إِذْ لَا يُقَالُ لِمَنْ دَفَعَ إِلَىٰ آخَرِ دَرْهَمَيْنِ مَرَّةً وَٰحِدَةً
إِنَّهُ أَعْطَاهُ مَرَّتَيْنِ حَتَّى يُفَرِّقَ بَيْنَهُمَا وَكَذَٰا لِمَنْ طلقَ زَوْجَتَهُ ثنَتَيْنِ دِفَعۃ إِنَّهُ طلق مرتین.”

ترجمہ:
"اور جب ہمارے معنی دو مرتبہ ہوں، تو اس کا تفریق کے ساتھ تثنیہ (مفہوم کی تقسیم) ہونا اسی طرح ہے جیسے محققین نے کہا ہے، اس بنیاد پر کہ وہ حقیقت میں دوسرے میں واضح ہے اور پہلے میں ظاہر ہے۔ یعنی جب کسی نے دوسرے شخص کو دو درہم ایک ہی مرتبہ میں دے دیے ہوں تو اسے یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس نے دو بار دیے، جب تک وہ ان میں تفریق نہ کرے۔ اور اسی طرح جو شخص اپنی بیوی کو دو بار طلاق دے، تو وہ تفریق کا حق رکھتا ہے، کہ بے شک اس نے دو بار طلاق دی۔”
(روح المعانی، جلد 2، صفحہ 37)

اس کے بعد علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے ایک مجلس میں تین طلاق کا ذکر کرتے ہوئے شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا نام بھی لیا ہے اور ان احادیث کو نقل کیا ہے جن سے ایک مجلس میں تین طلاق کے ایک ہونے پر استدلال کیا جاتا ہے۔

إمامُ أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنِ جَرِيرٍ بْنِ يَزِيدَ ٱلطَّبَرِيُّ (المتوفّى: 310هـ)

انہوں نے بھی اس بات کو واضح طور پر بیان فرمایا ہے کہ:

"إِذَا طَلَّقَ ٱلرَّجُلُ ٱمْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ فَإِنَّهَا تُعَدُّ طَلْقَةً وَاحِدَةً فَقَطْ، وَلَا تُلْزِمُهُ ٱلثَّلَاثُ."
ترجمہ:
"امام طبری رحمہ اللہ کا یہ موقف نہایت واضح ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں شریعت میں ایک ہی طلاق شمار ہوں گی۔”

یہ قول "تفسیر الطبری” میں دار الحدیث، قاہرہ کی مطبوعہ جلد میں سورۃ البقرہ آیت 229 کے تحت مذکور ہے۔

یہ عبارت آپ کی درخواست کے مطابق فصیح عربی میں خوبصورت انداز میں یوں پیش کی جا سکتی ہے:

قَالَ أَبُو زَكَرِيَّا يَحْيَىٰ بْنُ زِيَادِ بْنِ عَبْدِ ٱللَّهِ بْنِ مَنْظُورٍ ٱلأَدِيلِيُّ ٱلْأَسَدِيُّ ٱلْكُوفِيُّ، صَاحِبُ ٱلْكِسَائِيِّ (المتوفّى: ٢٠٧هـ):
"إِذَا طَلَّقَ ٱلرَّجُلُ ٱمْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ، فَإِنَّهَا تُحْسَبُ طَلْقَةً وَاحِدَةً، وَلَا تَقَعُ بِهَا ٱلثَّلَاثُ.”

ترجمہ: "جب کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں ایک ہی مجلس میں دے، تو وہ محض ایک ہی طلاق شمار ہوگی اور اس سے تینوں طلاقیں واقع نہیں ہوں گی۔”
(تفسیر معانی القرآن للفراء، 229، مکتبہ الشاملہ، بیروت)

قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّرَّاحِيُّ بْنُ صُهَيْلٍ الْمُنَزَّجَ الْبَغْدَادِيُّ (المتوفّى: 311ھ)
فی "تفسیر معانی القرآن والإعراب للزجاج”، مکتبہ الشاملہ، تحت سورۃ البقرہ، آیت 229:

"إِنَّ الطَّلَاقَ الثَّلَاثَ فِی مَجْلِسٍ وَاحِدٍ یُحْسَبُ طَلْقَةً وَاحِدَةً، لَا ثَلَاثًا۔”
ترجمہ:
"بیشک ایک ہی مجلس میں دی گئی تین طلاقیں، شریعت کی نظر میں ایک ہی طلاق شمار ہوں گی، نہ کہ تین۔”

قَالَ الإِمَامُ أَبُو ٱلْفَرَجِ عَبْدُ ٱلرَّحْمٰنِ بْنُ عَلِيٍّ بْنِ مُحَمَّدٍ ٱلْبَغْدَادِيُّ، ٱلْمَعْرُوفُ بِٱبْنِ ٱلْجَوْزِيِّ (المتوفّى: 597ھ)
فی تفسیرہ: "زاد المسیر فی علم التفسیر"، تحت سورۃ البقرہ، آیت 229:

"إِذَا طَلَّقَ ٱلرَّجُلُ ٱمْرَأَتَهُ ثَلَاثًا بِلَفْظٍ وَاحِدٍ، أَوْ فِی سِیَاقٍ وَاحِدٍ، فَإِنَّمَا تَقَعُ طَلْقَةً وَاحِدَةً، وَلَا تَقَعُ بِذٰلِكَ ٱلثَّلَاثُ.”
ترجمہ:
"اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں ایک ہی موقع پر یا ایک ہی سیاق میں دے دے تو وہ شریعت کی رُو سے تین شمار نہیں ہوں گی بلکہ ایک ہی طلاق واقع ہوگی۔”

قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ ٱلْحُسَيْنُ بْنُ مَسْعُودٍ ٱلْفَرَّاءُ ٱلْبَغَوِيُّ ٱلصَّنْعَانِيُّ (المتوفّى: 516ھ)
فی تفسیرہ المشہور "معالم التنزیل (تفسیر بغوی)"، تحت سورۃ البقرہ، آیت 229:

"إِذَا طَلَّقَ ٱلرَّجُلُ ٱمْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ، فَإِنَّهَا تُحْسَبُ طَلْقَةً وَاحِدَةً، وَلَا تَقَعُ بِهَا ٱلثَّلَاثُ، وَهٰذَا مَحَلُّ ٱتِّفَاقِ ٱلْمُفَسِّرِينَ وَإِجْمَاعِهِمْ.”
ترجمہ:
"اگر کوئی شخص ایک ہی مجلس میں اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دیتا ہے، تو وہ تین شمار نہیں ہوں گی، بلکہ شریعت کی رُو سے صرف ایک ہی طلاق شمار کی جائے گی، اور اسی پر تمام مفسرین کا اتفاق اور اجماع ہے۔”

ان تمام صراحتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مفسرین نے یہ بات دو ٹوک الفاظ میں کہی ہے کہ اگر ایک آدمی اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین بار "طلاق طلاق” کہتا ہے تو وہ ایک ہی طلاق ہوتی ہے۔

اگر ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین ہی قرار دیا ہوتا، تو یہ الفاظ نہ ہوتے:

➊ قرآن کی دلیل:

﴿ٱلطَّلَٰقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌۭ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌۭ بِإِحْسَٰنٍۭ﴾
(سورة البقرة، آیت 229)
ترجمہ: "طلاق دو مرتبہ ہے، پھر یا تو بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا احسان کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔”

➋ دوسری دلیل:

﴿فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُۥ مِنۢ بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًۭا غَيْرَهُۥ﴾
(سورة البقرة، آیت 230)
ترجمہ: "پھر اگر اس نے (تیسری بار) طلاق دے دی تو وہ عورت اس کے لیے حلال نہیں، جب تک وہ کسی دوسرے شوہر سے نکاح نہ کر لے۔”

بلکہ الفاظ اس طرح ہوتے:

الطَّلَاقُ إِثْنَتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ … فَإِن طَلَّقَهَا ثلاث فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ

ان الفاظ کا ہونا اور "مرتان” اور "فَإِن طَلَّقَهَا” کے الفاظ ہونے کی صورت میں آیت کے صریح معنی یہ ہیں کہ "فَإِن طَلَّقَهَا فِي الْمَرَّۃِ الثَّالِثَۃِ بَعْدَ الْمَرَّتَيْنِ” (یعنی اگر دو مرتبہ علیحدہ علیحدہ طلاق دے چکا ہے اور پھر وہ تیسری مرتبہ طلاق دے تو اس وقت عورت مرد پر حرام ہوگئی ہے)۔

جیسا کہ امام ابو بکر جصاص حنفی اور محشری نسفی ابو الحیان نے اس کا ذکر کیا ہے۔

قرآن کی اس آیت کے سلسلہ میں ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی ہوتی ہیں۔

احادیث کی روشنی میں

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:

"لَمْ تَكُنْ فِى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا فِى عَهْدِ أَبِى بَكْرٍ وَلَا فِى سَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ إِلَّا طَلَاقٌ وَاحِدَةٌ"
ترجمہ:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں، حضرت ابو بکر کی خلافت میں، اور حضرت عمر کی ابتدائی خلافت کے دو سالوں تک، تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا۔”
(صحیح مسلم، کتاب الطلاق، حدیث 1472)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

"لَمْ تَكُنْ فِى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا فِى عَهْدِ أَبِى بَكْرٍ وَلَا فِى سَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَتِهِمْ إِلَّا طَلَاقٌ وَاحِدَةٌ فَجَاءَ عُمَرُ فَفَارَقَ فِي آخِرِ عَهْدِهِ فَجَاءَ فَقَالَ: إِنَّ النَّاسَ قَدْ تَعَجَّلُوا فِى أَمْرِهِمْ فَلَوْ جَمَعْتُهُمْ عَلَىٰ طَلَاقٍ وَاحِدَةٍ”
ترجمہ:
"حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں، حضرت ابو بکر کی خلافت میں اور حضرت عمر کی ابتدائی خلافت کے دو سالوں تک ایک مجلس میں دی جانے والی تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار کی جاتی تھیں۔”
(سنن نسائی، کتاب الطلاق، حدیث 1445)

ایک حدیث:


حدَّثنا سَعْدُ بنُ إِبْرَاهِيمَ، حدَّثنا أَبِي، عن مُحَمَّدِ بنِ إِسْحَاقَ، قال: حدَّثني دَاوُدُ بنُ الحُصَيْنِ، عن عِكْرِمَةَ مَوْلَى ابنِ عَبَّاسٍ، عن ابنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما، قال:
"طَلَّقَ رَكَانَةُ بنُ عَبْدِ يَزِيدَ امرَأَتَهُ ثَلاثًا في مَجلِسٍ واحِدٍ، فَحَزِنَ عَلَيْهَا حُزْنًا شَدِيدًا، فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللهِ ﷺ: كَيْفَ طَلَّقْتَهَا؟ قال: طَلَّقْتُهَا ثَلاثًا. قال: فَإِنَّمَا تِلكَ وَاحِدَةٌ، فَارْجِعْهَا إِنْ شِئْتَ. قال: فَرَاجَعَهَا.”

ترجمہ:
ابنِ عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ: رَکانہ بن عبدِ یزید (جو مطلب کا بھائی تھا) نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں، اور اس پر سخت غمگین ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا: "تم نے اسے کیسے طلاق دی؟” اس نے کہا: "میں نے اُسے ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں۔” تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "یہ تو صرف ایک ہی طلاق ہے، اگر چاہو تو اُسے واپس لے لو۔” تو اس نے اُسے واپس لے لیا۔
(مسند احمد، جلد 2، صفحہ 165، حدیث 2387؛ مسند ابی یعلی الموصلی، حدیث 2500)

تنبیہ: اس روایت کے حوالے سے حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وَهَذَا الْحَدِيثُ نَصٌّ فِي الْمَسْأَلَةِ لَا يَقْبَلُ التَّأْوِيلَ
(فتح الباری، جلد 9، صفحہ 362)
یعنی یہ حدیث اس مسئلہ میں نص ہے اور کسی تاویل کو قبول نہیں کرتی۔
اس سند کو امام احمد، حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ہے، اور امام ترمذی نے دوسرے متن میں اس سند کو حسن قرار دیا۔ امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں یہ روایت جید الاسناد ہے۔ علامہ احمد شاکرؒ مصری (1892م-1958م) نے بھی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے، لکھتے ہیں:

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے صریح طور پر اعلان کیا ہو کہ "جو آدمی ایک مجلس میں تین طلاقیں دے گا، ہم اسے کتاب اللہ کے مطابق ایک ہی طلاق شمار کریں گے”:

"يُطَلِّقُ ٱمْرَأَتَهُ ثَلَاثًا بِكَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ، لَوْ حَمَلْنَاهُمْ عَلَىٰ كِتَابِ ٱللَّهِ.
(سنن سعید بن منصور، حدیث 3-259، مجلس علمی طبع دار الجیل الھند)

حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:


"عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِیْدٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: أَخْبَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاَثَ طَلَاقَاتٍ جَمِيعًا، فَقَامَ غَضْبَانًا، ثُمَّ قَالَ: أَيُلْعَبُ بِكِتَابِ اللَّهِ وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ حَتَّى قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا أَقْتُلُهُ؟”

ترجمہ:
"حضرت محمود بن لبید کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکٹھی دے دی ہیں تو آپؐ غصہ کی حالت میں اُٹھے اور فرمایا: کیا میرے ہوتے ہوئے اللہ کی کتاب سے کھیلا جا رہا ہے؟ یہ سن کر ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا میں اسے قتل نہ کر دوں؟”
(سنن نسائی، حدیث 3430؛ غایۃ المرام، حدیث 261)

ان احادیث سے پتہ چلا کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق نبی ﷺ کے زمانہ میں، اور ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت میں بھی، تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا۔
تنبیہ: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دو سال تک۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے آثار

جن سے ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہونا ثابت ہوتا ہے:

عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق قرار دیتے تھے، جیسا کہ ان کا فتویٰ موجود ہے:

عَن عِكْرِمَةَ مَوْلَى عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ:
"إِذَا قَالَ أَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا بِفَمٍ وَاحِدٍ، فَهِيَ وَاحِدَةٌ.”

ترجمہ:
"عکرمہ (ثقہ تابعی، جو عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام تھے) بیان کرتے ہیں کہ عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ‘جب کوئی شخص اپنی بیوی سے ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے (یعنی کہے: تُو طلاق ہے، طلاق ہے، طلاق ہے)، تو وہ ایک ہی طلاق شمار ہو گی۔'”
(سنن ابی داود، کتاب الطلاق، شرح عون المعبود، جلد 6، صفحہ 227، باب فیمن طلق ثلاثاً بکلمۃ واحدۃ)

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فتویٰ موجود ہے:

"أَنَّ رَجُلًا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ، فَجَاءَ إِلَى ابْنِ مَسْعُودٍ، فَقَالَ: مَا أَرَاكَ طَلَّقْتَهَا إِلَّا وَاحِدَةً.”
ترجمہ:
"ایک آدمی نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں، پھر وہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا۔ تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ‘میری رائے میں تُو نے اُسے صرف ایک ہی طلاق دی ہے۔'”
(إغاثة اللهفان فی حکم طلاق الغضبان، ابنِ قیم الجوزیہؒ، جلد 1، صفحہ 364، دار عالم الفوائد، بتحقیق ڈاکٹر بکر بن عبد اللہ ابو زید)

نیز یہ اثر "فتح الباری” لابن حجر (کتاب الطلاق، باب من جوّز طلاق الثلاث) میں بھی ملتا ہے۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ، عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ وغیرہ سب سے یہ فتویٰ منقول ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی ہوتی ہیں۔

امام ابن مغیث نے "المقنع” میں محمد بن وضاح کے ذریعے بیان کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

"إِذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ ٱمْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ، فَهِيَ وَاحِدَةٌ."
ترجمہ: "حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے، تو وہ ایک ہی شمار ہوں گی۔”
(المقنع لابن مغیث، صفحہ 80؛ فتح الباری لابن حجر، جلد 9، صفحہ 363)

تنبیہ:
حضرت عَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ نے فرمایا:
"الطَّلَاقُ الثَّلَاثُ فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ طَلَاقٌ وَاحِدٌ."
ترجمہ:
"ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوں گی۔”
(المقنِع لابن مغیث القرطبی، صفحہ 80؛ فتح الباری، جلد 9، صفحہ 363؛ ابن ابی شیبہ، المصنف، جلد 5، صفحہ 11)

حضرت أَبُو مُوسَى الأَشْعَرِي رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

"كُلُّ طَلَاقٍ جَاءَ جَمِيعًا فَإِنَّهُ يُجْزِئُ عَنْهُ وَاحِدَةٌ."
ترجمہ:
"ہر طلاق جو ایک ساتھ (یعنی ایک مجلس میں) دی جائے، وہ اس کے حق میں ایک ہی طلاق شمار ہوگی۔”
(المصنف لابن ابی شیبہ، جلد 5، صفحہ 11، الأثر رقم: 25043؛ السنن الکبریٰ للبیہقی، جلد 7، صفحہ 337؛ المغنی لابن قدامہ، جلد 7، صفحہ 336)

(4) محدثین جو ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک شمار کرتے تھے

تابعین اور بزرگانِ دین و نیک ائمہ رحمہم اللہ کے اقوال اور حوالہ جات بالتفصیل کتب میں موجود ہیں، جیسے: عکرمہ مولیٰ ابن عباس (ت 105ھ)، طاؤس بن کیسان یمانی (ت 106ھ)، عطا بن ابی رباح (ت 114ھ)، جابر بن یزید الجعفی (ت 128ھ)، قاسم بن محمد بن ابی بکر (ت 106ھ)، زید بن علی بن حسین (ت 122ھ) وغیرہ۔ یہ سب ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کرتے تھے۔

شیعہ کا بھی یہی موقف ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی ہیں۔

عربی عبارت:

"وَإِذَا طَلَّقَهَا ثَلَاثًا بِكَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ، أَوْ فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ، فَإِنَّهَا تُحْسَبُ طَلْقَةً وَاحِدَةً."
ترجمہ:
"اگر کوئی شخص ایک ہی کلمہ میں یا ایک ہی مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے، تو یہ ایک طلاق شمار کی جائے گی۔”
(الشیخ الطوسی، المبسوط فی فقہ الامامیۃ، جلد 6، صفحہ 76، دار الکتاب الاسلامی، قم)

دیگر شیعہ مصادر میں بھی یہی ملتا ہے۔

احناف (فقہاء اور محدثین) کا بھی ایک مؤقف یہ رہا ہے کہ اگر تین طلاقیں ایک ساتھ، ایک مجلس میں دی جائیں، تو صرف ایک طلاق واقع ہوتی ہے یا بعض کے نزدیک بالکل بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ یہ موقف اہل کوفہ کے بعض فقہاء اور ائمہ سے منسوب ہے، جیسا کہ حجاج بن ارطاۃ کوفی (ت 145ھ)، محمد بن مقاتل رازی حنفی (ت 248ھ) وغیرہ۔

مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی کتاب "بہشتی زیور” میں طلاق سے متعلق جو مسئلہ بیان کیا گیا، اس کی عبارت ملاحظہ کیجئے:

"کسی نے تین دفعہ کہا: تجھ کو طلاق، طلاق، طلاق؛ تو تینوں طلاقیں پڑ گئیں۔ یا گول مول الفاظ میں تین مرتبہ کہا، تب بھی تینوں طلاقیں پڑ گئیں۔ لیکن اگر نیت ایک ہی طلاق کی ہے، فقط مضبوطی کے لیے تین دفعہ کہا تھا کہ بات خوب پکی ہو جائے، تو ایک ہی طلاق ہوئی۔ لیکن عورت کو اس کے دل کا حال معلوم نہیں، اس لیے یہی سمجھیں گے کہ تین طلاقیں مل گئیں۔”

دوسری کتب میں بھی کئی اقوال موجود ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی طلاق قرار دی جاتی ہیں، مثلاً:

امام محمد بن مقاتل رازی حنفی
امام طحاوی رحمہ اللہ کی "شرح معانی الآثار”
علامہ عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ "عمدۃ الرعایۃ شرح مختصر القدوری” وغیرہ۔

انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے بھی "فیض الباری” میں وضاحت کی ہے۔
علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ نے "عمدۃ القاری” شرح صحیح بخاری میں فرمایا ہے کہ اگر ایک مجلس میں آدمی اپنی بیوی کو تین طلاقیں ایک ساتھ دے تو یہ ایک ہی طلاق پڑے گی۔

تنبیہ:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق قرار دیتے تھے، لیکن جب لوگوں نے طلاق دینے میں جلدی شروع کر دی اور بیک وقت تین طلاقیں دے کر نتیجتاً عورتوں کو نقصان پہنچانے لگے، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان پر بعض تعزیری اقدامات کیے کہ شاید وہ اس طرح سے باز آ جائیں۔

جیسے کہ کتاب "الفاروق عمر” از محمد حسین ہیکل (جلد 2، صفحہ 286) میں ذکر ہے کہ لونڈیوں کی کثرت کے سبب لوگ اس طرح جلدی جلدی تین طلاقیں دینے لگے۔

اسی لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اکثر ایسے مرد کو سزا (کوڑوں کی شکل میں) دیتے، اور عارضی طور پر ایسی طلاق کو واقع قرار دیتے تاکہ لوگ اس غلط کام سے رک جائیں۔

"أَنَّ عُمَرَ كَانَ إِذَا أُتِيَ بِرَجُلٍ طَلَّقَ ٱمْرَأَتَهُ ثَلَاثًا أَوْجَعَ ظَهْرَهُ."
ترجمہ: "جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اطلاع ملتی کہ کسی نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دی ہیں تو وہ اس کی پیٹھ پر سخت مار لگاتے تھے۔”
(سنن سعید بن منصور، کتاب الطلاق، حدیث 1073؛ فتح الباری، کتاب الطلاق، حدیث 3629)

اور بعض آثار کے مطابق آخری دور میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خود فرمایا کہ کاش میں نے تین طلاقوں کو ایک ہی نہ قرار دیا ہوتا یا کاش میں اس کو برقرار نہ رکھتا وغیرہ۔ یہ سب اس مصلحت اور وقتی حکم کی بنا پر تھا۔

نوٹ:
بہرحال بہت سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم (مثلاً علی، ابنِ مسعود، ابنِ عباس، زبیر بن عوام، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم) اس کے خلاف تھے اور اس کے باوجود ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی قرار دیتے تھے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ بھی ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق قرار دینے والے اقوال کے قائل یا مؤید ہیں، جیسا کہ
"(فتح الباری، کتاب الطلاق، جلد 9، صفحہ 363)” میں موجود ہے۔

خلاصہ

ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق قرار دیا جائے گا، اور یہی نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1