تیمم کا بیان
تیمم ایک شرعی طریقہ ہے جو اس وقت اختیار کیا جاتا ہے جب پانی میسر نہ ہو۔ اس میں پاک مٹی کو وضو یا غسل کی نیت سے چہرے اور ہاتھوں پر مل لیا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں تیمم کی مشروعیت، اس کے جواز کی صورتیں، طریقہ اور اہم مسائل ذیل میں تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں:
تیمم کی تعریف
جب پانی نہ ملے تو پاک مٹی کو استعمال کرتے ہوئے چہرہ اور ہاتھوں پر مسح کرنا تیمم کہلاتا ہے۔
تیمم وضو یا غسل کے متبادل کے طور پر استعمال ہوتا ہے، جب پانی میسر نہ ہو یا استعمال کرنا ممکن نہ ہو۔
پانی کی عدم دستیابی کی مختلف صورتیں
◈ سفر کے دوران پانی نہ ملنا۔
◈ پانی تک رسائی جان کے خطرے کا باعث ہو، جیسے:
گھر میں پانی نہ ہونا اور باہر کرفیو لگا ہونا۔
پانی لانے میں دشمن یا درندے سے جان کا خطرہ ہونا۔
اگر ایسی صورتحال کئی برس تک بھی قائم رہے، تب بھی تیمم جائز رہے گا۔
حدیث:
سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’پاک مٹی مسلمانوں کا وضو ہے اگرچہ دس برس پانی نہ پائے۔‘‘
(ابوداود، الطھارۃ، باب الجنب یتیمم، ۲۳۳، ترمذی: ۴۲۱)
تیمم کی مشروعیت کا واقعہ
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر پر تھے۔ جب ہم بیدا یا ذات الجیش پہنچے تو میرا ہار گم ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکنے کا حکم دیا۔ وہاں پانی نہ تھا۔ پھر صبح ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل فرمائی۔‘‘
اس موقع پر سیدنا اسید بن خضیر رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’اے ابو بکر کی اولاد! یہ تمہاری پہلی برکت نہیں ہے۔‘‘
(بخاری، کتاب التیمم: ۴۳۳، مسلم: ۷۶۳)
جنابت کی حالت میں تیمم
اگر جنابت کی حالت میں پانی نہ ملے یا اتنا کم ہو کہ وضو بھی نہ ہو سکے، تو تیمم کیا جا سکتا ہے۔
حدیث:
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
’’ایک شخص جنبی ہو گیا اور پانی نہ ملا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تجھ پر مٹی (سے تیمم کرنا) لازم ہے۔ پس وہ تیرے لیے کافی ہے۔‘‘
(بخاری: ۴۴۳، مسلم: ۲۸۶)
تیمم برائے مریض یا زخمی
اگر کوئی شخص بیمار ہو، کمزور ہو یا پانی استعمال کرنے سے ہلاکت یا بیماری کا خطرہ ہو، تو وہ تیمم کر سکتا ہے۔
حدیث:
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
’’سردی کے موسم میں ایک شخص نے غسل کیا تو وہ مر گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ان لوگوں نے اسے مار ڈالا۔ اﷲ ان کو مارے، بیشک اللہ تعالیٰ نے مٹی کو پاک کرنے والا بنایا ہے۔‘‘
(ابن خزیمۃ ۱/۸۳۱، ابن حبان ۱۰۰۲، حاکم ۱/۵۶۱)
واقعہ:
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’غزوہ ذات السلاسل میں مجھے سرد رات کو احتلام ہو گیا۔ میں نے تیمم کر کے نماز ادا کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب یہ بات پیش کی گئی تو آپ ہنس پڑے اور کچھ نہ فرمایا۔‘‘
(ابو داؤد، الطھارۃ، اذا خاف الجنب البرد، ۴۳۳)
تیمم کا طریقہ
◈ نیت کرے۔
◈ پاک زمین پر دونوں ہاتھ مارے۔
◈ دونوں ہاتھوں اور چہرے پر مسح کرے۔
حدیث:
سیدنا عمار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تمہارے لیے صرف یہی کافی تھا۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ زمین پر مارے، ان پر پھونک ماری، اور ان سے چہرے اور دونوں ہاتھوں پر مسح کیا۔‘‘
(بخاری: ۸۳۳، مسلم: ۸۶۳)
ایک اور روایت:
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تمہارے لیے صرف یہی کافی تھا۔‘‘
پھر ہاتھ زمین پر مارے، پھونکا، ہاتھوں پر اور پھر چہرے پر مسح کیا۔‘‘
(بخاری، باب التیمم ضربۃ، ۷۴۳)
پانی ملنے کے بعد نماز کا لوٹانا
سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’دو آدمیوں نے تیمم کر کے نماز پڑھی۔ بعد میں پانی ملا اور نماز کا وقت باقی تھا۔ ایک نے نماز لوٹائی، دوسرے نے نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے نماز نہ لوٹائی، اس نے سنت پر عمل کیا۔ اور جس نے نماز لوٹائی، اس کے لیے زیادہ اجر ہے۔‘‘
(نسائی، الغسل، باب التیمم لمن یجد الماء بعد الصلوۃ: ۳۳۴)
تنبیہات
﴿فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْداً طَیِّبًا﴾
(النساء ۴/۳۴)
کے مطابق تیمم صرف پاک مٹی سے جائز ہے۔
◈ شور والی زمین اور ریت سے بھی تیمم کرنا جائز ہے۔
◈ ایک تیمم سے کئی نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں، جیسے وضو سے پڑھی جاتی ہیں۔
◈ جن امور سے وضو ٹوٹتا ہے، انہی سے تیمم بھی ٹوٹ جاتا ہے۔
◈ اگر نماز کے بعد پانی مل جائے تو وضو کر کے نماز کو دہرانا مستحب ہے، لازم نہیں۔