توسل اور صدقہ سے دعا کے 8 پہلو قرآن و حدیث کی روشنی میں
ماخوذ : فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری، جلد 1، صفحہ 41

کسی کے وسیلے اور صدقہ کے ساتھ دعا مانگنے کا حکم

سوال

کیا کسی کے وسیلے اور صدقے کے ساتھ دعا مانگنا جائز ہے؟ مثلاً ایک شخص یہ کہے:
"اے اللہ! اپنے رسول پاک کے صدقے میں میری بیماری دور فرما، یا قرآن کے طفیل میرے گناہ معاف فرما، یا فلاں بزرگ کے وسیلے سے ہمارے اموال و جائیداد میں ترقی عطا فرما”۔
کچھ علماء کا کہنا ہے کہ حضرت مولانا اسمعیل شہید رحمہ اللہ کے نزدیک یہ شرک ہے، جبکہ کچھ حنفی علما نے اس طرز دعا کو مستحسن، بعض نے جائز، اور بعض نے اسے دعا کی قبولیت کے لیے ضروری قرار دیا۔

پیش کی گئی دلائل

حدیثِ استسقاء

بعض علماء نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے دعا کرنا بطور دلیل پیش کیا۔

حدیثِ صلاة الحاجہ

حدیث:
’’من كانت له ضرورة، فليتوضأ فيحسن وضوئه يصلي ركعتين ، ثم يدعو: اللهم اسلك وااوجه اليك بنبيك محمد نبى الرحمة، يا محمد اني اتوجه بك الي ربي في حاجتي هذه، لتقصي لي، اللهم شفعة في‘‘
(ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ترمذی: کتاب الدعوات باب: 119 (3578) 5/569، ابن ماجہ: کتاب الصلاۃ باب ما جاء في صلاة الحاجہ (1384) 1/442)

درود شریف کے الفاظ

’’اللهم صلي علي محمد وسيلتي اليك وآله وسلم صلي الله عليك يا محمد‘‘

شیخ سعدیؒ کے اشعار

’’خدایا بحق بنی فاطمہؓ…‘‘

جواب

اسلامی اصول: اعمال کو قرآن و سنت کی روشنی میں پرکھنا

ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے تمام دینی معاملات کو قرآن و حدیث کی کسوٹی پر پرکھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿فَإِن تَنـٰزَعتُم فى شَىءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسولِ﴾
(النساء: 59)

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد:
’’من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد‘‘
(بخاری: کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور فهو مردود 3/167، مسلم: کتاب الاقضیہ، باب نقض الأحکام الباطلۃ (1718) 3/1343)

مروجہ توسل کی شرعی حیثیت

سوال میں جو طریقہ بیان ہوا یعنی:
◈ کسی کے وسیلے یا صدقے سے دعا کرنا
◈ جس میں اس شخص کا زندہ ہونا، اس کا علم رکھنا یا دعا میں شامل ہونا ضروری نہیں ہوتا
یہ نہ قرآن سے ثابت ہے، نہ صحیح احادیث سے، نہ صحابہ کرام، تابعین یا ائمہ مجتہدین سے۔ لہٰذا یہ طریقہ بدعت ہے اور اس سے بچنا ضروری ہے۔

مولوی انور شاہ کشمیریؒ کی وضاحت

’’توسل بین السلف ایسا نہیں تھا جیسا آج کل رائج ہے۔ اگر وہ توسل کرتے تو اُس شخص کو ساتھ لے جاتے اور اُس سے دعا کرواتے… جبکہ آج کل کے توسل میں صرف نام لینا اور اُس کی زندگی یا شعور کی شرط بھی نہیں ہوتی… یہ بات میں نہ تو سلف سے ثابت مانتا ہوں اور نہ ہی انکار کرتا ہوں‘‘
(فیض الباری 3/433)

توسل کے متعلق دیگر تفصیلات

حدیث استسقاء

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
’’عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ذریعے بارش کی دعا کی، فرمایا: اے اللہ! پہلے ہم نبی کے وسیلے سے تجھ سے بارش مانگتے تھے، اب نبی کے چچا کے ذریعے مانگتے ہیں۔‘‘
(صحیح بخاری: کتاب الصلاۃ، باب سؤال الناس الامام الاستسقاء اذا قحطوا 2/15)

🔹 اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نے ہمیشہ زندہ بزرگ کی دعا کے ذریعے توسل کیا۔ اگر میت کے وسیلے سے دعا کرنا جائز ہوتا تو صحابہ حضرت محمد ﷺ کی وفات کے بعد بھی انہی سے توسل کرتے۔

توسل بالدعا

’’اللهم فشفعه في‘‘
سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا کے ذریعے توسل ہوا، اور وہ بھی نبی ﷺ کی حیات میں۔

ضعیف دلائل اور غیر معتبر اقوال

◈ طبرانی کی روایت: جس میں حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کا توسل بالمیت ثابت کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن اس میں روح بن صلاح ہے جو ضعیف راوی ہے۔
◈ درود کے مخصوص الفاظ: سوال میں بیان کردہ الفاظ کسی صحیح یا ضعیف حدیث سے بھی ثابت نہیں۔
◈ شیخ سعدیؒ کے اشعار: نہ وہ نبی ہیں اور نہ اُن کا کلام شرعی حجت ہے۔

احناف کا موقف

ابوالحسن القدوری رحمہ اللہ نے شرح کتاب الکرخی میں فرمایا:
’’امام ابو یوسف نے امام ابو حنیفہ سے نقل کیا کہ کوئی اللہ سے صرف اللہ کے ذریعے ہی دعا مانگے، اور میں ناپسند کرتا ہوں کہ کوئی یوں کہے: ’’اے اللہ! تجھ سے عرش کے معقدات، انبیاء، اولیاء یا بیت اللہ کے حق کے واسطے مانگتا ہوں‘‘

نعمان خیرالدین الحنفی ’’جلاء العینین‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ابو یوسف سے مروی ہے کہ امام ابو حنیفہ دعا میں انبیاء، اولیاء، بیت اللہ کے حق سے توسل کو مکروہ تحریمی بلکہ جہنم میں لے جانے والا عمل مانتے تھے‘‘

خلاصہ کلام

شیخ مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’نبی ﷺ سے زندگی میں توسل، یعنی اُن کی دعا سے توسل، جائز ہے۔ اسی طرح زندہ نیک لوگوں کی دعا سے بھی توسل جائز ہے۔ لیکن نبی ﷺ یا دیگر نیک افراد کی وفات کے بعد ان کے وسیلے سے دعا کرنا جائز نہیں‘‘
(شرح ترمذی 4/283)

بعض دیوبندی علماء کی وضاحت

’’ہم جس توسل کے قائل ہیں، اس میں اللہ ہی کو مؤثرِ حقیقی مانا جاتا ہے، اور نیک بندوں کے ساتھ اللہ کے تعلق کو وسیلہ مانا جاتا ہے نہ کہ اُن بندوں کو خود۔ دعا میں توحید کا لحاظ رکھا جائے، اور بندوں کو مؤثر نہ سمجھا جائے‘‘
(حاشیہ البنیان المشید ترجمہ البرہان الموید)

نتیجہ

◈ توسل مروجہ (یعنی میت یا غیر حاضر شخص کے نام یا صدقے سے دعا کرنا) بدعت ہے۔
◈ توسل بالدعا (زندہ نیک شخص سے دعا کروانا) جائز ہے۔
◈ قرآن، حدیث اور سلف صالحین کا عمل صرف دوسرے طریقے کو ہی جائز قرار دیتا ہے۔

ھذا ما عندی، واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1