اللہ کے ایک ہونے کا مطلب کیا ہے؟
1. کلمے کا سادہ مطلب
کلمۂ طیبہ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کا مفہوم عام طور پر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ
“اللہ ایک ہے”
یا
“اللہ کا کوئی شریک نہیں۔”
سورۃ الاخلاص "قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ” میں بھی اسی مفہوم کی وضاحت ملتی ہے۔ یہ بات تقریباً ہر کلمہ پڑھنے والا — خواہ کسی بھی گروہ سے ہو — تسلیم کرتا ہے اور اسے اسلام کی بنیاد سمجھتا ہے۔
لیکن یہ "اللہ ایک ہے” کا مختصر جملہ ایک وسیع معنی رکھتا ہے۔ صرف اتنا کہہ دینا کہ "اللہ ایک ہے” کافی نہیں، جب تک اُس کی حقیقی مراد اور حقیقت کو نہ سمجھا جائے۔
2. تمام قومیں اللہ کو ایک مانتی ہیں
ہندو، سکھ، پارسی، عیسائی، یہودی، مجوسی وغیرہ سب نہ صرف اللہ کے وجود بلکہ کسی نہ کسی شکل میں اس کے ایک ہونے کو بھی مانتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ سب مشرک ہیں۔ حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے مشرکینِ مکہ بھی اللہ کے ایک ہونے کے قائل تھے۔ قرآن مجید میں اس کی صراحت کئی مقامات پر موجود ہے۔
لہٰذا اصل مسئلہ یہ نہیں کہ “اللہ کو ایک کہا جائے یا مانا جائے”، بلکہ سوال یہ ہے کہ اللہ کے ایک ہونے کا صحیح مطلب کیا ہے؟ اور مختلف گروہوں نے اس کے برعکس کیا مطلب نکالا ہے؟
3. ایک ماننے کے باوجود مشرک
عیسائی اللہ کو ایک سمجھتے ہیں، لیکن اس ایک ہونے سے یہ لازم نہیں مانتے کہ اس کی کوئی اولاد نہ ہو (معاذ اللہ)۔ ہندو بھی آخری درجے میں کسی ایک بھگوان کو مانتے ہیں، مگر اس کے ساتھ بے شمار اوتار اور دیوی دیوتا رکھتے ہیں۔
ایسے ہی، بہت سے نام نہاد “مسلمان” بھی اللہ کو ایک مانتے ہیں، لیکن کچھ ایسے عقائد و اعمال اختیار کرتے ہیں جو توحید کے خلاف ہوتے ہیں۔ مگر وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ان کے “ایک ماننے” کے عقیدے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
4. مشرک ہونے کی وجہ
ان سب کی مشترکہ وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کے ایک ہونے کے مکمل اور صحیح مفہوم سے ناواقف ہیں۔ اگر ان پر یہ مفہوم واضح ہوجائے تو وہ اپنی غلط روش ترک کردیں۔ چنانچہ:
-
عیسائی اپنی گمراہی چھوڑ کر صرف اللہ کی توحید پر آجائیں؛
-
ہندو اپنا دَھرم چھوڑدیں؛
-
اور نام نہاد “مسلمان” — جن کے عقائد یا اعمال شرک سے آلودہ ہیں — سچے مسلمان بن جائیں۔
جن قوموں میں اللہ نے اپنے رسول بھیجے، وہ سب قومیں اللہ کے وجود کو مانتی تھیں اور اپنے زعم میں اسے ایک بھی کہتی تھیں، لیکن انہوں نے اس “ایک” ہونے کے مفہوم کی خلاف ورزی کی شکلیں اپنا رکھی تھیں۔ اسی بنا پر وہ مشرک اور کافر کہلائیں۔
5. ایک ماننے کی مخالفت کے انداز
ماضی کے مشرکین اور آج کے مشرکین بھی یہ نہیں کہتے کہ "اللہ دو ہیں” یا "اللہ بہت سارے ہیں” (معاذ اللہ)۔ بلکہ وہ دوسرا طریقہ اپناتے ہیں:
-
یا تو خالق کی بعض صفات میں نقص مان کر اسے مخلوق کے جیسا قرار دیتے ہیں (مثلاً خالق مخلوق میں حلول کرجائے، یا اس کی کوئی صفت انسانی جسم میں آ جائے)؛
-
یا پھر کسی مخلوق کو اس کی صفات میں اللہ جیسی قدرت یا ملکیت کا حامل ٹھہراتے ہیں۔
دونوں صورتوں میں وہ اپنے آپ کو “اللہ کو ایک ماننے والا” ہی سمجھتے ہیں، لیکن دراصل ایک نہ ہونے کے نظریے کی عملی مخالفت کر رہے ہوتے ہیں۔
6. اللہ کے ایک ہونے کا مطلب کہاں سے لیا جائے؟
اللہ کے ایک ہونے کا صحیح عقیدہ اس کی صفات کے تعارف اور بھرپور مطالعے سے حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات خود بیان فرمائی ہیں اور انبیاء علیہم السلام نے وحی کے ذریعے ان کی وضاحت کی ہے۔ قرآن مجید صفاتِ الٰہیہ کے تذکروں سے بھرا پڑا ہے۔
کائنات کے ان گنت مظاہر اور خود انسان کے اپنے اندر بھی بے شمار نشانیاں موجود ہیں جو اللہ کے ایک ہونے کی گواہی دیتی ہیں۔
7. اللہ کے ایک ہونے کے تصور کی بنیاد
اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور تمام صفات میں یکتا اور بے مثال ہے۔ اسی اصل پر عقیدۂ توحید کا دارومدار ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ (الشورٰی: 11)
“کوئی بھی چیز اللہ جیسی نہیں۔”
اور
وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ (الاخلاص:4)
“اور کوئی بھی اس کا ہم سر نہیں۔”
8. ایک ہونے کے صحیح تصور کی وضاحت
“اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں” کا مطلب صرف یہ نہیں کہ کوئی شے “مکمل طور پر” اللہ کے برابر نہیں ہوسکتی، بلکہ یہ بھی ہے کہ کوئی شے “کسی بھی درجے میں اور کسی بھی لحاظ سے” اللہ کے جیسی نہیں ہوسکتی۔ ذرہ بھر مشابہت بھی محال ہے۔ مخلوق کی کوئی صفت، اللہ کی کسی صفت کے ہم پلہ یا مشابہ نہیں ہوسکتی۔
-
اللہ سننے والا ہے تو مخلوق کا سننا اللہ کے سننے جیسا نہیں ہوسکتا، نہ کم نہ زیادہ۔
-
اللہ دیکھنے والا ہے تو مخلوق کا دیکھنا اس کے دیکھنے جیسا نہیں ہوسکتا۔
-
اللہ ہر شے کا علم رکھتا ہے تو مخلوق کا جاننا بھی اس کے جاننے جیسا نہیں ہو سکتا۔
-
اللہ قادرِ مطلق ہے تو مخلوق کی کسی قدر اختیار و قدرت کا اللہ کی قدرت سے ذرہ برابر بھی مقابلہ نہیں۔
9. خالق و مخلوق کی صفات کا اصل فرق
خالق اپنی ہر صفت میں بے حد و حساب ہے، وہ ہر سبب اور وسیلے سے بے نیاز ہے۔
مخلوق کی ہر صفت محدود اور خاص اسباب کی پابند ہے، جن کے دائرے سے باہر وہ نکل نہیں سکتی۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اللہ کی صفات لامحدود اور وسیع ہیں، اور کچھ “برگزیدہ” مخلوق میں اللہ جیسی صفات محدود درجے میں پائی جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سراسر غلط سوچ ہے۔ صفات الٰہیہ کسی محدود شکل میں بھی مخلوق کو عطا نہیں ہوسکتیں۔
10. اللہ اسباب سے بے نیاز ہے
قرآن مجید میں ارشاد ہے:
اِنَّمَا اَمْرُہٗٓ اِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ (یٰس: 82)
“جب وہ (اللہ) کسی کام کا ارادہ فرما لے تو اسے حکم دیتا ہے کہ ‘ہوجا’ تو وہ فوراً ہوجاتا ہے۔”
اللہ تعالیٰ کے کسی کام کے لیے اسباب و وسائل، سامان اور ذرائع کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ سب سے بالاتر ہے۔ الٹا یہی اسباب و ذرائع اپنے وجود اور اثرات کے لیے اللہ کے محتاج ہیں۔
11. تمام مخلوقات اسباب کی پابند ہیں
انسان اور دیگر تمام مخلوقات جب کوئی کام کرتی ہیں تو انہیں اسباب اور وسائل درکار ہوتے ہیں جو خود مخلوق ہیں۔ اس دنیا کا نظام اسی اصول پر جاری ہے۔
-
اللہ تعالیٰ نے جس چیز کے لیے جو سبب مقرر کردیا ہے، مخلوق کے لیے اس سبب کا ہونا ضروری ہے۔
-
اگر یہ سبب نہ ہو تو مخلوق اس کام سے عاجز رہتی ہے۔
12. مخلوق کی صفات کی حدود
مخلوق کی صفات کے محدود ہونے کی وجہ یہی ہے کہ وہ اسباب کی قید میں ہے۔ اللہ کی صفات لامحدود ہیں کیونکہ وہ ان اسباب سے بالکل آزاد اور بلندتر ہے۔
13. فرق کی مزید وضاحت
-
انسان سنتا ہے تو ہوا، کان، سماعت کے پورے نظام جیسے اسباب لازمی ہیں۔ اگر ذرا سی ہوا رک جائے تو آواز انسان تک پہنچ ہی نہیں سکتی۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کو سننے کے لیے ان میں سے کسی چیز کی حاجت نہیں۔
-
انسان دیکھتا ہے تو روشنی وغیرہ کا موجود ہونا ضروری ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ اندھیرے سمیت ہر حال میں دیکھنے پر قادر ہے، اسے کسی وسیلے کی ضرورت نہیں۔
-
انسان کی نظر ایک محدود دائرے تک محدود ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے فاصلوں کا کوئی معنی نہیں۔
یہی سب سے نمایاں فرق ہے:
خالق ہر سبب اور وسیلے سے آزاد،
جب کہ مخلوق اپنے ہر کام کے لیے اسباب کی محتاج۔
14. اسباب سے کیا مراد ہے؟
مادی یا ظاہری اسباب سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جن سے انسان کو دنیا کی زندگی میں مدد ملتی ہے، جیسے آگ، پانی، مٹی اور ہوا وغیرہ۔ یہی چار بنیادی عناصر ہیں جن سے مزید بے شمار اشیاء جنم لیتی ہیں اور دنیا میں انسان کے کام آتی ہیں۔
15. اسباب کا اثر مخصوص اصولوں کے تحت ہوتا ہے
اللہ تعالیٰ نے ان چار بنیادی عناصر اور ان سے پیدا ہونے والی اشیاء کے لیے چند طبعی یا سائنسی قوانین مقرر فرمادیے ہیں۔ دنیا کے جتنے بھی جمادات، نباتات، حیوانات اور انسانی اعمال ہیں، سب انہی قوانین کے ماتحت عمل کرتے ہیں۔ یہ قوانین اٹل ہیں اور انسانی طاقت انہی کے اندر رہتے ہوئے کچھ کر سکتی ہے۔
16. انسان کی قوت و اختیار کی حدود
انسان جتنے بھی کام کرتا ہے، وہ انہی اسباب و قوانین کی حدود میں رہ کر کرتا ہے۔
-
ہوا سے بھاری چیز آزاد چھوڑ دی جائے تو نیچے آگرے گی (طبعی قانون)۔
-
ہاں، اگر کوئی اور قانون (مثلاً قوت کے بعض اصول) عمل میں لایا جائے تو وہ چیز اوپر اٹھ سکتی ہے، یا ہوا میں معلق بھی ہوسکتی ہے (مثلاً ہوائی جہاز، ڈرون، غبارہ وغیرہ)۔
یہ سب کچھ اسباب ہی کے دائرے میں ہے۔ انسان کسی سبب کے بغیر کائنات میں ذرا برابر بھی تغیر نہیں کرسکتا۔
17. اسباب و قوانین اللہ کے محکوم ہیں
اللہ تعالیٰ کا اختیار اتنا کامل ہے کہ یہ اسباب اور قوانین خود اس کے فرمان کے پابند ہیں۔ جب وہ چاہے، ان قوانین کو توڑ دیتا ہے یا ان میں سے اثرات نکال دیتا ہے۔
-
پانی پر چلنا یا جمادات کا حرکت میں آ جانا عام اصولوں کے خلاف ہے، لیکن اللہ چاہے تو یہ سب کچھ بلا سبب ممکن ہے۔
-
اس لیے کسی خلافِ معمول واقعے کے حدوث کی نسبت صرف اللہ کی طرف کی جانی چاہیے کہ وہی اسباب سے بالاتر ہے۔
18. کچھ اور سائنسی قوانین
طبی اصول بھی انہی طبیعی قوانین میں سے ہیں۔ مثلاً ایک مردہ آدمی خود نہیں جی سکتا، ایک بوڑھا یا نومولود اچانک جوان نہیں ہوسکتا، کوئی شخص طویل عرصے بغیر خوراک و پانی کے زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہ سب طبیعی قوانین ہیں اور سب انسان — نبی ہو یا ولی — اسی کے پابند ہیں۔ البتہ اللہ چاہے تو انہی قوانین کو توڑ دے۔
19. اسباب کی پابندی میں تمام انسان یکساں ہیں
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے جو اسباب مقرر کیے، وہ سب کے سب انبیاء اور اولیائے کرام کے لیے بھی یکساں ہیں۔ وہ بھی کھاتے پیتے تھے، بیمار ہوتے تھے، تکلیف اور پریشانی محسوس کرتے تھے۔ اگر وہ اسباب کے پابند نہ ہوتے تو خود کو تکلیفوں سے آزاد کرلیتے۔ یہی دلیل ہے کہ انبیاء علیہم السلام بشری تقاضوں اور اسباب کے بندھن میں ہی زندگی گزارتے تھے۔
20. اللہ اپنے اختیار کا اظہار کس طرح کرتا ہے؟ (معجزات و کرامات)
بسا اوقات اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کے اظہار اور اپنے نبی یا ولی کی مدد کے لیے معجزہ یا کرامت ظہور میں لے آتا ہے۔ یہ خلافِ معمول کام ہوتے ہیں اور ان میں انبیاء یا اولیاء کا اپنا اختیار یا مرضی نہیں چلتی۔ انبیاء سے یہ ظاہر ہوں تو معجزہ، اور اولیاء سے ظاہر ہوں تو کرامت کہلاتے ہیں۔
-
یہ کام نہ تو انبیاء کے ہاتھ میں ہوتے ہیں کہ جب چاہیں خود کرلیں۔
-
نہ اولیاء اپنی مرضی سے ان کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔
ان کا اصل مقصد اللہ کی قدرت کی نشانی دکھانا اور نبی یا ولی کی سچائی کو ثابت کرنا ہوتا ہے۔
21. معجزات انبیاء کے اختیار میں نہیں ہوتے
معجزہ ہونے کی اصل یہ ہے کہ اللہ چاہے تو آگ جلانے کی صلاحیت کھودے (سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ)، چاند دو ٹکڑے ہوجائے (شق القمر کا واقعہ)، یا سمندر راستہ دے دے (موسیٰ علیہ السلام کے لیے دریا کا پھٹنا)۔ یہ سب اللہ کے “کُن” کے مظاہر ہیں۔
انبیاء علیہم السلام کو یہ معجزہ “اپنے اختیار سے” نہیں سونپا جاتا کہ جب چاہیں نمودار کردیں۔ اللہ چاہے تو بنا اسباب، جب چاہے ظاہر فرما دے۔
22. اللہ اپنے اختیارات کسی کو نہیں دیتا
اللہ تعالیٰ اکیلا ہی تمام مخلوقات کا مالک و مختار ہے۔ وہ ہر کام کو جیسے چاہے اور جب چاہے کرنے پر قادر ہے۔ اسے کوئی ذریعہ یا وسیلہ چاہیے ہی نہیں۔ اب اگر وہ کسی بندے کو اپنی ہی طرح ذرہ برابر اختیار بھی دے دے تو وہ شرک کے مترادف ہوگا (نعوذ باللہ)۔
اگر اللہ کسی مخلوق کو اپنی ایک صفت یا تھوڑا اختیار بھی دے دے تو باقی صفات دینے میں کیا رکاوٹ؟ پھر خالق و مخلوق میں فرق ہی ختم ہوجائے گا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کسی مخلوق کو اپنی صفات سے ایک ذرہ بھی عطا نہیں کرتا۔
وَلَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖ اَحَدًا (الکہف:26)
“اور وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔”
23. کیا وفات کے بعد اختیارات میں اضافہ ممکن ہے؟
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ انبیاء اور اولیاء کو وفات کے بعد بہت سے اختیارات مل جاتے ہیں، وہ دور و نزدیک سب کی پکار سنتے، مشکل کشائی کرتے اور لوگوں کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں۔ حالانکہ اس کی قرآن و حدیث اور صحابہ کے عمل میں ایک ذرّہ بھی دلیل نہیں ملتی۔ یہ دراصل عوام کی گھڑی ہوئی روایات اور شیطانی افکار ہیں۔
24. روحوں کو دنیا میں آنے کی ضرورت نہیں
انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام کی ارواح کو اللہ کی طرف سے جنتوں کی وہ نعمتیں ملتی ہیں جن کے بعد انہیں دنیا کے مادی معاملات میں دوبارہ لوٹنے کی کوئی حاجت نہیں رہتی۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ اپنی حاجتوں کے لیے نہیں بلکہ ہمارے لیے آتے ہیں، تو سوال یہ ہے کہ:
کیا (نعوذ باللہ) اللہ نے ہماری دعائیں سننا چھوڑ دیا ہے؟
کیا ہماری مشکلات کا حل اب فوت شدہ ہستیوں کے ذمے ہے؟
نہیں! اللہ ہر چیز کا اختیار رکھتا ہے، وہی ہر وقت اپنے بندوں کی فریاد سنتا ہے اور حاجت روائی کرتا ہے۔ اسے کسی اور واسطے کی ضرورت نہیں۔
25. روحیں کسی کی مدد نہیں کر سکتیں
اللہ تعالیٰ کی قدرت پر نظر کیجیے: وہ پورے جہان کا خالق و مالک ہے، ہر شے کا رب ہے۔ اگر مخلوق اپنے مرنے کے بعد کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچانے کی طاقت رکھتی تو پھر اللہ کا اختیار کہاں گیا؟
یہ بھی عجیب بات ہے کہ نبی یا ولی اپنی زندگی میں بیمار، تکلیفوں اور آزمائشوں سے دوچار رہے۔ وفات کے بعد یکایک وہ اس قابل ہوجائیں کہ پوری دنیا میں ہر مانگنے والے کی سن لیں یا مشکل دور کردیں! یہ عقیدہ سراسر قرآن و سنت کے خلاف اور خلافِ عقل ہے۔
26. روحوں کی واپسی ممکن ہی نہیں
وفات کے ساتھ ہی ایک انسان کی یہ مادی دنیا ختم ہوجاتی ہے اور اس کی آخرت شروع ہو جاتی ہے۔ قبر میں روح کا تعلق اپنے جسم سے اُخروی قوانین کے مطابق ہوتا ہے، دنیاوی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی فوت شدہ شخص واپس زندہ نہیں ہوتا، نہ اپنے جسم میں آتا ہے اور نہ ہی دنیا میں کہیں چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔
لہٰذا یہ بات یکسر باطل ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کی روحیں یہاں آکر لوگوں کی پریشانیاں دور کرتی ہیں یا ان کی دعائیں سنتی ہیں۔
27. معجزات سے لوگوں کو غلط فہمی
کئی معجزات و کرامات پڑھ کر بعض لوگ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہ ہستیاں یقیناً غیبی طاقت اور اختیار رکھتی تھیں۔ حالانکہ یہ کام اللہ اپنی قدرت سے ان کے ہاتھوں ظاہر کروا دیتا تھا۔ انبیاء یا اولیاء کو نہ اس پر قادرِ مطلق بنایا گیا اور نہ انہیں ساری کائنات کے اسباب پر حکم دے دیا گیا۔
خلاصہ یہ ہے: اگر ہم انبیاء اور اولیاء کو بعض معاملات میں بھی مکمل اختیار والا سمجھتے ہیں، تو ہم ایک بڑے مغالطے کا شکار ہیں۔ یہ “شرکِ اکبر” کا دروازہ کھولتا ہے جس میں لوگ بعد میں انہیں پکارتے، نذر نیاز ان کے نام کرتے اور انہیں مشکلات کا حل سمجھتے ہیں۔
28. عبادت اور اِلٰہ کا مفہوم
عبادت حقیقت میں اس کیفیت کا نام ہے جس میں:
-
انتہائی درجے کی تعظیم، خشیت، خوف اور محبت ہو،
-
مشکل وقت میں مدد کے لیے پکارا جائے،
-
حاجت روائی کا یقین رکھا جائے،
-
اسی کے نام پر نذر، قربانی وغیرہ کی جائے۔
اگر یہ سب کسی ہستی کے لیے کیا جارہا ہے تو وہ ہستی اِلٰہ اور معبود بن جاتی ہے۔ مشرکینِ مکہ بھی اللہ کو ایک کہہ کر اپنی “پسندیدہ ہستیوں” کو ان صفات کا حامل مان کر ان کی عبادت کیا کرتے تھے۔
29. زندگی کا اصل اور اولین مقصد
اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کو “اپنی عبادت” کے لیے پیدا فرمایا ہے:
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات:56)
“اور میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔”
اسی کی خاطر اللہ نے مختلف زمانوں میں انبیاء علیہم السلام کو بھیجا اور توحیدِ عبادت کی دعوت دی۔ قوموں کے کفر کا سبب یہی ہوتا تھا کہ وہ عبادت اور بندگی کے معاملات میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے تھے۔
30. کلمۂ طیبہ کا بنیادی مفہوم
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ یعنی کوئی ہستی (خواہ وہ نبی ہو، ولی ہو یا کوئی اور) اللہ کی کسی ایک بھی صفت میں ذرہ بھر بھی شریک نہیں۔
-
مخلوق کا علم اللہ کے علم جیسا نہیں ہوسکتا،
-
مخلوق دُور و نزدیک سے سب کی پکار نہیں سن سکتی،
-
نفع و نقصان پہنچانے میں بے سبب اختیار نہیں رکھتی،
-
عبادت کی ہر قسم اور درجے کا استحقاق صرف اللہ کو حاصل ہے۔
مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰہ کا مفہوم یہ ہے کہ سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسول اور اس کے بندے ہیں۔
-
آپؐ کی زندگی، سنت اور فرامین مکمل اور آخری سند ہیں،
-
دین میں ہر وہ چیز جو آپؐ اور صحابہؓ سے ثابت نہ ہو، بدعت اور گمراہی ہے،
-
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا۔
یہی وہ عقائد ہیں جو کلمہ گو کو سچا مسلمان اور جنت کا امیدوار بناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے ایک ہونے کا صحیح اور مکمل فہم عطا فرمائے اور شرک کی ہر شکل سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
وَالسَّلَامُ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن