سوال:
ایک شخص جو سچی توبہ کرتا ہے، مگر بعد میں شہوت کے غلبے میں آ کر دوبارہ نافرمانی کر بیٹھتا ہے، پھر سچی توبہ کر لیتا ہے، تو کیا اس کا پہلا گناہ لکھا جائے گا یا نہیں؟ اور جو قول مشہور ہے کہ گناہ چار گھنٹے تک نہیں لکھا جاتا، کیا یہ درست ہے؟
الجواب:
الحمدللہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!
توبہ کرنے سے گناہ معاف ہو جاتا ہے:
جب کوئی بندہ اخلاص کے ساتھ توبہ کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ کو مٹا دیتے ہیں، گویا کہ وہ کبھی ہوا ہی نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ”
(سنن ابن ماجہ، ج2، ص418، حدیث 4250، مشکوٰۃ، ج1، ص206، سند حسن)
اسی طرح حدیث میں ہے کہ:
"اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے سے نہیں تھکتا، جب تک تم توبہ کرنے سے نہ تھک جاؤ۔”
(طبرانی، المعجم الکبیر و الاوسط، سند حسن، مجمع الزوائد، ج10، ص200)
اگر توبہ کے بعد پھر گناہ ہو جائے؟
- اگر کوئی اخلاص کے ساتھ توبہ کرتا ہے، تو اس کا پہلا گناہ مٹا دیا جاتا ہے۔
- اگر وہ بعد میں دوبارہ گناہ کرتا ہے، تو یہ نیا گناہ شمار ہوگا، اور اگر وہ پھر توبہ کر لیتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتے ہیں۔
"جو استغفار کرتا رہتا ہے، وہ اصرار کرنے والا نہیں، خواہ دن میں ستر بار ہی کیوں نہ کرے۔”
(سنن ابی داود، ج1، ص219، سند ضعیف)
کیا گناہ چار گھنٹے تک نہیں لکھا جاتا؟
یہ مشہور قول کسی مستند حدیث سے ثابت نہیں کہ فرشتہ چار گھنٹے تک گناہ نہ لکھے۔ یہ ایک غیر ثابت شدہ بات ہے۔ ہاں، بعض روایات میں آیا ہے کہ نیکی لکھنے والا فرشتہ گناہ لکھنے والے فرشتے کو تاخیر کا کہتا ہے تاکہ توبہ کا موقع ملے، مگر یہ چار گھنٹے کی تخصیص درست نہیں۔
خلاصہ:
- سچی توبہ کے بعد گناہ مٹ جاتا ہے، اگر دوبارہ گناہ ہو تو وہ نیا شمار ہوگا۔
- اللہ تعالیٰ بار بار توبہ قبول فرماتے ہیں، جب تک بندہ اخلاص سے رجوع کرتا رہے۔
- چار گھنٹے تک گناہ نہ لکھنے والی بات کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔
واللہ أعلم بالصواب