تقلید کی دو قسمیں مشہور ہیں:
1. تقلید غیر شخصی (تقلید مطلق):
اس میں تقلید کرنے والا (مقلد) بغیر کسی تعیین و تخصیص کے غیر نبی کی بے دلیل بات کو آنکھیں بند کر کے، بے سوچے سمجھے مانتا ہے۔
تنبیہ:
جاہل کا عالم سے مسئلہ پوچھنا بالکل حق اور صحیح ہے، یہ تقلید نہیں کہلاتا جیسا کہ گزشتہ صفحات پر باحوالہ گزر چکا ہے۔ بعض لوگ غلطی اور غلط فہمی کی وجہ سے اسے تقلید کہتے ہیں حالانکہ یہ غلط ہے۔ ایک جاہل آدمی جب تقی عثمانی دیوبندی یا غلام رسول سعیدی بریلوی سے مسئلہ پوچھ کر عمل کرتا ہے تو کوئی بھی یہ نہیں کہتا اور نہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ شخص تقی عثمانی کا مقلد (تقی عثمانوی) یا غلام رسول کا مقلد (غلام رسولوی) ہے۔
2. تقلید شخصی:
اس میں تقلید کرنے والا (مقلد) تعین و تخصیص کے ساتھ، نبی صلى الله عليه وآله وسلم کے علاوہ کسی ایک شخص کی ہر بات (قول و فعل) کو آنکھیں بند کر کے، بے سوچے سمجھے، اندھا دھند مانتا ہے۔ تقلید شخصی کی دو قسمیں ہیں:
اول: ائمہ اربعہ کے علاوہ کسی زندہ یا مردہ خاص شخص کی تقلید شخصی کرنا۔
دوم: ائمہ اربعہ (ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور احمد رضی اللہ عنہم) میں سے صرف ایک امام کی تقلید شخصی، یعنی بے سوچے سمجھے، اندھا دھند، آنکھیں بند کر کے ہر بات (قول و فعل) کی تقلید کرنا۔ اس دوسری قسم کی آگے دو قسمیں ہیں:
❀ یہ دعویٰ کرنا کہ ہم قرآن و حدیث و اجماع و اجتہاد مانتے ہیں، مسائل منصوصہ میں تقلید نہیں کرتے ہم صرف مسائل اجتہادیہ میں امام ابوحنیفہ اور حنفی مفتی بہا مسائل کی تقلید کرتے ہیں۔ اگر قرآن و حدیث کے خلاف امام کی بات ہو تو ہم چھوڑ دیتے ہیں۔ الخ یہ دعویٰ جدید دیوبندی و بریلوی مناظرین مثلاً یونس نعمانی وغیرہ کا ہے۔
❀ تمام مسائل میں امام ابو حنیفہ اور حنفی مفتی بہا مسائل کی تقلید کرنا، چاہے یہ مسائل قرآن و حدیث کے خلاف اور غیر ثابت بھی ہوں۔ مفتی بہ قول کے مقابلے میں کتاب و سنت و اجماع کو رد کر دینا۔
یہی وہ تقلید ہے جو موجودہ دیوبندی و بریلوی عوام و علماء کی اکثریت کر رہی ہے جیسا کہ آگے حوالہ آرہا ہے۔ تقلید بلا دلیل کی تمام قسمیں غلط و باطل ہیں لیکن تقلید کی یہ قسم انتہائی خطرناک اور گمراہی ہے۔ یہی وہ قسم ہے جس کی اہل حدیث و سلفی علماء و عوام مفتی سے مخالفت کرتے ہیں۔ ہمارے استاد حافظ عبدالمنان نورپوری، اس تقلید کی تشریح درج ذیل الفاظ میں کرتے ہیں:
تقلید یعنی کتاب و سنت کے منافی کسی قول و فعل کو قبول کرنا یا اس پر عمل پیرا ہونا۔
(احکام و مسائل ص 581)
اصول فقہ کے ماہر حافظ ثناء اللہ الزاہدی صاحب لکھتے ہیں:
الإلتزام بفقه معين من الفقهاء والجمود عليه بكل شدة وعصبية، والإحتيال بتصحيح أخطائه إن أمكن وإلا فالإصرار عليها، مع التكلف بتضعيف ما صح من حيث الأدلة من رأى غيره من الفقهاء
یعنی فقہاء میں سے ایک متعین (خاص) فقیہ کی فقہ کا، ہر شدت و تعصب پر جمود کے ساتھ التزام کرنا، اور جتنا ممکن ہو، اس کی غلطیوں کی تصحیح کے لئے حیلے (اور چالاکی) کرنا اور اگر ممکن نہ ہو تو اس پر اصرار کرنا، دوسرے فقہاء کی جو دلیلیں صحیح ثابت ہیں ان کی تضعیف کے لئے پورے تکلف کے ساتھ کوشاں رہنا۔
(تیسیر الاصول ص 328، عربی عبارت کا مفہوم راقم الحروف کا لکھا ہوا ہے)
عین ممکن ہے کہ بعض دیوبندی و بریلوی حضرات اس "تقلید شخصی” کا انکار کر دیں لہذا آپ کی خدمت میں چند حوالے پیش کئے جاتے ہیں:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ عليه وآله وسلم نے فرمایا:
إن المتبايعين بالخيار فى بيعهما ما لم يتفرقا أو يكون البيع خيارا
دکاندار اور گاہک کو اپنے سودے میں (واپسی کا) اختیار ہوتا ہے جب تک دونوں (بلحاظ جسم) جدا نہ ہو جائیں یا (ایک دوسرے کو اختیار دینے والا) سودا ہو۔
(نافع کہتے ہیں کہ): ابن عمر رضی اللہ عنہما جب کوئی پسندیدہ چیز خریدنا چاہتے تو اپنے (بیچنے والے) ساتھی سے (بلحاظ جسم) جدا ہو جاتے تھے۔
(صحیح البخاری، کتاب البیوع، باب کم یجوز الخيار ح 2107، صحیح مسلم: 1531)
حنفی حضرات یہ مسئلہ نہیں مانتے جبکہ امام شافعی و محدثین کرام ان صحیح احادیث کی وجہ سے اسی مسئلے کے قائل و فاعل ہیں۔ محمود الحسن دیوبندی صاحب فرماتے ہیں:
يترجح مذهبه وقال: الحق والإنصاف أن الترجيح للشافعي فى هذه المسئلة ونحن مقلدون يجب علينا تقليد إمامنا أبى حنيفة والله أعلم
ترجمہ: یعنی: اس (امام شافعی) کا مذہب راجح ہے۔ اور (محمود الحسن نے) کہا: حق و انصاف یہ ہے کہ اس مسئلے میں (امام) شافعی کو ترجیح حاصل ہے اور ہم مقلد ہیں ہم پر ہمارے امام ابو حنیفہ کی تقلید واجب ہے، واللہ اعلم۔
(تقریر ترمذی ص 136، نسخہ آخری ص 39)
غور کریں کس طرح حق و انصاف کو چھوڑ کر اپنے مزعومہ امام کی تقلید کو سینے سے لگا لیا گیا ہے۔ یہی محمود الحسن صاحب صاف صاف اعلان کرتے ہیں:
لیکن سوائے امام اور کسی کے قول سے ہم پر حجت قائم کرنا بعید از عقل ہے۔
(ایضاح الادلہ ص 276، سطر: 19، مطبوعہ: مطبع قاسمی مدرسہ اسلامیہ دیوبند 1330ھ)
محمود الحسن دیوبندی صاحب مزید فرماتے ہیں:
کیونکہ قول مجتہد بھی قول رسول اللہ صلی اللہ عليه وآله وسلم ہی شمار ہوتا ہے۔
(تقاریر حضرت شیخ الہند ص 24، الورد الشند کی ص 2)
جناب محمد حسین بٹالوی صاحب نے دیوبندیوں و بریلویوں سے تقلید شخصی کے وجوب کی دلیل مانگی تھی، اس کا جواب دیتے ہوئے محمود الحسن صاحب مطالبہ کرتے ہیں:
آپ ہم سے وجوب تقلید کی دلیل کے طالب ہیں۔ ہم آپ سے وجوب اتباع محمدی صلى الله عليه وسلم و وجوب اتباع قرآنی کی سند کے طالب ہیں۔
(ادلہ کاملہ ص 78)
نبی کریم صلی اللہ عليه وآله وسلم کے دور میں ایک عورت آپ صلی اللہ عليه وآله وسلم کی شان میں گستاخی کرتی تھی تو اس کے شوہر نے اس عورت کو قتل کر دیا۔ نبی کریم صلی اللہ عليه وآله وسلم نے فرمایا:
الا اشهدوا أن دمها هدر
ترجمہ: سن لو، گواہ رہو کہ اس عورت کا خون رائیگاں ہے۔
(سنن ابی داؤد، کتاب الحدود، باب الحکم فیمن سب رسول الله صلى الله عليه وسلم، 4361 وسندہ صحیح)
اس حدیث اور دوسرے دلائل سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ عليه وآله وسلم کی گستاخی کرنے والا واجب القتل ہے۔ یہی مسلک امام شافعی اور محدثین کرام کا ہے، جبکہ حنفیوں کے نزدیک شاتم الرسول کا ذمہ باقی رہتا ہے، دیکھئے الہدایہ(ج 1 ص 598)۔۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وأما أبو حنيفة وأصحابه فقالوا: لا ينتقض العهد بالسب ولا يقتل الذمي بذلك لكن يعزر على إظهار ذلك إلخ
ابوحنیفہ اور اس کے اصحاب (شاگردوں و تابعین) نے کہا: (آپ صلى الله عليه وسلم کو گالی) دینے سے معاہدہ (ذمہ) نہیں ٹوٹتا اور ذمی کو اس وجہ سے قتل نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اگر وہ یہ حرکت علانیہ کرے تو اسے تعزیر لگے گی۔ إلخ
(الصارم المسلول بحوالہ رد الکتا على الدر المختار ج 3 ص 305)
اس نازک مسئلے پر ابن نجیم حنفی نے لکھا ہے:
نعم نفس المؤمن تميل إلى قول المخالف فى مسئلة السب لكن اتباعنا للمذهب واجب
جی ہاں، گالی کے مسئلہ میں مومن کا دل (ہمارے) مخالف کے قول کی طرف مائل ہے لیکن ہمارے لئے ہمارے مذہب کی اتباع (تقلید) واجب ہے۔
(البحر الرائق شرح کنز الدقائق ج 5 ص 115)
حسین احمد مدنی ٹانڈوی لکھتے ہیں:
ایک واقعہ پیش آیا کہ ایک مرتبہ تین عالم (حنفی، شافعی اور حنبلی) مل کر ایک مالکی کے پاس گئے اور پوچھا کہ تم ارسال کیوں کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ: میں امام مالک کا مقلد ہوں دلیل ان سے جا کر پوچھو اگر مجھے دلائل معلوم ہوتے تو تقلید کیوں کرتا؟ تو وہ لوگ ساکت ہو گئے۔
(تقریر ترمذی اردو ص 399، مطبوعہ: کتب خانہ مجیدیہ ملتان)
ارسال: ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنا
ساکت: خاموش
ایک روایت میں آیا ہے:
نبی کریم صلی اللہ عليه وآله وسلم ایک وتر پڑھتے تھے اور آپ (وتر کی) دو رکعتوں اور ایک رکعت کے درمیان باتیں کرتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 291، ح 6803)
ایسی ایک روایت المستدرک للحاکم سے نقل کر کے انور شاہ کشمیری دیوبندی فرماتے ہیں:
ولقد تفكرت فيه قريبا من أربعة عشر سنة ثم استخرجت جوابه شافيا وذلك الحديث قوي السند إلخ
ترجمہ: اور میں نے اس حدیث (کے جواب) کے بارے میں تقریباً چودہ سال تفکر کیا ہے۔ پھر میں نے اس کا شافی (شفا دینے والا اور کافی) جواب نکال لیا۔ اور یہ حدیث سند کے لحاظ سے قوی ہے۔ إلخ
(العرف الشذی ج ا ص 107 واللفظ له، فیض الباری ج 2 ص 375 و معارف السنن المهوری ج 3 ص 264 و درس ترمذی ج 2 ص 224)
تفکر: سوچ بچار
احمد یار خان نعیمی بریلوی لکھتے ہیں:
اب ایک فیصلہ کن جواب عرض کرتے ہیں وہ یہ کہ ہمارے دلائل یہ روایات نہیں۔ ہماری اصل دلیل تو امام اعظم ابو ح enrollہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ ہم یہ آیات و احادیث مسائل کی تائید کے لئے پیش کرتے ہیں، احادیث یا آیات امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی دلیلیں ہیں۔
(جاء الحق ج 2 ص 91، طبع قدیم)
نعیمی مذکور صاحب مزید لکھتے ہیں:
کیونکہ حنفیوں کے دلائل یہ روایتیں نہیں ان کی دلیل صرف قول امام ہے۔ إلخ
(جاء الحق ج 2 ص 9)
ایک آدمی نے مفتی محمد (دیوبندی) [صاحب دار الافتاء والارشاد، ناظم آباد کراچی] کو خط لکھا:
ایک شخص تیسری رکعت میں امام کے ساتھ شریک ہوا، امام اگر سجدہ سہو کے لئے سلام پھیرے تو تیسری رکعت میں شریک ہونے والا مسبوق بھی سلام پھیرے یا نہیں؟ یہاں ایک صاحب بحث کر رہے ہیں کہ اگر سلام نہیں پھیرے گا تو امام کی اقتداء نہیں رہے گی۔ آپ دلیل سے مطمئن کریں۔
(مجاہد علی خان، کراچی)
دیوبندی صاحب نے اس سوال کا درج ذیل جواب دیا:
جواب: مسبوق یعنی جو پہلی رکعت کے بعد امام کے ساتھ شریک ہوا وہ سجدہ سہو میں امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے، اگر عمداً سلام پھیر دیا تو نماز جاتی رہی، سہواً پھیرا تو سجدہ سہو لازم ہے، مسئلہ سے جہالت کی بنا پر پھیرا تو بھی نماز فاسد ہو گئی۔ عوام کے لئے دلائل طلب کرنا جائز نہیں، نہ آپس میں مسائل شرعیہ پر بحث کرنا جائز ہے، بلکہ کسی مستند مفتی سے مسئلہ معلوم کر کے اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔
(ہفت روزہ ضرب مؤمن کراچی، جلد: 3، شمارہ: 15، 21 تا 27 ذوالحجہ 1419، 9 تا 15 اپریل 1999ء ص 6، کالم: آپ کے مسائل کا حل)
مفتی محمد صاحب مزید لکھتے ہیں:
مقلد کے لئے اپنے امام کا قول ہی سب سے بڑی دلیل ہے۔
(حوالہ مذکورہ)
ایک صحیح حدیث میں آیا ہے:
من أدرك من الصبح ركعة قبل أن تطلع الشمس فقد أدرك الصبح
جس نے صبح کی ایک رکعت، سورج کے طلوع ہونے سے پہلے پالی تو اس نے یقیناً (صبح کی نماز) پائی۔
(البخاری: 579 و مسلم: 208)
فقہ حنفی اس صحیح حدیث کی مخالف ہے۔ مفتی رشید احمد لدھیانوی دیوبندی اس مسئلے پر کچھ بحث کر کے لکھتے ہیں:
غرض یہ کہ یہ مسئلہ اب تک تشنہ تحقیق ہے۔ معہذا ہمارا فتویٰ اور عمل قول امام رحمہ اللہ تعالیٰ کے مطابق ہی رہے گا اس لئے کہ ہم امام رحمہ اللہ تعالیٰ کے مقلد ہیں اور مقلد کے لئے قول امام حجت ہوتا ہے نہ کہ ادلہ اربعہ کہ ان سے استدلال وظیفہ مجتہد ہے۔
(ارشاد القاری الی صحیح البخاری ص 412)
لدھیانوی صاحب ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
توسیع مجال کی خاطر اہل بدعت فقہ حنفی کو چھوڑ کر قرآن و حدیث سے استدلال کرتے ہیں اور ارخاء عنان کے لئے ہم بھی یہ طرز قبول کر لیتے ہیں ورنہ مقلد کے لئے صرف قول امام ہی حجت ہوتا ہے۔
(ارشاد القاری ص 288)
مفتی رشید احمد لدھیانوی صاحب لکھتے ہیں:
یہ بحث تبرعاً لکھ دی ہے ورنہ رجوع الی الحدیث وظیفہ مقلد نہیں۔
(احسن الفتاوی ج 3 ص 50)
قاضی زاہد اکسینی دیوبندی لکھتے ہیں:
حالانکہ ہر مقلد کے لئے آخری دلیل مجتہد کا قول ہے۔ جیسا کہ مسلم الثبوت میں ہے:
أما المقلد فمستنده قول المجتهد
اب اگر ایک شخص امام ابو حنیفہ کا مقلد ہونے کا مدعی ہوا اور ساتھ ہی وہ امام ابو حنیفہ کے قول کے ساتھ یا علیحدہ قرآن و سنت کا بطور دلیل مطالبہ کرتا ہے تو وہ بالفاظ دیگر اپنے امام اور راہنما کے استدلال پر یقین نہیں رکھتا۔
(مقدمہ کتاب: دفاع امام ابوحنیفہ از عبدالقیوم حقانی ص 26)
عامر عثمانی کو کسی نے خط لکھا:
حدیث رسول سے جواب دیں۔
عامر عثمانی صاحب نے اس کا جواب دیا:
اب چند الفاظ اس فقرے کے بارے میں بھی کہہ دیں جو آپ نے سوال کے اختتام پر سپرد قلم کیا ہے یعنی: حدیث رسول سے جواب دیں۔
اس نوع کا مطالبہ اکثر سائلین کرتے رہتے ہیں۔ یہ دراصل اس قاعدے سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے کہ مقلدین کے لئے حدیث و قرآن کے حوالوں کی ضرورت نہیں بلکہ ائمہ و فقہاء کے فیصلوں اور فتووں کی ضرورت ہے۔
(ماہنامہ تجلی دیوبند ج 19، شمارہ: 1، جنوری فروری 1968ء ص 47، اصلی اہلسنت عبد الغفور اثری ص 116)
شیخ احمد سرہندی لکھتے ہیں:
مقلد کو لائق نہیں کہ مجتہد کی رائے کے برخلاف کتاب و سنت سے احکام اخذ کرے اور ان پر عمل کرے۔
(مکتوبات امام ربانی اشرف اردو ترجمہ ج ا ص 201، مکتوب: 287)
سرہندی صاحب نے تشہد میں شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے کے بارے میں کہا:
جب روایات معتبرہ میں اشارہ کرنے کی حرمت واقع ہوئی ہو اور اس کی کراہت پر فتویٰ دیا ہو اور اشارہ وعقد سے منع کرتے ہوں اور اس کو اصحاب کا ظاہر اصول کہتے ہوں تو پھر ہم مقلدوں کو مناسب نہیں کہ احادیث کے موافق عمل کر کے اشارہ کرنے میں جرات کریں اور اس قدر علمائے مجتہدین کے فتویٰ کے ہوتے امر محرم اور مکروہ اور منہی کے مرتکب ہوں۔
(مکتوبات ج ا ص 718، مکتوب: 312)
سرہندی مذکور نے خواجہ محمد پارسا کی فصول ستہ سے نقل کیا ہے:
حضرت عیسیٰ علی نبینا وعليه الصلوة والسلام نزول کے بعد امام اعظم رضی اللہ عنہ کے مذہب کے موافق عمل کریں گے۔
(مکتوبات اردو، ج ا ص 585، مکتوبات: 282)
ابوالحسن الکرخی الحنفی نے کہا:
الأصل إن كل آية تخالف قول أصحابنا فإنها تحمل على النسخ أو على الترجيح والأولى أن تحمل على التأويل من جهة التوفيق
اصل یہ ہے کہ ہر آیت جو ہمارے ساتھیوں (فقہاء) کے خلاف ہے اسے منسوخیت پر محمول یا مرجوح سمجھا جائے گا، بہتر یہ ہے کہ تطبیق کرتے ہوئے اس کی تاویل کر لی جائے۔
(اصول الکرخی: 29 و مجموعہ قواعد الفقه ص 18)
شبیر احمد عثمانی دیوبندی لکھتے ہیں:
تنبیہ : دودھ چھڑانے کی مدت جو یہاں دو سال بیان ہوئی باعتبار غالب اور اکثری عادت کے ہے۔ امام ابوحنیفہ جو اکثر مدت ڈھائی سال بتاتے ہیں ان کے پاس کوئی اور دلیل ہوگی۔ جمہور کے نزدیک دو ہی سال ہیں واللہ اعلم۔
(تفسیر عثمانی ص 538، سورہ لقمان، آیت 14، حاشیہ 10)
ان حوالوں سے معلوم ہوا کہ تقلید کرنے والے حضرات نہ قرآن مانتے ہیں اور نہ حدیث اور نہ اجماع کو اپنے لئے حجت سمجھتے ہیں، ان کی دلیل صرف قول امام ہوتا ہے۔
شاہ ولی اللہ الدہلوی نے لکھا ہے:
فإن شئت أن ترى أنموذج اليهود فانظر إلى علماء السوء من الذين يطلبون الدنيا وقد اعتادوا تقليد السلف وأعرضوا عن نصوص الكتاب والسنة وتمسكوا بتعمق عالم وتشدده واستحسانه فاعرضوا كلام الشارع المعصوم وتمسكوا بأحاديث موضوعة وتأويلات فاسدة، كانت سبب هلاكهم
اگر تم یہودیوں کا نمونہ دیکھنا چاہتے ہو تو (ہمارے زمانے کے) علمائے سوء کو دیکھو، جو دنیا کی طلب اور (اپنے) سلف کی تقلید پر جمے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ کتاب و سنت کی نصوص (دلائل) سے منہ پھیرتے اور کسی (اپنے پسندیدہ) عالم کے تعمیق، تشدد اور استحسان کو مضبوطی سے پکڑے بیٹھے ہیں۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ عليه وآله وسلم، جو معصوم ہیں، کے کلام کو چھوڑ کر موضوع روایات اور فاسد تاویلوں کو گلے سے لگا لیا ہے۔ اسی وجہ سے یہ لوگ ہلاک ہو گئے ہیں۔
(الفوز الكبير في اصول التفسير ص 110)
فخر الدین الرازی لکھتے ہیں:
ہمارے استاد جو خاتم الحقین والمجتہدین میں فرماتے ہیں کہ میں نے فقہائے مقلدین کے ایک گروہ کا مشاہدہ کیا ہے کہ میں نے انھیں کتاب اللہ کی بہت سی ایسی آیتیں سنائیں جو ان کے تقلیدی مذہب کے خلاف تھیں تو انھوں نے (نہ) صرف ان کے قبول کرنے سے اعراض کیا بلکہ ان کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دی۔
(تفسیر کبیر، سورة التوبة آیت 31 ج 6 ص 37 و اصلی اہلسنت ص 135، 136)