اہل جاہلیت تقدیر کا انکار کرتے تھے اور اس مسئلہ کو لے کر اللہ پر کج بحثی کرتے تھے اور شریعت الہیٰ کو تقدیر الہیٰ سے ٹکراتے تھے۔ تقدیر کا مسئلہ دین کے انتہائی باریک اور نازک مسائل میں سے ہے اور اس کی حقیقت صرف وہی معلوم کر سکتا ہے جس کو اللہ توفیق دے۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ کی اس موضوع پر ایک بہت ہی عظیم الشان کتاب ہے ”شفاء العلیل فی القضاء والقدر والحکمتہ والتعلیل۔ “
اللہ تعالیٰ نے اس جاہل عقیدہ کو باطل قرار دیا ہے، فرمایا :
سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّـهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ شَيْءٍ كَذَلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ حَتَّى ذَاقُوا بَأْسَنَا قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَا إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ أَنْتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ ٭ قُلْ فَلِلَّـهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ (6-الأنعام:149)
”مشرکین کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے، نہ ہمارے باپ دادا کرتے، نہ ہم کسی چیز کو حرام کہہ سکتے۔ اسی طرح ان سے پہلے والے بھی جھٹلا چکے ہیں۔ یہاں تک کہ انھوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھا۔ کہو تمہارے پاس کوئی دلیل ہو تو ہمارے سامنے لاؤ۔ تم لوگ محض خیالی باتوں پر چلتے ہو اور تم بالکل اٹکل سے باتیں کرتے ہو۔ کہہ دیجئیے بس پوری حجت اللہ ہی کے لئے رہی، پھر اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت پر لگا دیتا۔ “
تفسیر سيقول الذين أشركوا اس میں مشرکین کے باطل حیلے کو بیان کیا جارہا ہے لو شاء الله ما اشركنا ولا أباؤنا ولا حرمنا من شيء یعنی اگر اللہ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادا شرک نہ کرتے، نہ کسی حرام چیز کا ارتکا ب کرتے۔ یہ کہہ کر مشرکین اپنے فعل قبیح پر معذرت نہیں کر رہے ہیں، کیوں کہ وہ اپنے ان اعمال و افعال کو برا ہی نہیں سمجھتے تھے بلکہ جیسا کہ آیات الہیٰ کی شہادت ہے کہ وہ ان قبیح افعال کو اچھا سمجھ کر کرتے تھے، مثلاً بتوں کی عبادت وہ یہ سمجھ کر کرتے تھے کہ یہ بت انہیں اللہ کے قریب کر دیں گے جب کہ اس کی حرمت اللہ عزوجل کی طرف سے ثابت ہے۔
یہ مشرکین ان قبیح و ممنوع افعال کا ارتکاب کر کے کج حجتی کرتے تھے کہ انہوں نے جو کچھ کیا وہ حق و مشروع اور اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے کیوں کہ مشیت و ارادہ حکم الہیٰ کے برابر ہے اور رضاء الہیٰ کا موجب ہے جیسا کہ معتزلہ کا عقیدہ ہے۔ لہٰذا ان مشرکین کی بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم جس شرک و حرام کا ارتکا ب کرتے ہیں وہ سب اللہ کی مشیت اور ارادہ سے مربوط ہے اور جس کا تعلق اللہ کی مشیت او را را دہ سے ہو وہ کام مشروع اور اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے۔ لہٰذا ہمارے اعمال پسندیدہ ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے ان باطل عقائد کو نقل کرنے کے بعد ان کی تردید فرمائی كذلك كذب الذين من قبلهم ایسے ہی ان سے پہلے والے بھی جھٹلا چکے ہیں، یعنی ان مشرکین کے باپ دادا یعنی مشرکین کے اس عقیدہ سے انبیاء کرام کی تکذیب ہوتی ہے جب کہ معجزات سے ان کا سچا ہونا ثابت ہو چکا ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ مشرکین کا کہنا یہ ہے کہ اللہ جو چاہتا ہے وہ ضرور ہو جاتا ہے اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا جب بات ایسی ہے تو کوئی انسان کسی بات کے لئے مکلف ہی نہیں ہو سکتا کیوں کہ تکلیف تو استطاعت کے ساتھ مشروط ہے۔ لہٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ انسان جو شرک وغیرہ کرتا ہے اس کے چھوڑنے کا پابند نہیں ہے اور نہ اس کے لئے نبی بھیجے گئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے غلط عقائد کی تردید فرمائی کہ بات سچی ہے لیکن مطلب غلط لیا گیا ہے یعنی یہ بات کہ اللہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا، سچ اور حقیقت ہے لیکن اس سے مشرکین نے جو مطلب نکالا وہ غلط ہے کیونکہ مشرکین کا تو یہ مطلب ہوا کہ انبیاء کرام اپنی نبوت اور تکلیفت کے دعویٰ میں (معاذ اللہ) جھوٹے تھے، کیونکہ اللہ تو ہمارے کفر و شرک کا خواہاں تھا اور انبیاء اس سے منع کرتے تھے۔ حالانکہ قطعی دلائل سے انبیاء کا سچا ہونا ثابت ہو چکا ہے، اور چوں کہ اس سچی بات سے انہوں نے جھوٹا مطلب نکالا اس لئے اللہ نے ان کو جھوٹا قرار دیا اور مشیت الہیٰ کے مطابق اشیاء کا وقوع پذیر ہونا نبوت و تکلیفت کے دعویٰ کے سچے ہونے کے منافی بھی نہیں کیوں کہ نبوت و تکلیفت کا دعویٰ تو محض حجت پوری کرنے اور حق کے اظہار کے لئے ہے۔
تکلیف کہتے ہیں، شریعت الہیٰ کی پابندی کرنا حتي ذاقوا بأسنا یعنی انہوں نے ہمارے اس عذاب کو پا لیا جو ہم نے ان پر ان کے جھٹلانے کی وجہ سے نازل کیا تھا، آیت میں ذاقوا ہے یعنی انہوں نے چکھا، چکھنا اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب کسی چیز کو پہلے سے حاصل کیا جائے۔ آیت میں اس طرف اشارہ ہے کہ ان مشرکین کے لئے اللہ کے پاس عذاب تیار ہو چکا ہے قل هل عندكم من علم فتخرجوه لنا کہو تمہارے پاس کوئی دلیل ہو تو ہمارے پاس لاؤ۔ یعنی ان مشرکین سے مطالبہ کرو کہ جو شرک اور برے کام تم کرتے ہو اگر تمہارے علم کے مطابق یہ سب اللہ مرضی کے مطابق ہیں تو اس کی دلیل پیش کرو۔ آیت سے صاف واضح ہے کہ مشرکین نے یہ کہہ کر زجر و توبیخ کا خود کو مستحق بنا لیا، کیوں کہ جب ان کے کانوں میں انبیاء کرام کی شریعتوں کی بات آتی تھی کہ اپنے سب امور کو اللہ کے سپرد کر دو تو یہ دین کا مذاق اڑاتے تھے اور انبیاء کی دعوت کو رد کرتے تھے۔ جب انبیاء کرام ان سے کہتے تھے کہ اسلام قبول کرو اور احکامات الہیٰ کے پابند ہو جاؤ تو یہ انبیاء کی انہیں باتوں کو لے کر ان کا مذاق اڑانے لگتے تھے، مقصود صرف مذاق اڑانا ہوتا تھا اپنے عقیدہ کا اظہار نہیں۔
صفات الہیٰ پر ایمان لانا ذات الہیٰ پر ایمان لانے کی فرع ہے، جب کہ وہ اس سے دور و بےتعلق ہیں ان تتبعون الا الظن وان انتم الاتخرصون مطلب یہ کہ تم محض وہم و خیال کی پیروی کرتے ہو اور جھوٹی باتیں اللہ کے متعلق کہتے ہو قل فلله الحجة البالغه یعنی وہ واضح دلائل جو دعویٰ کے اثبات میں مضبوط اور ناقابل تردید ہیں، اللہ ہی کے لئے ہیں۔ اور حجت سے مراد کتاب، رسول اور بیان ہے۔ فلوشاء لهداكم اجمعين اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو راہ راست پر لگا دیتا، یعنی ہدایت کی توفیق دیتا اور اس پر گامزن کر دیتا، لیکن اللہ نے صرف ان لوگوں کو ہدایت دی جو اپنے اختیار سے کام لے کر حق کی راہ پر چل پڑے، اور جو راہ حق کے خلاف چلے وہ مشیت الہیٰ سے گمراہ ہوئے۔ کچھ لوگ اس آیت کی یہ توجیہ کرتے ہیں، کہ اللہ نے ان کے اس عقیدے کی تردید کی ہے کہ وہ اپنے اختیار و قدرت کو سونپ چکے ہیں اور ان سے شرک کا صد و رجبرًا و اضطرارًا ہوا ہے اور اس عقیدۃ فاسد کی بنا پر وہ اللہ اور اس کے رسول پر اپنی حجت قائم کرنے کے دعویدار ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے عدم اختیار کے دعوے کی تردید کی اور انہیں پچھلے لوگوں سے تشبیہ دی جنھوں نے فریب میں پڑ کر انبیاء کو جھٹلایا اور شرک الہیٰ میں مبتلا ہوئے۔ اور یہی سمجھتے رہے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ کی مشیت سے کر رہے ہیں، اور اس اعتراض کا سہارا لے کر انبیاء کو خاموش کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا کہ دلیل و حجت ان کے موافق نہیں اللہ کے لئے ہے، پھر اللہ نے اس کی وضاحت فرمائی کہ جو کچھ ہوتا ہے اللہ ہی کی مشیت سے ہوتا ہے۔ اور اللہ نے ان کے لئے وہی چاہا جو ان سے صادر ہوا، اگر اللہ سب کی ہدایت چاہتا تو سب ہدایت یاب ہو جاتے۔ اور مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس جواب کو ان پر خاص کر دے اور نفوذ سنت کے عقیدہ کو اور ہر موجود میں اس کے عام تداخل کو اس کے جواب کے ذریعہ الگ کر دے۔ اور ان کا یہ دعویٰ کہ اختیار نفس سلب کر لیا گیا ہے اس جواب سے دور ہو جائے، اور حجت ان پر خاص طور پر قائم ہو جائے۔
اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے جبریہ کے عقیدہ صدور کا بھی جواب ملتا ہے اور معتزلہ کے عقیدۃ عجز کا بھی۔ اس لئے کہ فرقہ، جبریہ اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ بندہ کو اتنا اختیار و قدرت حاصل ہے جس سے وہ مخالفت اور، نافرمانی میں عذر و حجت کو دور کر سکتا ہے۔ اور معتزلہ اس بات کے قائل ہیں کہ مشیت الہیٰ بندہ کے تمام کاموں میں نافد و جاری ہے۔ اور بندہ کے تمام افعال مشیت الہیٰ کے مطابق ہیں، اور الحمد اللہ اسی سے اہلسنت کی پوری حجت معتزلہ پر قائم ہو جاتی ہے۔
اور کچھ لوگوں نے اس آیت کی یہ توجیہ کی ہے کہ مشرکین نے انبیاء علیہم السلام کی دعوت کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ اللہ تعالیٰ کی منشاء ہے کہ ہم شرک کریں تو ہم نے شرک کیا اور آپ لوگ اللہ کے ارادے کے خلاف ہم کو ایمان و توحید کی دعوت دیتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے کئی طریقہ سے ان کی تنبیہ کی، چنانچہ فرمایا : فلله الحجة البالغة ، یعنی اگر معاملہ ویسا ہی ہے جیسا تم سمجھ رہے ہو تو بھی حجة البالغه الله ہی کے لئے ہے کیونکہ فلو شاء یعنی اگر اللہ چاہتا تو تم کو اور ہمارے مخالفین سب کو اپنے دین کی راہ بتا دیتا۔ لہٰذا تمہارے دعویٰ کے مطابق سب کام مشیت الہیٰ کے تابع ہیں تو اسلام بھی اللہ ہی کی مشیت کے ساتھ ہے۔ لہٰذا جس طرح تمہارے خیال کے مطابق انبیاء کو شرک سے نہیں روکنا چاہئیے، اسی طرح تم کو بھی چاہئیے کہ اسلام کی دعوت و تبلیغ سے انبیاء کو مت روکو۔ اس اصول کے تحت تمہارے اور مسلمانوں کے درمیان مخالفت اور عداوت کے بجائے دوستی اور موقت ہونی چاہیئے۔
حاصل کلام یہ کہ میں نے تمہارے مذہب کی مخالفت کی ہے، ضروری ہے کہ وہ بھی تمہارے نزدیک صحیح ہو، کیونکہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہے۔ اس طرح تمام متضاد مذاہب و ادیان کو صحیح ماننا پڑے گا (جسے کوئی عقلمند تسلیم نہیں کرے گا )۔
اور سورہ نحل میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَقَالَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّـهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ نَحْنُ وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ كَذَلِكَ فَعَلَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ [16-النحل:35]
”اور مشرکین یوں کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم اس کے سوا کسی چیز کی عبادت کرتے، نہ ہمارے باپ دادا، نہ اس کے حکم کے بغیر ہم کسی چیز کو حرام کہہ سکتے، جو کافر ان سے پہلے ہوئے ہیں ایسی ہی حرکت انہوں نے بھی کی تھی تو پیغمبروں کے ذمہ تو صاف صاف پہونچا دینا ہے۔“
اس آیت کی تفسیر بھی پہلی ہی آیت کی طرح ہے جب یہ مشرکین اپنی حجت میں ناکام رہے تو مشیت کا ہوا لے کر بحث کرنے لگے، لیکن ناظرین کو معلوم ہوگیا کہ سورہ انعام کی آیت کی بحث کا خاتمہ کیسا شاندار ہوا، اور اسی طرح سورہ زخرف کی آیت 19، 20 میں بھی یہی بحث ہے، فرمایا:
وَجَعَلُوا الْمَلَائِكَةَ الَّذِينَ هُمْ عِبَادُ الرَّحْمَـنِ إِنَاثًا أَشَهِدُوا خَلْقَهُمْ سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَيُسْأَلُونَ ٭ وَقَالُوا لَوْ شَاءَ الرَّحْمَـنُ مَا عَبَدْنَاهُمْ مَا لَهُمْ بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ [43-الزخرف:19]
”اور انہوں نے فرشتوں کو جو رحمٰن کے عبادت گزار ہیں عورتیں قرار دے لیا۔ کیا ان کی پیدائش کے موقع پر یہ موجود تھے؟ ان کی یہ گواہی لکھ لی جائے گی اور ان سے (اس چیز کی) باز پرس کی جائے گی۔ اور کہتے ہیں اگر اللہ چاہتا تو ہم ان کی عبادت نہ کرتے۔ انہیں اس کی کچھ خبر نہیں، یہ تو صرف اٹکل پچو (جھوٹ باتیں) کہتے ہیں۔“
اس پوری تفصیل کا بس ایک ہی جواب یہ آیت ہے قل فلله الحجة البالغة کہہ دو اللہ ہی کے لئے ہے پوری پوری حجت۔
اور آیت میں حرام کرنے سے مراد ”سائبہ“ اور ”بحیرہ“ ہے۔ اور یہاں صرف شرک اور حرام کرنے کی نفی کی گئی ہے کیوں کہ یہی دونوں گناہ زیادہ بڑے اور مشہور تھے۔ ان مشرکین کی اس بحث کا مطلب یہ تھا کہ وہ انبیاء کو جھٹلانا چاہتے تھے اور ان پر طعن و تشنیع کرنا چاہتے تھے، کیوں کہ وہ جو کچھ کہہ رہے تھے اس کا خلاصہ یہ تھا کہ اللہ جو چاہتا ہے وہ ہوتا ہے جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا،۔۔۔ لہٰذا اگر اللہ چاہتا تو ہم اس کی توحید کا اقرار کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں، اس کی حلال کردہ چیز کو حلال سمجھیں اور جن چیزوں کو ہم نے ازخود حرام قرار د ے لیا ہے اس کو حرام نہ کریں جیسا کہ انبیاء کہتے اور اللہ کی طرف سے اس کو نقل کرتے ہیں، تو ان کے کہنے کے مطابق، توحید کے اقرار اور شرک سے انکار اور حلال و حرام کے سب معاملات میں ہم کو ویسے ہی رہنا چاہئیے تھا، جیسا رسول کہتے ہیں۔ لیکن چونکہ عملاً ایسا نہیں ہوا، لہٰذا ثابت یہ ہوا کہ اللہ نے خود نہیں چاہا کہ ہم انبیاء کی تعلیمات پر عمل کریں، بلکہ ہم اپنے ہی عقیدہ
پر رہیں اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ سب باتیں انبیاء خود اپنی طرف سے بنا کر کہا کرتے تھے (کیونکہ اگر یہ باتیں فی الحقیقت اللہ کی ہوتیں تو ہم اس کی مشیت کے مطابق ان پر ضرور عمل پیرا ہوتے)۔
اللہ تعالیٰ نے ان جاہلوں کی کج بحثی کا یہ جواب دیا کہ كذلك فعل الذين من قبلهم یعنی جس طرح یہ جاہل کج بحثی کر رہے ہیں اسی طرح ان سے پہلے والوں نے بھی کیا تھا، انہیں کی طرح انہوں نے بھی اللہ کے ساتھ شرک کیا اور حکم الہیٰ کے بغیر چیزوں کو حرام قرار دیا اور ہٹ دھری کے ساتھ انبیاء سے لڑتے رہے تاکہ حق کو نیچا دکھا دیں۔ فهل على الرسول الا البلغ المبين یعنی انبیاء کا منصب صرف اتنا ہے کہ اللہ کا وہ پیغام پہنچا دیں جو حق کی راہ کو کھول دیتا ہے اور وحی کے ان احکام کو ظاہر کر دیتا ہے جس سے مشیت الہیٰ کا تعلق واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ ان کو ہدایت پر لگا دیتا ہے جو حصول حق کے لئے اپنے اختیارات و قدرت کو استعمال کرتے ہیں، جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے : والذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا ، اور جو ہماری راہ میں جدوجہد کریں گے ہم ان پر ان اپنی راہیں کھول دیں گے،
لیکن کسی کو زبردستی حق پر چلا دینا انبیاء کا کام نہیں ہے، اور نہ یہ اس حکمت کے مطابق ہے جس میں اللہ نے لوگوں کو پابند عمل بنایا ہے، کہ اگر لوگ عمل کریں تو انبیاء سچے سمجھے جائیں، نہ عمل کریں تو ان کی تکذیب کی جائے کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ جن افعال پر ثواب و عقاب کا فیصلہ ہوتا ہے ان میں اللہ کی مشیت کے ساتھ کرنے والے کے اختیار کا بھی دخل ہے، ورنہ ثواب و عذاب تو محض اضطراری چیز ہو کر رہ جائے۔ اس آیت اور اس مضمون کی دوسری آیات پر مفصل و کامل بحث تفسیر روح المعانی میں دیکھی جاسکتی ہے۔
معلوم ہوا کہ تقدیر کا انکار اور اس کے ذریعہ اللہ پر کج بحثی اور شریعت کا تقدیر سے مقابلہ یہ سب باتیں اہل جاہلیت کی ضلالت میں سے تھیں۔ حاصل یہ کہ نہ جبر ہے نہ تفویض، بلکہ معاملہ ان دونوں کے درمیان کا ہے۔ لہٰذا جس کا قدم اس راستے سے ہٹ گیا وہ اہل جاہلیت کے طریقہ پر پہنچ جائے گا جس کو اللہ اور اس کے رسول نے مردود قرار دے دیا ہے۔