تقدیر پر راضی نہ رہنے کی وعید قرآن و حدیث کی روشنی میں
تحریر: قاری اسامہ بن عبدالسلام حفظہ اللہ

اسلامی عقیدے کے مطابق، تقدیر پر ایمان

تقدیر پر ایمان لانا ایمان کے بنیادی ارکان میں سے ایک ہے۔ جو شخص تقدیر پر راضی نہیں رہتا، وہ درحقیقت اللہ کی حکمت اور علم پر اعتراض کرتا ہے، جو ایمان کے خلاف ہے۔ قرآن و حدیث میں ایسے لوگوں کے لیے سخت وعید آئی ہے۔

قرآن کی روشنی میں وعید

الف) اللہ کے فیصلے پر ناراض ہونا گمراہی ہے

📖 سورۃ الأحزاب (33:36)

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍۢ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى ٱللَّهُ وَرَسُولُهُۥٓ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ ٱلْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَٰلًۭا مُّبِينًۭا
(سورۃ الأحزاب: 36)

ترجمہ:
"کسی مومن مرد اور مومن عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کے رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو وہ اپنے (فیصلے کے) اختیار کو باقی رکھیں، اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ کھلی گمراہی میں جا پڑا۔”

نکتہ:
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ کے فیصلوں (تقدیر) پر اعتراض کرنا اور ان سے ناخوش ہونا گمراہی ہے۔

 اللہ کی رضا پر راضی رہنے میں ہی کامیابی ہے

📖 سورۃ التغابن (64:11)

مَآ أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ ٱللَّهِ ۗ وَمَن يُؤْمِنۢ بِٱللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُۥ ۚ وَٱللَّهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌۭ
(سورۃ التغابن: 11)

ترجمہ:
"کوئی مصیبت نہیں آتی مگر اللہ کے حکم سے، اور جو اللہ پر ایمان رکھے، اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے، اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔”

نکتہ:
جو شخص تقدیر پر راضی رہتا ہے، اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے، لیکن جو ناراض ہوتا ہے، وہ خود کو گمراہی میں ڈال لیتا ہے۔

حدیث کی روشنی میں وعید

الف) تقدیر پر اعتراض کرنا نفاق کی علامت ہے

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

"کوئی بندہ اس وقت تک ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ یہ یقین نہ کر لے کہ جو کچھ اسے پہنچا، وہ اس سے ٹل نہیں سکتا تھا، اور جو کچھ نہیں پہنچا، وہ اس کے مقدر میں ہی نہیں تھا۔”
(ترمذی: 2144، ابن ماجہ: 77)

نکتہ:
یہ حدیث بتاتی ہے کہ جو شخص تقدیر پر ناراض ہوتا ہے، اس کا ایمان کمزور ہے، اور وہ نفاق کی راہ پر چل سکتا ہے۔

اللہ کے فیصلے پر ناراض ہونے والا جہنم کا مستحق ہو سکتا ہے

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

"اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے، اسے آزمائش میں ڈال دیتا ہے۔”
(بخاری: 5645)

اور ایک اور حدیث میں فرمایا:

"جو شخص اللہ کی قضا (فیصلے) پر راضی ہو، اللہ بھی اس سے راضی ہوتا ہے، اور جو اس سے ناراض ہو، اللہ بھی اس سے ناراض ہوتا ہے۔”
(ترمذی: 2396)

نکتہ:
جو شخص اللہ کی تقدیر پر ناراض ہوتا ہے، وہ اللہ کی ناراضی مول لیتا ہے، جو دنیا و آخرت کی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔

مصیبت پر صبر نہ کرنے والے کی سخت وعید

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

"قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب اس شخص کو ہوگا جو دنیا میں اللہ کی قضا (تقدیر) پر ناراض رہا۔”
(مسند احمد: 8937)

نکتہ:
یہ حدیث ثابت کرتی ہے کہ جو شخص اپنی تقدیر پر صبر نہیں کرتا، قیامت کے دن اس کے لیے سخت عذاب ہوگا۔

3. تقدیر پر راضی رہنے کے فوائد

1. اللہ کی محبت حاصل ہوتی ہے
2. صبر اور اجر ملتا ہے
3. دل کو سکون ملتا ہے
4. دنیا و آخرت میں کامیابی نصیب ہوتی ہے

4. خلاصہ

جو شخص تقدیر پر راضی نہیں رہتا، وہ:
◈ اللہ کی حکمت پر اعتراض کرتا ہے
◈ گمراہی میں مبتلا ہو سکتا ہے
◈ دنیا و آخرت میں نقصان اٹھا سکتا ہے
◈ اللہ کی ناراضی کا سامنا کر سکتا ہے

جو شخص تقدیر پر راضی رہتا ہے، وہ:
◈ اللہ کی رضا اور محبت حاصل کرتا ہے
◈ صبر کا عظیم اجر پاتا ہے
◈ قیامت کے دن آسانی میں ہوگا

نتیجہ:

لہٰذا، ایک سچا مومن وہی ہوتا ہے جو اللہ کی تقدیر پر مکمل بھروسا رکھے، صبر کرے، اور اللہ کے فیصلوں پر راضی رہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1