تقدیر پر راضی رہنے کے فضائل
تقدیر پر ایمان لانا ایمان کے بنیادی ارکان میں سے ایک ہے، اور اس پر راضی رہنا اللہ کی رضا اور قربت کا ذریعہ بنتا ہے۔ جو شخص اللہ کی مقرر کردہ تقدیر پر مطمئن ہوتا ہے، اسے دنیا و آخرت میں بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
قرآن کی روشنی میں تقدیر پر راضی رہنے کی فضیلت
اللہ کی رضا اور سکونِ قلب
📖 سورۃ التغابن (64:11)
مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ ۚ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
(سورۃ التغابن: 11)
ترجمہ:
"کوئی مصیبت نہیں آتی مگر اللہ کے حکم سے، اور جو اللہ پر ایمان رکھے، اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔”
نکتہ:
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ جو بندہ اللہ کی تقدیر پر ایمان رکھتا ہے اور اس پر راضی رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے دل کو ہدایت اور سکون عطا فرماتے ہیں۔ مصیبت میں پریشان ہونے کے بجائے اللہ پر بھروسہ کرنے والا شخص قلبی اطمینان حاصل کرتا ہے۔
اللہ پر توکل اور اجرِ عظیم
📖 سورۃ الطلاق (65:3)
وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ
(سورۃ الطلاق: 3)
ترجمہ:
"اور جو اللہ پر بھروسہ کرے، تو وہی اس کے لیے کافی ہے۔”
نکتہ:
جو شخص تقدیر پر راضی رہتا ہے، وہ حقیقت میں اللہ پر بھروسہ کرتا ہے، اور اللہ ایسے شخص کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔ جو اللہ کی رضا میں خوش ہوتا ہے، اللہ اس کے تمام معاملات آسان کر دیتا ہے اور اس کے لیے بہترین اجر مقرر فرماتا ہے۔
حدیث کی روشنی میں تقدیر پر راضی رہنے کی فضیلت
مصیبت میں صبر کرنے کی فضیلت
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ لَهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ”
(مسلم: 2999)
ترجمہ:
"مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے! اس کا ہر حال اس کے لیے بہتر ہے، اور یہ خصوصیت صرف مومن کے لیے ہے۔ اگر اسے خوشی ملے تو شکر کرتا ہے، تو یہ اس کے لیے بہتر ہے، اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے، تو یہ بھی اس کے لیے بہتر ہے۔”
نکتہ:
اس حدیث میں یہ واضح ہے کہ جو شخص تقدیر پر راضی رہتا ہے، وہ ہر حال میں کامیاب رہتا ہے۔ خوشی میں شکر اور مصیبت میں صبر کا رویہ اسے مزید بلند درجات عطا کرتا ہے۔
اللہ کی رضا کا باعث
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"إِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا ابْتَلَاهُمْ، فَمَنْ رَضِيَ فَلَهُ الرِّضَا، وَمَنْ سَخِطَ فَلَهُ السُّخْطُ”
(ترمذی: 2396)
ترجمہ:
"جب اللہ کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو انہیں آزمائش میں ڈالتا ہے، پس جو راضی ہو، اس کے لیے اللہ کی رضا ہے، اور جو ناراض ہو، اس کے لیے اللہ کی ناراضگی ہے۔”
نکتہ:
اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جو بندہ اللہ کی تقدیر پر راضی رہے، اللہ بھی اس سے راضی ہوتا ہے۔ آزمائشیں درحقیقت اللہ کے قریب کرنے کا ایک ذریعہ ہیں، اور ان پر صبر و رضا اختیار کرنا اللہ کی محبت اور خوشنودی حاصل کرنے کا بہترین راستہ ہے۔
خلاصہ:
1. تقدیر پر راضی رہنا اللہ کی رضا اور سکونِ قلب کا ذریعہ ہے۔
2. جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے، اللہ اس کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔
3. صبر کرنے والا ہر حال میں کامیاب رہتا ہے۔
4. جو اللہ کی رضا پر خوش ہوتا ہے، اللہ بھی اس سے راضی ہوتا ہے۔
نتیجہ:
لہٰذا، ہمیں بھی اللہ کی تقدیر پر مکمل ایمان اور رضا رکھنی چاہیے تاکہ دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل ہو۔ ہر حال میں اللہ کے فیصلوں کو قبول کرنا ہی حقیقی ایمان کی علامت ہے اور یہی طرزِ زندگی ہمیں خوشحالی اور دائمی کامیابی کی طرف لے جاتا ہے۔