تعویذ باندھنے کا حکم
سوال: اس تعویذ کے باندھنے یا استعمال کرنے کا کیا حکم ہے جس کے بارے میں یہ علم ہو کہ یہ قرآنی آیات پر مشتمل ہے؟
جواب: بعض صحابہ کرام جیسے عبد اللہ بن عمرو بن العاص ، عائشہ رضی اللہ عنہم اور دیگر ، حضرات سے منقول ہے کہ تعویذ کا باندھنا یا استعمال کرنا جائز ہے ، بشرطیکہ وہ تعویذ آیات قرآنیہ یا اللہ پاک کے اسماء حسنیٰ پر مشتمل ہوں ، اور جن احادیث میں تعویذ کے استعمال کی ممانعت آئی ہے تو یہ وہ تعویذ ہیں جو شرکیہ کلمات پر مشتمل ہوں ۔ جبکہ دوسرے صحابہ کرام ، جیسے ابنِ عباس ، ابنِ مسعود ، حذیفہ اور ابن حکیم رضی اللہ عنہم ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ہر قسم کا تعویذ استعمال ہی نہ کیا جائے اور یہی مشہور روایت امام احمد رحمہ اللہ سے منقول ہے اور عموم احادیث کی بنیاد پر یہی قول زیادہ راجح معلوم ہوتا ہے ، جیسا کہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
من تعلق تميمة فلا اتم الله له
[المستدرك للحاكم 216/4 217 و مسند احمد 154/4 ۔ ضعفه الالبانى فى السلسلة الضعيفة ، ح 1266]
”جو شخص تعویذ استعمال کرے یا باندھے یا لٹکائے ، اللہ تعالیٰ اس کی مراد پوری نہ کرے ۔“
اور ایک دوسری حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
من تعلق تميمة فقد أشرك
[مسند احمد 156/4 صححه الألباني فى السلسلة الصحيحة ح 492]
”جس نے تعویذ لٹکایا بلاشبہ اس نے شرک کیا ۔“
نیز ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
من تعلق شيئا وكل إليه
[مسند احمد 310/4 وسنن التر مذى كتاب الطب ، باب ما جاء فى كراهية التعليق ۔ وسنن النسائى ، كتاب التحريم باب الحكم فى السحرة حسنه الألباني فى تحقيق الترمذى ح 2167]
”جس نے تعویذ لٹکایا اس کو اس کے حوالے کر دیا گیا ۔“
اور حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ جس نے کسی آدمی کے تعویذ کو کاٹ دیا یا توڑ دیا تو وہ ایک غلام آزاد کرنے کے برابر (اجر پاگیا) ہے ۔ اور حضرت ابراہیم النخعی سے مروی ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد ، مثلاًً علقمہ ، اسود ، مسروق اور عبیدۃ السلمانی وغیر ہم ہر طرح کے تعویذ کو نا پسند فرماتے تھے ، خواہ وہ تعویذ قرآن سے ہو یا قرآن کے علاوہ کوئی دوسری عبارت ہو ۔ اور یہاں کراہت کا لفظ حرمت کے معنی میں آیا ہے ۔
تعویذ سے منع کرنے کی دوسری وجہ اس راستے کو مطلقاً بند کرنا ہے ، تاکہ لوگ قرآن حکیم کے علاوہ دو سرے کلام پر مشتمل تعویذ کا استعمال نہ شروع کر دیں ۔
اور یہ کام اس لیے بھی منع کیا گیا ہے کہ تعویذ سے دل کا تعلق ہو جاتا ہے ، حالانکہ یہ تعویذ کسی کاغذ ، کپڑے ، چمڑے ، دھاگے یا ان جیسی دوسری چیزوں پر مشتمل ہوتے ہیں ، اور جو اپنا تعلق کسی مخلوق سے بنا لیتا ہے وہ اسی کے سپرد کیا جاتا ہے ۔
نیز اس لیے بھی منع کیا گیا ہے کہ جب کوئی شخص تعویذ کو کسی بچے کے گلے میں لٹکائے گا تو وہ ضرور اس کی بے حرمتی کرے گا بایں طور کہ وہ بچہ اس تعویذ کو لے کر غسل خانہ ، بیت الخلاء اور اس کے علاوہ دوسری گندی وغیر مناسب جگہوں میں جائے گا جہاں کلامِ الہی کو لے جانا اس کی بے حرمتی اور بے عزتی ہے ۔ اور مذکورو مروجہ تعویذ (جن کو لوگ عصر حاضر میں بالعموم استعمال کرتے ہیں) اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی دعاؤں اور اذکار کے ذریعے دم کرنے کے خلاف ہیں کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:
لا بأس بالرقى مالم تكن شركا [صحيح مسلم ، كتاب السلام باب لاباس بالرقى مالم يكن فيه شرك ، ح 2200 و سنن ابي داؤد ، كتاب الطب ، باب فى الرقي ، ح 3886]
”دم (جھاڑ پھونک) میں کوئی حرج نہیں ، جب کہ اس میں شرکیہ کلمات نہ ہوں (یا شرک کا شائبہ نہ ہو)“
دم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ قاری (پڑھنے والا) آیات قرآنیہ کو پڑھ کر معمولی تھوک کے ساتھ پھونک مارتا ہے نیز یہ دم قاری اور جگہ کی مناسبت سے ہوتا ہے واللہ اعلم !