تہذیب اور تصورِ علم
ہر تہذیب کا اپنا ایک منفرد تصورِ علم ہوتا ہے جو اس کے مقاصد اور اہداف کو واضح کرتا ہے۔ علم کی حقیقت اور اس کی درجہ بندی ایک تہذیب کے ما بعد الطبعیاتی عقائد سے جڑی ہوتی ہے۔ کسی بھی تہذیب کے لیے "علم کیا ہے؟” جیسے سوال کا جواب دینا، اُس کے بنیادی عقائد اور مقصدِ حیات کے بغیر ممکن نہیں۔ اس نکتے کو نظرانداز کرنے کے باعث کئی اہلِ علم مغربی علوم کو اسلامی تہذیب میں تلاش کرنے یا ان کی اسلامائزیشن کے جواز پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
مضمون کی ترتیب
اس مضمون میں علم اور سرمایہ دارانہ تصورِ علم کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے تین بنیادی سوالات کا جائزہ لیا گیا ہے:
- علم کیا ہے؟ (یعنی علم کی نوعیت اور حقیقت کیا ہے؟)
- علم کہاں سے آتا ہے؟ (یعنی علم کا منبع کیا ہے اور اس کی صحت کا معیار کیا ہے؟)
- سرمایہ دارانہ تصورِ علم کا اظہار کن علمی شکلوں میں ہوا؟
ایمانیات اور تصورِ علم کا تعلق
علم کا مقصد اور درجہ بندی
علم محض معلومات کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ عالم (جاننے والا) اور معلوم (جانے جانے والے) کے درمیان ایک با مقصد تعلق ہے۔ علم کی درجہ بندی ہمیشہ مقصد کے مطابق طے پاتی ہے۔ مثلاً:
- انجینئرنگ کے طالب علم کے نزدیک تاریخ کم اہم ہو سکتی ہے، جبکہ فلسفے کے طالب علم کے لیے تاریخ نہایت اہم ہو گی۔
اسلامی نقطۂ نظر سے، قرآن و حدیث کو اصل علم مانا گیا ہے کیونکہ یہی علم رضا الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ دوسرے تمام علوم کی درجہ بندی اس بات پر منحصر ہے کہ وہ مقصدِ حیات کے حصول میں کتنے معاون ہیں۔
سائنسی تصورِ علم کی نوعیت
سرمایہ دارانہ تہذیب میں علم کا مطلب زیادہ تر سائنسی اور تکنیکی ترقی سمجھا جاتا ہے۔ یہ تصور علم مغربی دنیا میں روشن خیالی
(Enlightenment)
کے دور میں پیدا ہوا، جب زندگی کے مقصد کو دنیاوی خواہشات کی تکمیل اور کائنات پر تسلط حاصل کرنے سے جوڑ دیا گیا۔
سرمایہ دارانہ تصورِ حقیقت کی ایمانیات
- آزادی: انسان کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی خواہشات کے مطابق خیر و شر کا تعین کرے۔
- مساوات: تمام انسانوں اور ان کی خواہشات کو مساوی اہمیت دی گئی ہے، چاہے وہ کسی بھی اخلاقی معیار پر پورا نہ اتریں۔
- ترقی: زندگی کا مقصد زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تکمیل اور دنیاوی وسائل میں اضافہ قرار دیا گیا ہے۔
سرمایہ دارانہ تصورِ علم کی خصوصیات
- غیر حتمیت: سائنسی علم میں کوئی حتمی سچائی موجود نہیں ہوتی؛ ہر نیا نظریہ پچھلے نظریے کو بدل سکتا ہے۔
- تجربیت: علم کی صحت کو تجربے کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے۔
- شک: ہر بات پر شک کرنا اور اسے رد کرنے کی کوشش کرنا علمی رویہ سمجھا جاتا ہے۔
- تحقیق برائے تحقیق: تحقیق کا مقصد محض نئے خیالات اور نظریات پیش کرنا ہے، چاہے ان کا کوئی حقیقی فائدہ نہ ہو۔
سرمایہ دارانہ علم کا اثر
اخلاقی انحطاط:
سرمایہ دارانہ علم کا مقصد انسان کی خواہشات کی تکمیل اور سرمائے میں اضافہ ہے، جس کے نتیجے میں:
- خود غرضی، حرص، حسد، دنیاوی محبت، اور لذت پرستی جیسے اخلاق رزیلہ عام ہو جاتے ہیں۔
- عبادات اور روحانی اقدار کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔
خریدو فروخت کی ذہنیت:
علم کو ایک تجارتی شے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو بیچا اور خریدا جا سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشرے کے ہر تعلق میں طلب اور رسد کا اصول حاوی ہو جاتا ہے، حتیٰ کہ خاندانی تعلقات بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔
نتائج
اسلامی تصورِ علم
- اسلامی تہذیب میں علم کا مقصد رضا الٰہی کا حصول ہے۔
- اصل علم وہ ہے جو انسان کو مقصدِ حیات یعنی "عبادتِ الٰہی” کے لیے رہنمائی فراہم کرے۔
- مغربی تصورِ علم، جو وحی کو علم ماننے سے انکار کرتا ہے، اسلامی نقطۂ نظر سے جہالت ہے۔
مسلمانوں کے لیے لائحہ عمل
ہمیں سرمایہ دارانہ علم کی حقیقت کو سمجھنا اور اس کا تنقیدی جائزہ لینا چاہیے۔ اسلامی معاشروں کو سرمایہ دارانہ ذہنیت کے بجائے وحی کی بنیاد پر تشکیل دینا ضروری ہے۔