نماز کے تشہد میں انگلی کا اشارہ اور ہاتھوں کی کیفیت
تحریر: عمران ایوب لاہوری

تشہد میں انگلی کا اشارہ اور ہاتھوں کی کیفیت

➊ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد کے لیے بیٹھتے:
وضع يده اليسرى على ركبته اليسرى واليمنى على اليمني وعقد ثلاثا و خمسين
”تو اپنا بایاں ہاتھ اپنے بائیں گھٹنے پر اور دایاں ہاتھ دائیں گھٹنے پر رکھتے اور ترپن کی گرہ لگاتے ۔“
و أشار بإصبعه السبابة
”اور اپنی انگشت شہادت سے اشارہ کرتے۔“
اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ :
وقبض أصابعه كلها وأشار بالتي تلي الإبهام
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام انگلیاں بند کر لیتے اور انگوٹھے کے ساتھ ملی ہوئی انگلی سے (یعنی شہادت والی انگلی سے) اشارہ کرتے ۔“
[أحمد: 65/2 ، مسلم: 913 ، كتاب المساجد ومواضع الصلاة: باب صفة الجلوس فى الصلاة ، موطا: 88/1 ، عبد الرزاق: 3046 ، نسائي: 36/3 ، بيهقي: 130/2]
➋ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ :
وقبض ثنتين وحلق حلقة وأشار بالسبابة
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو انگلیاں بند کیں اور ایک حلقہ بنا لیا اور انگشت شہادت سے اشارہ کیا۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 666 ، كتاب الصلاة: باب الإشارة فى التشهد ، أبو داود: 726 ، عبدالرزاق: 3080 ، بيهقي: 139/2]
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوران تشہد اپنی انگشت شہادت کو حرکت دیتے اور فرماتے:
لهى أشد على الشيطان من الحديد
”یہ انگلی شیطان کو لوہے سے زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے۔ “
[صفة الصلاة للألباني: ص/ 159]
جس روایت میں ہے کہ ولا يحركها ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوران تشہد انگلی کو حرکت نہیں دیتے تھے۔“ وہ شاذ ہے جیسا کہ :
شیخ البانیؒ نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔
[ضعيف أبو داود: 208 ، تمام المنة: ص/ 217 ، المشكاة: 912 ، ضعيف نسائي: 67]
علاوہ ازیں اگر یہ روایت صحیح ثابت ہو بھی جائے تب بھی اس سے مذکورہ مسئلہ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ یہ حدیث نافی ہے اور حدیث وائل مثبت اور علماء کے نزدیک یہ بات معروف ہے کہ مثبت کو نافی پر ترجیح حاصل ہوتی ہے۔
[صفة الصلاة للألباني: ص/ 139 ، تمام المنة: ص/ 217]
اس توضیح کے باوجود امام ابو حنیفہؒ کا موقف یہی ہے کہ دوران تشہیر مستقل انگلی کو حرکت نہیں دینی چاہیے۔
[تحفة الأحوذى: 196/2]

دوران تشہد نظر کہاں ہو

تشہد میں اپنی نظر انگشت شہادت اور اس کے اشارے کی طرف رکھنی چاہیے ۔
[تحفة الأحوذى: 196/2]
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لا يجاوز بصره إشارته ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے سے تجاوز نہیں کرتی تھی ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 874 ، كتاب الصلاة: باب الإشارة فى التشهد ، أبو داود: 990]
(نوویؒ) سنت یہی ہے کہ انسان کی نظر اس کے اشارے سے تجاوز نہ کرے۔
[المجموع: 435/3]

صحیح احادیث سے ثابت درود

➊ حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں یہ لفظ ہیں:
اللهم صل على محمد و على آل محمد كما صليت على ابراهيم و على آل إبراهيم إنك حميد مجيد ، اللهم بارك على محمد و على آل محمد كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد –
[بخاري: 3370 ، كتاب أحاديث الأنبياء]
➋ حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ لفظ ہیں:
اللهم صل على محمد وعلى أزواجه وذريته كما صليت على آل ابراهيم و بارك على محمد وأزواجه وذريته كما باركت على آل إبراهيم إنك حميد مجيد
[بخارى: 6360 ، كتاب الدعوات: باب هل يصلى على غير النبى ، مسلم: 407 ، أبو داود: 979 ، نسائي: 49/3 ، موطا: 165/1 ، أحمد: 424/5]
➌ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں یہ لفظ ہیں:
اللهم صل على محمد عبدك و رسولك كما صليت على إبراهيم وبارك على محمد وآل محمد كما باركت على إبراهيم وآل إبراهيم
[بخارى: 6358 ، كتاب الدعوات: باب الصلاة على النبى ، ابن ماجة: 903 ، نسائي: 1293]

کیا تشہد کے بعد درود پڑھنا فرض ہے

حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول :
أمرنا الله أن نصلى عليك فكيف نصلي عليك
اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ (یعنی صَلُّوا عَلَيْهِ وسلموا تَسْلِيمًا ) لٰہذا ہم کس طرح آپ پر درود بھیجیں کچھ توقف کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس طرح کہا کرو:
اللهم صل على محمد وعلى آل محمد كما صليت على ابراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد اللهم بارك على محمد و على آل محمد كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد
اور آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور سلام اُسی طرح ہے جیسا کہ تمہیں علم ہے۔“
[مسلم: 405 ، كتاب الصلاة: باب الصلاة على النبى بعد التشهد ، أبو داود: 980 ، أحمد: 273/5 ، ترمذي: 3220 ، نسائي: 45/3 ، موطا: 165/1 ، دارقطني: 354/1 ، حاكم: 268/1]
صحیح ابن خزیمہ اور مسند احمد کی روایت میں ہے کہ سائل نے کہا:
فكيف نـصـلـي عليك إذا نحن صلينا عليك فى صلاتنا؟
”جب ہم اپنی نمازوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجیں تو کس طرح بھیجیں۔ “
(امیر صنعانیؒ ) یہ حدیث دوران نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کے وجوب کی دلیل ہے ۔
[سبل السلام: 448/1]
علاوہ ازیں علماء نے نماز میں درود کے حکم میں اختلاف کیا ہے۔
(شافعیؒ ، احمدؒ) تشہد کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا واجب ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، حضرت جابر بن زید رضی اللہ عنہ ، امام شعمیؒ ، امام اسحاقؒ اور قاضی ابو بکر ابن عربیؒ وغیرہ کا بھی یہی موقف ہے۔
(جمہور ، مالکؒ ، ابو حنیفہؒ ) واجب نہیں ہے۔ امام ثوریؒ ، امام اوزاعیؒ ، امام طبریؒ اور امام طحاویؒ وغیرہ بھی اسی موقف کو ترجیح دیتے ہیں ۔
[شرح المهذب: 447/3 ، الأم: 228/1 ، الحاوى للماوردي: 137/2 ، روضة الطالبين: 370/1 ، المبسوط: 29/1 ، كشاف القناع: 359/1 ، سبل السلام: 271/1]
(شوکانیؒ) تشہد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا واجب نہیں ہے۔
[السيل الجرار: 22/1 ، نيل الأوطار: 199/2]
(صدیق حسن خانؒ) عام اہل علم کا یہی موقف ہے کہ یہ واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔
[الروضة الندية: 251/1]
(راجح) گذشتہ ابو سعود رضی اللہ عنہ کی حدیث اور مندرجہ ذیل حدیث وجوب کے قائل حضرات کے لیے ترجیح کا باعث ہے۔
حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو اپنی نماز میں اس طرح دعا کرتے سنا ، کہ نہ تو اس نے اللہ کی حمد بیان کی اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص نے جلدی کی“ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے پاس بلایا اور سمجھایا کہ :
إذا صلى أحدكم فليبدأ بتحميد ربه والثناء عليه ثم يصلى على النبى صلى الله عليه وسلم ثم يدعو بما شاء
”تم میں سے کوئی جب دعا مانگنے لگے تو پہلے اسے اپنے رب کی حمد و ثناء کرنی چاہیے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھیجنا چاہیے پھر اس کے بعد جو چاہے دعا مانگے.
[صحيح: صحيح أبو داود: 1314 ، كتاب الصلاة: باب الدعاء ، أبو داود: 1481 ، ترمذي: 3477 ، نسائي: 1284 ، ابن خزيمة: 710 ، بيهقي: 147/2 ، ابن حبان: 1960 ، أحمد: 18/6]
(البانیؒ) وجوب کا قول برحق ہے کیونکہ اللہ تعالٰی نے ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ان الفاظ میں درود پڑھنے کا حکم دیا ہے : يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمًا پھر صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اُس درود کے متعلق دریافت کیا جسے پڑھنے کا انہیں حکم دیا گیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں معروف درود ابراہیمی کے الفاظ سکھا دیے۔ صحابہ نے آیت سے سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کا حکم تشہد کے بعد ہے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انہیں اسی پر قائم رکھا اور وہ ہمیشہ اسی پر عمل کرتے رہے حالانکہ ان کے درمیان وحی نازل ہو رہی تھی اور ہم نے یہ چیز ان کے تواتر عمل سے حاصل کی ہے۔ صحابہ کا سوال اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے لیے وضاحت کرنا پھر صحابہ کا اُس (عمل ) پر دوام جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا قرآن میں وارد حکم کی تفسیر ہے اور یہ (دلیل) وجوب (کے اثبات کے ) قوی دلائل میں سے ہے۔
[التعليقات الرضية على الروضة الندية: 272/1 ، صفة صلاة النبى للألباني: ص/ 181-182]

کیا درمیانے تشہد میں بھی درود پڑھنا مشروع ہے

پہلے تشہد (یعنی درمیانے تشہد ) میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا صحیح حدیث سے ثابت ہے جیسا کہ حضرت سعد بن ہشام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا اے ام المومنین! (عائشہ رضی اللہ عنہا ) آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے متعلق بتائیں تو انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ کے لیے مسواک اور طہارت کے لیے پانی تیار کر دیتے۔ رات کے وقت جب اللہ تعالیٰ چاہتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھا دیتا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کرتے اور وضوء کرتے :
ثم يصلى تسع ركعات لا يجلس فيهن إلا عند الثامنة فيدعو ربه ويصلى على نبيه ويدعو ثم يسلم تسليما
” پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نو رکعتیں ادا کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھویں رکعت کے سوا کسی رکعت میں نہیں بیٹھتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اپنے رب سے دعا کرتے اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے پھر کھڑے ہو جاتے اور سلام نہیں پھیرتے تھے پھر نویں رکعت ادا کر کے بیٹھتے اور اللہ کی حمد اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے اور دعا کرتے پھر سلام پھیر دیتے ۔ “
[صحيح: صحيح نسائي: 1623 ، كتاب قيام الليل: باب كيف الوتر بتسع ، نسائي: 1721 ، أبو عوانة: 324/2 ، ابن ماجة: 1191 – بدون لفظ صلاة على النبي]
(البانیؒ) اس حدیث میں واضح ثبوت موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تشہد میں بھی اپنی ذات پر اسی طرح درود پڑھا جس طرح دوسرے تشہد میں پڑھا۔ اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ تو قیام الیل کے متعلق ہے کیونکہ ہم کہیں گے اصل بات یہ ہے کہ جو چیز کسی ایک نماز میں مشروع کی گئی ہے وہ اس کے علاوہ (دیگر نمازوں) میں بھی بغیر فرض و نفل کی تفریق کے مشروع ہے اور جس نے کسی فرق کا دعوی کیا اس پر دلیل پیش کرنا (لازم) ہے۔
[ تمام المنة: ص/ 224 -225]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے